ہمارے معاشرے میں ذہنی مسائل کو بیماری سمجھنے کے بجائے عیب تصور کیا جاتا ہے،سندس اصغر

بدھ 1 اکتوبر 2025 14:40

سیالکوٹ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 01 اکتوبر2025ء) دماغی امراض، ذہنی مسائل آج کے تیز رفتار ، دباؤ سے بھرپور دور کا سب سے بڑا چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔ معاشرے میں جہاں جسمانی صحت کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے وہیں ذہنی صحت کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے جس کے باعث بہت سے لوگ ڈپریشن، اضطراب، بے خوابی اور مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔

جدید دور میں ٹیکنالوجی، مسابقت ،معاشی دباؤ نے انسان کو اندرونی طور پر کمزور کر دیا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ذہنی مسائل کو بیماری سمجھنے کے بجائے عیب تصور کیا جاتا ہے۔ اسی سوچ نے بہت سے مریضوں کو علاج اور رہنمائی حاصل کرنے سے محروم کر رکھا ہے۔ ذہنی صحت پر توجہ دینا فرد کی ذاتی کامیابی کے ساتھ ساتھ معاشرتی خوشحالی کے لیے بھی ناگزیر ہے، کیونکہ ایک صحت مند دماغ ہی مثبت سوچ اور تعمیر و ترقی کی ضمانت دیتا ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار معروف ماہر نفسیات میڈم سندس اصغر نے مقامی رفاہی تنظیم کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا اور اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ذہنی امراض کو سنجیدگی سے لینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں ہر چوتھا شخص کسی نہ کسی نفسیاتی مسئلے کا شکار ہے، لیکن بدقسمتی سے ایسے مریضوں کو بروقت علاج اور مشاورت نہیں مل پاتی۔

انہوں نے کہا کہ ڈپریشن، انگزائٹی اور ذہنی دباؤ محض وقتی کیفیت نہیں بلکہ یہ سنگین امراض ہیں جو بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں خودکشی جیسے خطرناک رجحانات کو جنم دے سکتے ہیں۔ میڈم سندس اصغر نے زور دیا کہ ہمیں اپنے گھروں، تعلیمی اداروں اور دفاتر میں ایسا ماحول قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں لوگ کھل کر اپنے مسائل بیان کر سکیں اور انہیں شرمندگی یا طنز کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

انہوں نے کہا کہ ذہنی صحت پر بات کرنے کے لیے آگاہی مہمات، میڈیا کے مثبت کردار اور حکومتی سرپرستی نہایت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں ذہنی بیماریوں کو عموماً جادو، ٹونے یا وہم و گمان سے جوڑ دیا جاتا ہے، حالانکہ یہ امراض میڈیکل سائنس کے ذریعے قابل علاج ہیں۔ میڈم سندس اصغر نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ موبائل اور انٹرنیٹ کے حد سے زیادہ استعمال سے گریز کریں کیونکہ یہ عادت دماغی کمزوری اور سماجی تنہائی کو بڑھا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ طلبہ، اساتذہ اور والدین کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزاریں، بات چیت کریں اور اعتماد کا رشتہ قائم کریں تاکہ ذہنی دباؤ کم ہو سکے۔اپنےخطاب میں انہوں نے کہا ہمیں دماغی امراض کی بروقت تشخیص اور علاج کے لیے ماہرینِ نفسیات اور کونسلرز تک رسائی آسان بنانا ہوگی۔ حکومت کو چاہیے کہ صحت کے بجٹ میں نفسیاتی امراض کے علاج اور آگاہی پروگراموں کے لیے خصوصی فنڈز مختص کرے۔

میڈم سندس اصغر نے کہا کہ ذہنی دباؤ کا شکار افراد کو کبھی بھی اکیلا نہ چھوڑا جائے بلکہ ان کے ساتھ گفتگو، مشاورت اور حوصلہ افزائی کے ذریعے ان کا اعتماد بحال کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ خاندان کے افراد کی توجہ اور محبت سب سے مؤثر دوا ہے جو مریض کو جلد صحت یاب کر سکتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ تعلیمی نصاب میں ذہنی صحت سے متعلق مضامین شامل کیے جائیں تاکہ طلبہ کو ابتدائی عمر ہی سے اس بارے میں شعور حاصل ہو۔

ورک پلیس پر اسٹریس مینجمنٹ اور کاؤنسلنگ سینٹرز کا قیام بھی ایک مثبت قدم ہو گا جو ملازمین کی کارکردگی میں اضافہ کرے گا۔ سیمینار کے شرکاء نے اس خطاب کو نہایت معلوماتی اور رہنمائی سے بھرپور قرار دیا اور کہا کہ ایسے پروگرام معاشرے میں مثبت سوچ کو فروغ دیتے ہیں۔ تقریب کے اختتام پر رفاہی تنظیم کے عہدیداران نے میڈم سندس اصغر کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان کی یہ کاوش معاشرتی اصلاح اور ذہنی امراض کی روک تھام میں سنگِ میل ثابت ہوگی۔