دو ریاستی حل مشرقِ وسطی میں امن کی بنیاد بن سکتا ہے، شاہ عبداللہ

اسرائیلی،فلسطینی تنازع کے مجوزہ دوریاستی حل کے تحت فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر مشرقِ وسطی میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے، امید ہے کہ حزبِ اختلاف اور بشارالاسد کی حکومت کے درمیان مذاکرات کے حالیہ دور میں سیاسی عمل کا آغاز ہوجائے گا،عرب بلاک لیبیا اور یمن میں استحکام کی بحالی کے لیے کوششوں کی بھی حمایت کرتا ہے اردن کے شاہ کا عرب لیگ کے اٹھائیسویں سربراہ اجلاس کے آغاز کے موقع پر خطاب

بدھ 29 مارچ 2017 19:19

عمان(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعرات مارچ ء)اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے کہا ہے کہ اسرائیلی،فلسطینی تنازع کے مجوزہ دوریاستی حل کے تحت فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر مشرقِ وسطی میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے، دو ریاستی حل ہی عرب ،اسرائیل جامع امن معاہدے کی بنیاد بن سکتا ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق وہ بدھ کو بحیرہ مردار کے کنارے عرب لیگ کے اٹھائیسویں سربراہ اجلاس کے آغاز کے موقع پر خطاب کررہے تھے ۔

انھوں نے کہا کہ اردن کا مغربی ہمسایہ (اسرائیل) مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری کی سرگرمیوں میں تیزی لا کر امن کے مواقع کو گنوا رہا ہے۔شاہ عبداللہ نے شام کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ حزبِ اختلاف اور بشارالاسد کی حکومت کے درمیان مذاکرات کے حالیہ دور میں سیاسی عمل کا آغاز ہوجائے گا۔

(جاری ہے)

انھوں نے کہا کہ عرب بلاک لیبیا اور یمن میں استحکام کی بحالی کے لیے کوششوں کی بھی حمایت کرتا ہے۔

عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابوالغیط نے افتتاحی سیشن سے خطاب میں کہا کہ فلسطینی کاز خطے کی مرکزی توجہ کا محور رہے گا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے درمیان اختلافات سے فلسطینی کاز پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔انھوں نے خطے میں جاری تنازعات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عرب دنیا میں بحران بہت سخت ہیں لیکن ان سے نبرد آزما ہونے اور انھیں شکست سے دوچار کرنے لیے عزم ان سے بھی سخت تر ہونا چاہیے۔

واضح رہے کہ عرب ممالک کے درمیان شامی تنازعے کے حل اور ایران کی خطے میں مداخلت سے نمٹنے کے حوالے سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ تاہم ان کا فلسطینی تنازع کے حوالے سے مقف ایک ہے اور وہ اس کا دو ریاستی حل چاہتے ہیں۔دریں اثنا فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی نے برطانوی خبررساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری تشویش یہ ہے کہ فلسطینی فائل کے معاملے میں عربوں میں اتفاق رائے ہونا چاہیے اور اس کی عرب ریاستوں اور ان کے لیڈروں کی امریکا کی نئی انتظامیہ کے ساتھ بات چیت میں عکاسی بھی ہونی چاہیے۔

واضح رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوری میں اقتدار سنبھالنے سے قبل امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا اور اگلے ہی روز نائب صدر مائیک پینس نے بھی کہا ہے کہ اس تجویز پر عمل درآمد کے لیے غور کیا جارہا ہے۔عرب ممالک اس اقدام کی سختی سے مخالفت کرچکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ایک طرح سے مقبوضہ بیت المقدس پر اسرائیلی تسلط کو تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا۔

اسرائیل نے اس شہر پر 1967 کی جنگ کے بعد سے قبضہ کررکھا ہے او بعد میں اس کو صہیونی ریاست میں ضم کر لیا تھا لیکن عالمی برادری نے کبھی اس کے اس اقدام کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ وہ اس کو اپنا دائمی اور غیر منقسم دارالحکومت قرار دیتا ہے جبکہ فلسطینی اس کو اپنی مستقبل میں قائم ہونے والی ریاست کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :