Choti Si Naiki - Article No. 2433

Choti Si Naiki

چھوٹی سی نیکی - تحریر نمبر 2433

آج ابراہیم بہت خوش تھا اور اس کی تمام فکر دور ہو گئی تھی۔اب اس نے دوسرے لوگوں کو بھی نیکی میں شریک کر لیا تھا۔

منگل 10 جنوری 2023

ماہین خالد،راولپنڈی
ابراہیم آج جب امی کے ساتھ بازار سے سودا سلف خرید کر بس میں بیٹھا تھا۔بس چلنے لگی تو ایک بچہ بس میں داخل ہوا۔میلے کچیلے کپڑے،ٹوٹے ہوئے جوتے اور بکھرے بالوں والا وہ بچہ کافی صحت مند تھا۔اس نے بس میں موجود لوگوں کو پہلے سلام کیا اور پھر اس نے بتایا کہ اس کے ابو مستری تھے،جو مکان کی تعمیر کے دوران چھت سے گر کر فوت ہو گئے۔
گھر میں پانچ چھوٹے بہن بھائی ہیں۔کھانا کھا کر وہ دعائیں دیں گے۔اللہ آپ کو محتاج نہ کرے۔مہربانی کرکے میری کچھ مدد کریں۔بچہ تقریباً بارہ سال کا تھا۔وہ کافی دیر بس میں کھڑا رہا۔سوائے ایک خاتون اور دو بوڑھے مردوں کے کسی نے اس کی مدد نہ کی۔
ابراہیم نے جب اپنی امی سے کہا کہ وہ بھی اس کو کچھ پیسے دیں تو امی نے کہا کہ کچھ لوگ اس طرح سے بچوں سے بھیک منگواتے ہیں۔

(جاری ہے)

ابراہیم نے امی سے بحث نہ کی۔گھر آ کر بھی وہ سارا دن بے چین رہا۔رات کو سوتے ہوئے بھی اس کی آنکھوں کے سامنے بار بار وہ بچہ آتا رہا۔ابراہیم نے اپنا اور اس کا موازنہ کیا۔ابراہیم کے ابو کا انتقال ہو چکا تھا۔امی ایک گورنمنٹ اسکول میں ٹیچر تھیں۔ابراہیم سے چھوٹی دو بہنیں اقراء اور مریم تھیں۔ابراہیم پندرہ سال کا تھا۔اس نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا تھا۔
ابراہیم کو اچھا کھانا اور کپڑے ملتے تھے اور اس بچے نے میلے کچیلے کپڑے پہن رکھے تھے جب کہ اس کو کھانے کے لئے بھی بھیک مانگنا پڑ رہی تھی۔ابراہیم بار بار خود کو یہ کہہ کر مطمئن کرتا رہا کہ امی ٹھیک کہہ رہی ہیں،لیکن اس کا دل مطمئن نہیں تھا۔اس دوران وہ نیند کی وادیوں میں چلا گیا۔
دو دن بعد جب ابراہیم اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیل کر واپس آ رہا تھا تو اس کو وہ بچہ نظر آیا،جو کوڑا کرکٹ کے ڈھیر میں سے کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔
کچھ دیر بعد ایک آدمی اور پھلوں کے چھلکے پھینک کر چلا گیا۔بچے نے فوراً وہ چھلکے اُٹھائے اور دوسری سمت چل پڑا۔ابراہیم بھی اس کے پیچھے چل پڑا۔تھوڑی دیر بعد وہ ایک کچی بستی میں پہنچ گئے۔وہ بچہ ایک جھونپڑی میں داخل ہوا تو ابراہیم دروازے میں کھڑا ہو گیا۔جیسے ہی اس بچے نے پھلوں کے چھلکے رکھے،پانچ چھوٹے بچے چھلکوں کی طرف لپکے۔گرمیوں کا موسم تھا اور گرمیوں کے زیادہ تر پھل چھلکوں والے ہی ہوتے ہیں۔

بچے چھلکوں پر لگا بچا کچا گودا کھا رہے تھے جب کہ بچوں کی ماں ساتھ والی چارپائی پر بیٹھی تھی۔یہ سب دیکھ کر ابراہیم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔وہ جب گھر واپس آیا تو اس نے اپنی امی کو سب بتا دیا،جسے سن کر اس کی امی بہت دکھی ہوئیں۔انھوں نے گھر سے کچھ راشن،فالتو کپڑے اور کچھ پیسے لیے اور ابراہیم کے ساتھ اس بچے کی جھونپڑی میں گئیں۔ابراہیم اور اس کی امی کو دیکھ کر وہ لوگ بہت حیران ہوئے۔جب ابراہیم کی امی نے انھیں سامان پکڑایا تو عورت کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔اس نے ابراہیم اور ان کی امی کا شکریہ ادا کیا۔آج ابراہیم بہت خوش تھا اور اس کی تمام فکر دور ہو گئی تھی۔اب اس نے دوسرے لوگوں کو بھی نیکی میں شریک کر لیا تھا۔

Browse More Moral Stories