Aik Cheel Ki Kahani Jo Kabootar Ki Taak Me Thi - Article No. 1528

Aik Cheel Ki Kahani Jo Kabootar Ki Taak Me Thi

ایک چیل کی کہانی - تحریر نمبر 1528

یہ اس چیل کی کہانی سے جو کئی دن سے ایک بڑے سے کبوتر خانے کے چاروں طرف منڈلارہی تھی اور تاک میں تھی کہ کسی اُڑتے کبوتر پر جھپٹا مارکراسے کھا جائے لیکن کبوتر بھی بہت پھر تیلے ،ہوشیار اور تیز اڑان تھے۔جب بھی وہ چیل کسی کبوتر کو پکڑنے کی کوشش کرتی وہ پھرتی سے بچ کر نکل جاتا۔

منگل 11 اگست 2020

بچو!یہ اس چیل کی کہانی سے جو کئی دن سے ایک بڑے سے کبوتر خانے کے چاروں طرف منڈلارہی تھی اور تاک میں تھی کہ کسی اُڑتے کبوتر پر جھپٹا مارکراسے کھا جائے لیکن کبوتر بھی بہت پھر تیلے ،ہوشیار اور تیز اڑان تھے۔جب بھی وہ چیل کسی کبوتر کو پکڑنے کی کوشش کرتی وہ پھرتی سے بچ کر نکل جاتا۔چیل بہت پریشان تھی کہ کیا کرے۔آخر اس نے سوچا کہ کوئی اور چال چلنی چاہیے۔

چیل کئی دن تک سوچتی رہی۔آخر اس کی سمجھ میں ایک ترکیب آئی ۔چیل مہمان بن کر کبوتروں کے پاس گئی۔کچھ دیر اسی طرح بیٹھی رہی اور پھر پیار سے بولی:بھائیو!اور بہنو!میں تمہاری طرح دوپیروں اور دو پروں والا پرندہ ہوں۔تم بھی آسمان پر آڑسکتے ہو۔
میں بھی آسمان پر اڑ سکتی ہوں۔فرق یہ ہے کہ میں بڑی ہوں اور تم چھوٹے ہو۔میں طاقت ورہوں اور تم میرے مقابلے میں کمزور ہو۔

(جاری ہے)

میں دوسروں کا شکار کرتی ہوں،تم نہیں کر سکتے۔میں بلی کو حملہ کرکے زخمی کرسکتی ہوں اور اسے اپنی نوکیلی چونچ اور تیز پنجوں سے مار بھی سکتی ہوں۔تم یہ نہیں کر سکتے۔تم ہر وقت دشمن کی زد میں رہتے ہو۔
میں چاہتی ہوں کہ پوری طرح تمہاری حفاظت کروں،تاکہ تم بلی کے خوف سے آزاد ہو کر ہنسی خوشی،آرام اور اطمینان کے ساتھ رہ سکو۔آزادی تمہارا پیدائشی حق ہے اور تمہار ی آزادی کی حفاظت میرا فرض ہے۔
میں تمہارے لیے ہر وقت پریشان رہتی ہوں۔تم ہر وقت بلی کے خطرے سے ڈرے سہمے رہتے ہو۔پس مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ تم سب مجھ سے ڈرتے ہو۔
کبوتر بھائیو!اور بہنو!میں ظلم کے خلاف ہوں۔میری خواہش ہے کہ تم سب ہر خوف سے آزاد اطمینان اور سکون کی زندگی بسر کر سکو۔
میں چاہتی ہوں کہ تمہارے میرے درمیان ایک سمجھوتا ہو۔ہم سب عہد کریں کہ ہم مل کر امن کے ساتھ رہیں گے۔
مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے اور آزادی کی زندگی بسر کریں گے،لیکن یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ تم دل وجان سے مجھے اپنا بادشاہ مان لو۔
جب تم مجھے اپنا بادشاہ مان لوگے اور مجھے اختیار دے دوگے تو پھر تمہاری حفاظت اور تمہاری آزادی پوری طرح میری ذے داری ہوگی۔
چیل روز کبوتروں کے پاس آتی اور بار بار بڑے پیار محبت سے ان باتوں کو دہراتی۔

رفتہ رفتہ کبوتر اس کی اچھی اور میٹھی میٹھی باتوں پر یقین کرنے لگے۔
ایک دن کبوتروں نے آپس میں مشورہ کرکے طے کیا اور اسے اپنابادشاہ مان لیا۔تخت نشینی کی بڑی شان
دار تقریب ہوئی۔چیل نے بڑی شان سے حلف اٹھایا اور سب کبوترں کی آزادی ،حفاظت اور ہر ایک سے انصاف کرنے کی قسم کھائی ۔جواب میں کبوتروں نے پوری طرح حکم ماننے اور بادشاہ چیل سے پوری طرح وفاداررہنے کی قسم کھائی۔

بچو!پھر یہ ہوا کہ کچھ دنوں تک چیل کبوتروں کے ٹھکانے کی طرف اسی طرح آتی رہی اور ان کی خوب دیکھ بھال کرتی رہی۔
ایک دن بادشاہ چیل نے ایک بلے کو وہاں دیکھا تو اس پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایسا زبردست حملہ کیا کہ بلا ڈر کر بھاگ گیا۔یہ منظر دیکھ کر کبوتروں کے دل میں چیل کی عزت اور اس پر اعتبار میں مزید اضافہ ہو گیا۔
چیل اکثر اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے کبوتروں کو لبھاتی اور انہیں حفاظت اور آزادی کا احساس دلاتی ۔
اسی طرح کچھ وقت اورگزر گیا۔کبوتر اب بغیر ڈرے اس کے پاس چلے جاتے۔وہ سب چیل کی وجہ سے اپنی آزادی اور حفاظت کے خیال سے بہت خوش اور مطمئن تھے۔
ایک صبح جب کبوتر دانہ چگ رہے تھے تو چیل ان کے پاس آئی۔وہ کمزور دکھائی دے رہی تھی۔معلوم ہوتا تھا جیسے وہ بیمار ہے ۔کچھ دیر وہ چپ چاپ بیٹھی رہی اور پھر شاہانہ آواز میں بولی:
کبوتر بھائیو!اور بہنو!میں تمہاری حکمران ہوں۔
تم نے سوچ سمجھ کر مجھے اپنا بادشاہ بنایا ہے۔میں تمہاری حفاظت کرتی ہوں اور تم چین اور امن سے رہتے ہو۔تم جانتے ہو کہ میری بھی کچھ ضرورتیں ہیں۔یہ میرا شاہی اختیار ہے کہ جب میرا جی چاہے میں اپنی مرضی سے تم میں سے ایک کو پکڑوں اور اپنے پیٹ کی آگ بجھاؤں۔میں آخر کب تک بغیر کھائے پیے زندہ رہ سکتی ہوں․․․؟میں کب تک تمہاری خدمت اور تمہاری حفاظت کر سکتی ہوں․․․؟یہ صر ف میرا ہی حق نہیں ہے کہ میں تم میں سے جس کو چاہوں پکڑوں اور کھا جاؤں ،بلکہ یہ میرے شاہی خاندان کا حق ہے ۔
آخر وہ بھی تو میرے ساتھ مل کر تمہاری آزادی کی حفاظت کرتے ہیں ۔اس دن اگر اس بڑے سے بلے پرمیں اور میرے خاندان والے مل کر حملہ نہ کرتے تو وہ بلا نہ معلوم تم میں سے کتنوں کو کھا جاتا اور کتنوں کو زخمی کر دیتا۔
یہ کہہ کر بادشاہ چیل قریب آئی اور ایک موٹے سے کبوتر کو پنجوں میں دبوچ کرلے گئی۔ سارے کبوتر منہ دیکھتے رہ گئے۔
اب بادشاہ چیل اور اس کے خاندان والے روز آتے اور اپنی پسند کے کبوتر کو پنجوں میں دبوچ کرلے جاتے ۔
اس تباہی سے کبوتر اب ہر وقت پریشان اور خوف زدہ رہنے لگے۔ان کا چین اور سکون ختم ہو گیا تھا۔ان کی آزادی ختم ہو گی۔وہ اب خود کو پہلے سے بھی زیادہ غیر محفوظ سمجھنے لگے اور کہنے لگے :
ہماری بے وقوفی کی یہی سزا ہے ۔آخر ہم نے چیل کو اپنا بادشاہ کیوں بنایا تھا․․․․؟اب کیا ہو سکتاہے ․․․․؟

Browse More Moral Stories