Alfaz Ka Jadu - Article No. 2329

Alfaz Ka Jadu

الفاظ کا جادو - تحریر نمبر 2329

بات کرتے الفاظ کا چناؤ اور شریں لہجہ کتنا ضروری ہے

پیر 15 اگست 2022

ساجد کمبوہ
ندیم اور نعیم دونوں بھائی تھے دونوں ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے۔ایک جیسا لباس ایک جیسے بیگ اور ایک طرح کے جوتے پہنتے تھے۔پڑھائی میں بھی تقریباً ایک جیسے تھے فرق تھا تو بول چال،لب و لہجے کا سب لڑکے محسوس کرتے کہ ندیم دھیمے لہجے،سلجھے انداز اور دھیمی سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے رکھتا۔جبکہ نعیم اکھڑے طریقے سے بولتا۔
آنکھیں سرخ اور منہ سے جھاگ نکلتی محسوس ہوتی۔والدین بھی اس کی عادت سے پریشان تھے،محسوس ہوتا کہ کسی سے لڑ رہا ہے۔اکثر اس کی بات سچ ہوتی مگر طرز بیان برا لگتا تھا۔
ٹیچر صاحبان بھی اس کی اس عادت سے نالاں تھے مگر اس کی فطرت بن چکی تھی اور فطرت بدلتی نہیں ایک بار شیخوپورہ جا رہے تھے کہ گاڑی میں منجن (دانت صاف کرنے والا پاؤڈر) بیچنے والا آ گیا۔

(جاری ہے)

اس نے اپنے منجن کی تعریفیں شروع کر دیں سب مسافر سنتے رہے مگر یہ باز نہ رہ سکا اور کہنے لگا”پہلے اپنے میلے کچیلے دانت دیکھو انہیں صاف کرو پھر کسی کو بیچنا۔“وہ بیچارہ کہنے لگا”باؤ جی!روزی کمانے دو آپ کی مہربانی ہو گی۔مگر یہ کب باز آنے والا تھا۔بولا پہلے تولو پھر بولو تمہارے دانت پیلے ہیں اور تم منجن کی تعریفیں کر رہے ہو تمہیں پہلے خود․․․․سبھی اس کی طرف دیکھنے لگے بات تو ٹھیک تھی مگر طرز بیان اچھا نہ تھا۔
وہ بیچارا اگلے سٹاپ پر اُتر گیا۔اکثر مسافر ہنسنے لگے یہی بات آرام سے بھی کی جا سکتی تھی شاید وہ عمل کر لیتا۔ایک دن کلاس میں ”دھیمے انداز میں طرز گفتگو“ موضوع بحث تھا۔ایک سٹوڈنٹ نے ٹیچر کی توجہ نعیم کی طرف دلائی ٹیچر نے اسے سمجھانے کے لئے ایک واقعہ سنایا کہ بات کرتے الفاظ کا چناؤ اور شریں لہجہ کتنا ضروری ہے۔کسی بادشاہ نے دوسرے بادشاہ کے ملک پر حملہ کر دیا۔
بادشاہ نے حکم دیا ہم جنگ پر جا رہے ہیں فوراً دست شناس کو بلایا جائے کہ ایسی کون سی تدبیر ہو گی کہ ہم فاتح رہیں۔
جب شاہی دست شناس کو بادشاہ کا حکم سنایا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ کافی دنوں سے بیمار ہے۔بادشاہ کے دربار میں حاضر نہیں ہو سکتا مگر بادشاہ کا حکم بھی ٹالا نہیں جا سکتا تھا۔اس نے ایک ہونہار شاگرد کو یہ کہہ کر بادشاہ کی طرف روانہ کیا کہ یہ میری طرح کا دست شناس ہے میری اور اس کی باتوں میں کچھ فرق نہ ہو گا۔
جب شاگرد بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا تو بادشاہ نے اس کے آنے کی وجہ پوچھی جب اسے بتایا گیا کہ شاہی دست شناس بیمار ہے اور اس نے اپنے شاگرد کو بھیجا ہے بادشاہ نے کہا”فوراً میرا ہاتھ دیکھو اور بتاؤ کہ جنگ کا کیا ہو گا؟“
شاگرد نے بادشاہ کا ہاتھ دیکھا اور بتانا شروع کر دیا۔آپ کو اور آپ کی فوج کو بری طرح شکست ہو گی۔ان میں کچھ لوگ آپ کا ساتھ چھوڑ جائیں گے اور جنگ میں آپ پکڑے جائیں گے آپ کو میدان جنگ میں گھسیٹا جائے گا۔
بادشاہ کا غصے سے بُرا حال ہو گیا۔
اس نے حکم دیا کہ اس کی آخری خواہش پوری کرکے سولی پر لٹکا دو۔سپاہی نے اس کی آخری خواہش پوچھی۔اس نے کہا میری خواہش میرے استاد محترم سے ملاقات کروائی جائے۔شاہی ہرکارے دوڑے گئے اور دست شناس کو سارا ماجرا کہہ سنایا۔استاد دست شناس کسی نہ کسی طرح شاہی دربار میں پہنچا اور بادشاہ سے ملاقات کی۔بادشاہ نے کہا”کس نالائق کو ہمارے پاس بھیجا تھا؟“دست شناس نے کہا”اسے چھوڑدیجیے۔

میں آپ کا ہاتھ دیکھتا ہوں اور ہاتھ دیکھ کر کہنے لگا”آپ بہت جوانمردی اور بہادری سے لڑیں گے آپ کی فوج سے ڈرپوک اور بزدل لوگ بھاگ جائیں گے اور کچھ نمک حرام اور غدار آپ کا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔بزدل دشمن کو آپ کا سامنا کرنے کی جرأت نہ ہو گی وہ آپ کے پیچھے سے وار کرے گا جس میں آپ کی جان جانے کا بھی خطرہ ہے۔آپ بہادری اور جوانمردی سے دشمن کا مقابلہ کریں گے۔
آخری دم تک مقابلہ کریں گے اور رہتی دنیا تک آپ کا نام بہادر لوگوں میں سے ہو گا اور مرنے کے بعد تو کسی کے ساتھ بھی کچھ ہو سکتا ہے اس لئے وہ بزدل دشمن اپنے انتقام کی خاطر آپ کی لاش کو گھوڑوں کے پیچھے باندھ کر آپ کی لاش کی بے حرمتی کریں گے۔بادشاہ پامسٹ کے تعریفانہ جملوں سے بہت خوش ہوا۔شاہی دست شناس کو مالا مال کرنے کا حکم دیا۔شاہی دست شناس نے کہا”بادشاہ سلامت مجھے انعام نہیں چاہیے میرے نالائق شاگرد کو رہا کر دیں۔
یہ میرے لئے بہت بڑا انعام ہو گا۔“بادشاہ نے حکم دیا۔انعام کے ساتھ اس کے شاگرد کو بھی رہا کر دیا جائے۔شاہی پامسٹ اور اس کا شاگرد جب دربار سے باہر نکلنے لگے تو شاگرد نے کہا”استاد جی!جو باتیں میں نے بتائیں وہی باتیں آپ نے بتائیں مجھے سزا اور آپ کو انعام کیوں؟
شاہی دست شناس نے جواب دیا”باتیں تو ہم دونوں کی ایک طرح کی تھیں لیکن دونوں کا طرز گفتگو الگ الگ تھا۔
میرے ہر جملے سے بادشاہ خوش ہوتا گیا اور تمہارے ہر جملے سے بادشاہ کو غصہ آتا گیا۔“اس لئے سیانے کہتے ہیں”میٹھے بول میں جادو ہے۔“بات ندیم اور نعیم کی ایک جیسی بھی ہو مگر طرز تخاطب میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ندیم کا لہجہ دھیما اور سلجھا ہوا اور نعیم کا انداز غصیلا ہوتا ہے۔اب نعیم شرمندہ ہو رہا تھا ٹیچر کی بات ٹھیک تھی۔اس نے دل میں ارادہ کر لیا کہ وہ بھی اپنی گفتگو میں نرمی اور لہجہ درست رکھے گا۔پیارے ساتھیو!اسی لئے کہتے ہیں کہ میٹھے بول میں جادو ہے۔

Browse More Moral Stories