Chacha Bahadur - Article No. 1986

چچا بہادر - تحریر نمبر 1986
چچا کی بہادری کی وجہ سے گاؤں کے لوگوں کو بھی چوری سے نجات مل گئی اور ساتھ ہی ان کی بیٹی کا مستقبل بھی سنور گیا
منگل 8 جون 2021
اریبہ ارم اعوان،مظفر گڑھ
وہ چھوٹے چھوٹے گھروں پر مشتمل ایک خوبصورت گاؤں تھا۔جہاں سر سبز کھیت لہلہا رہے تھے۔صبح شام مختلف پرندوں کی سریلی آواز سے نغمگی پھیل جاتی۔پھولوں کی خوشبو فضا کو مزید معطر بنا دیتی۔پھر شاید اس خوبصورت گاؤں کو کسی کی نظر لگ گئی۔چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں تواتر سے ہونے لگیں۔لوگ ان وارداتوں سے تنگ آچکے تھے،مگر اس مسئلے کا حل نہیں مل رہا تھا۔پولیس نے بھی کوشش کی،مگر ناکام رہی۔وہ چوری یا ڈکیتی کرکے فوراً غائب ہو جاتے۔کوئی نہ کوئی ان کا شکار بن ہی جاتا تھا۔
ایک دن چچا دین محمد شام کے وقت گھر لوٹ رہے تھے۔وہ کچھ خوف زدہ سے لگ رہے تھے۔وہ جلدی جلدی اپنے گھر کی طرف قدم اُٹھا رہے تھے۔ان کے ہاتھ میں سنہرے بالوں والی ایک خوبصورت سی گڑیا تھی جو وہ اپنی بیٹی کے لئے لے کر جا رہے تھے۔
ان کے پاس کچھ نقدی بھی تھی۔
ابھی وہ پگڈندی پر ہی تھے کہ جھاڑیوں میں سرسراہٹ ہوئی۔وہ خوف زدہ نظروں سے چاروں جانب دیکھنے لگے،مگر انھیں کوئی نظر نہ آیا۔ اندھیرا بھی بہت ہو چکا تھا۔ابھی وہ دو قدم ہی چلے تھے کہ کسی نے پیچھے سے ان پر چھلانگ لگائی۔وہ منہ کے بل گرے اور ان کے منہ سے درد ناک چیخ بلند ہوئی،لیکن وہ فوراً کھڑے ہو گئے۔فوراً ایک ڈاکو ان کے قریب آیا اور ان کی کنپٹی پر پستول رکھ کر کہا:”جو کچھ بھی ہے باہر نکالو اور ہمارے حوالے کر دو۔“
جب چچا گرے تھے تو ان کے ہاتھ سے گڑیا کہیں دور جا گری تھی۔انھوں نے نقدی ڈاکو کے حوالے کر دی۔نقدی ان کے حوالے کرنے کے بعد چچا گھر آگئے۔ان کی یہ حالت دیکھ کر سب پریشان ہو گئے۔ان کی بیٹی راضیہ کو جب پتا چلا تو اپنے والد سے معافی مانگی کہ آئندہ فضول چیزوں کے لئے ضد نہیں کرے گی۔
دوسرے دن صبح گاؤں میں ڈاکوؤں کے پکڑے جانے کی خبر پھیل گئی۔سب لوگ حیران تھے،مگر چچا مسکرا رہے تھے،کیونکہ یہ انہی کا منصوبہ تھا۔جب لوگ وارداتوں سے تنگ آگئے تو چچا نے ایک منصوبہ بنایا اور خود ہی اس پر عمل کیا۔انھوں نے پولیس کو منصوبے سے آگاہ کیا۔ پولیس کھیتوں میں چھپ گئی۔جب چچا نے چیخ ماری،جو پولیس کو ڈاکوؤں کی موجودگی کا احساس دلانے کا اشارہ تھی۔پولیس نے ڈاکوؤں کو پکڑ لیا۔اس بہادری پر چچا کو پولیس کے محکمے کی طرف سے بڑا انعام ملا۔اس کے ساتھ ہی حکومت نے بیٹی کی تعلیم کا خرچ بھی اُٹھا لیا۔چچا کی بہادری کی وجہ سے گاؤں کے لوگوں کو بھی چوری سے نجات مل گئی اور ساتھ ہی ان کی بیٹی کا مستقبل بھی سنور گیا۔
وہ چھوٹے چھوٹے گھروں پر مشتمل ایک خوبصورت گاؤں تھا۔جہاں سر سبز کھیت لہلہا رہے تھے۔صبح شام مختلف پرندوں کی سریلی آواز سے نغمگی پھیل جاتی۔پھولوں کی خوشبو فضا کو مزید معطر بنا دیتی۔پھر شاید اس خوبصورت گاؤں کو کسی کی نظر لگ گئی۔چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں تواتر سے ہونے لگیں۔لوگ ان وارداتوں سے تنگ آچکے تھے،مگر اس مسئلے کا حل نہیں مل رہا تھا۔پولیس نے بھی کوشش کی،مگر ناکام رہی۔وہ چوری یا ڈکیتی کرکے فوراً غائب ہو جاتے۔کوئی نہ کوئی ان کا شکار بن ہی جاتا تھا۔
ایک دن چچا دین محمد شام کے وقت گھر لوٹ رہے تھے۔وہ کچھ خوف زدہ سے لگ رہے تھے۔وہ جلدی جلدی اپنے گھر کی طرف قدم اُٹھا رہے تھے۔ان کے ہاتھ میں سنہرے بالوں والی ایک خوبصورت سی گڑیا تھی جو وہ اپنی بیٹی کے لئے لے کر جا رہے تھے۔
(جاری ہے)
ابھی وہ پگڈندی پر ہی تھے کہ جھاڑیوں میں سرسراہٹ ہوئی۔وہ خوف زدہ نظروں سے چاروں جانب دیکھنے لگے،مگر انھیں کوئی نظر نہ آیا۔ اندھیرا بھی بہت ہو چکا تھا۔ابھی وہ دو قدم ہی چلے تھے کہ کسی نے پیچھے سے ان پر چھلانگ لگائی۔وہ منہ کے بل گرے اور ان کے منہ سے درد ناک چیخ بلند ہوئی،لیکن وہ فوراً کھڑے ہو گئے۔فوراً ایک ڈاکو ان کے قریب آیا اور ان کی کنپٹی پر پستول رکھ کر کہا:”جو کچھ بھی ہے باہر نکالو اور ہمارے حوالے کر دو۔“
جب چچا گرے تھے تو ان کے ہاتھ سے گڑیا کہیں دور جا گری تھی۔انھوں نے نقدی ڈاکو کے حوالے کر دی۔نقدی ان کے حوالے کرنے کے بعد چچا گھر آگئے۔ان کی یہ حالت دیکھ کر سب پریشان ہو گئے۔ان کی بیٹی راضیہ کو جب پتا چلا تو اپنے والد سے معافی مانگی کہ آئندہ فضول چیزوں کے لئے ضد نہیں کرے گی۔
دوسرے دن صبح گاؤں میں ڈاکوؤں کے پکڑے جانے کی خبر پھیل گئی۔سب لوگ حیران تھے،مگر چچا مسکرا رہے تھے،کیونکہ یہ انہی کا منصوبہ تھا۔جب لوگ وارداتوں سے تنگ آگئے تو چچا نے ایک منصوبہ بنایا اور خود ہی اس پر عمل کیا۔انھوں نے پولیس کو منصوبے سے آگاہ کیا۔ پولیس کھیتوں میں چھپ گئی۔جب چچا نے چیخ ماری،جو پولیس کو ڈاکوؤں کی موجودگی کا احساس دلانے کا اشارہ تھی۔پولیس نے ڈاکوؤں کو پکڑ لیا۔اس بہادری پر چچا کو پولیس کے محکمے کی طرف سے بڑا انعام ملا۔اس کے ساتھ ہی حکومت نے بیٹی کی تعلیم کا خرچ بھی اُٹھا لیا۔چچا کی بہادری کی وجہ سے گاؤں کے لوگوں کو بھی چوری سے نجات مل گئی اور ساتھ ہی ان کی بیٹی کا مستقبل بھی سنور گیا۔
Browse More Moral Stories

میٹھے پھل
Meethay Phal

خوشامد بُری بلا ہے
Khushamad Buri Bala Hai

مسٹر بکرے آپ کیسے ہیں
Mr Bakray Aap Kaisay Hain

ایک بھوکا لاکھ پتی
Aik Bhooka Lakh Pati

نافرمان چُن مُن
Nafarman Chun Mun

آپ کا دوست پانی
Ap Ka Dost Paani
Urdu Jokes
میچ
Match
ایک خاتون
Aik Khatoon
مالک نوکر سے
Malik Nokar Se
اخبار کے ایڈیٹر
Akhbar ke editor
مولوی صاحب
Moulvi sahib
ایک جنگل میں
aik jungle mein
Urdu Paheliyan
سب نے دیکھا ہے ان کو
sab ne dekha hai unko
خالی کب ہو ایک گھڑا
khali kab ho aik ghara
بن در کے ہے ایک حویلی
bin dar ke hai aik haweli
سینہ چھلنی رنگت گوری
seena chalni rangat gori
بن کھانے کی چیز کو کھایا
bin khane ki cheez ko khaya
صدیوں کا ہے اک گلزار
sadiyon ka hai ek gulzar
ArticlesStoriesMiscellaneousGamesBaby NamesUrdu Videos