Aqalmand Chuhiya - Article No. 2650

Aqalmand Chuhiya

عقلمند چوہیا - تحریر نمبر 2650

چوہیا نے سب کو اپنے گھر بلا کر ان کی دعوت کی اور انہیں ہنس ہنس کر بتایا کہ اس نے کیا ترکیب لڑائی کہ کچھوا خودبخود اپنے پیروں سے چل کر دلدل میں جا گھسا یہ سن کر سب چوہوں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور خوب ہلہ گلہ کیا

پیر 8 اپریل 2024

فہیم یاسین
ایک چھوٹی سی پہاڑی میں چوہوں کے کئی بل تھے، اس پر پودے بھی لگے ہوئے تھے۔پودوں کے درمیان میں چوہوں کے بل دکھائی نہیں دیتے تھے۔ان بلوں میں ایک بل ایک چوہیا کا بھی تھا۔وہ اکیلی رہتی تھی۔وہ کافی عقلمند تھی، اکثر چوہے اپنے مسائل لے کر اس کے پاس آتے اور وہ اپنی عقل و فہم کے مطابق حل بتاتی۔اس کے مشورے اکثر چوہوں کی مشکل کو دور کر دیتے تھے۔
اسی لئے سب چوہے اس کی بڑی عزت کرتے تھے۔ایک بار یوں ہوا کہ برسات کے موسم میں بارشیں خوب برسیں، جس کے باعث کئی کیڑے مکوڑے اور دوسرے جانور گھبرا کر ان بلوں کی طرف آ گئے۔
چھوٹے موٹے کیڑے مکوڑے تو چوہوں کی غذا بن گئے، جبکہ بڑے کیڑوں کو انہوں نے وہاں سے مار بھگایا۔انہی میں ایک چھوٹا کچھوا بھی شامل تھا جو جسامت میں چوہوں سے تھوڑا سا بڑا تھا۔

(جاری ہے)

وہ ہر کسی کے بل میں گھس جاتا اور وہاں موجود ذخیرہ کی گئی خوراک چٹ کر جاتا۔چوہوں نے بڑی کوشش کی کہ اسے وہاں سے بھگا دیں،مگر انہیں کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔کچھوا بڑا ہوشیار اور چالاک تھا۔وہ چوہوں کی ہر چال کو ناکام بنا دیتا تھا۔تنگ آ کر سب چوہے عقلمند چوہیا کے پاس گئے اور اس سے مدد طلب کی۔
چوہیا نے سب چوہوں کو تسلی دی کہ وہ کچھوے سے نجات کے بارے میں کچھ سوچتی ہے۔
چوہے اس کی تسلی پر واپس لوٹ گئے۔کچھ دور پودوں کی آڑ میں کچھوا ان کی سب باتیں سن رہا تھا۔کچھوے نے پہلے چوہیا کو سبق سکھانے کا ارادہ کیا۔وہ چپکے سے اس کے بل میں داخل ہو گیا۔چوہیا،کچھوے کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ اس سے کیسے جان چھڑائی جائے؟کچھ دیر سوچنے کے بعد اس کے چہرے پر گہرا اطمینان پھیل گیا،جیسے وہ کوئی فیصلہ کر چکی ہو۔
کچھوا چوہیا کے بل میں داخل ہو گیا۔
چوہیا نے کوئی سوال نہیں کیا بلکہ دو موٹے موٹے سرخ بیر طشت میں رکھ کر وہ اس کے پاس چلی آئی۔کچھوا حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔چوہیا نے کہا کہ اس وقت گھر میں اور کوئی چیز نہیں ورنہ خاطر تواضح زیادہ کرتی۔کچھوے نے دونوں سرخ بیر اٹھائے اور ایک ایک کر کے منہ میں ڈال لئے۔پیروں کا گودا بڑا رسیلا اور میٹھا تھا۔کچھوے نے سوچا کہ وہ اب یہیں رہے گا،کم از کم میٹھے بیر تو کھانے کو ملیں گے۔
کچھوے کو معلوم نہیں تھا کہ پیر کے اندر گٹھلی ہوتی ہے،جسے چوس کر پھینک دیا جاتا ہے۔
اس نے لالچ میں آ کر گٹھلی نگلنے کی کوشش کی تو وہ اس کے حلق میں جا پھنسی۔پھر کیا تھا؟کچھوا تکلیف سے بلبلا اُٹھا۔اس سے نہ تو بولا جا رہا تھا اور نہ ہی صحیح طرح سے سانس لی جا رہی تھی۔کچھ ہی دیر بعد اسے سانس لینا دشوار ہو گیا۔چوہیا یہ دیکھ کر بڑی پریشان ہوئی کہ اگر کچھوا اس کی بل میں ہی مر گیا تو اسے کون اٹھا کر باہر لے جائے گا؟اچانک اس کے ذہن میں ترکیب آئی۔
اس نے کچھوے سے کہا کہ اگر وہ فوراً ڈاکٹر کے پاس چلا جائے تو وہ اس کی کچھ مدد کر سکتا ہے۔کچھوا تکلیف سے نہایت پریشان تھا۔اس نے اشارے سے ڈاکٹر کا پتا پوچھا تو اس نے اسے راستہ سمجھایا۔کچھوا گرتا پڑتا اُٹھا اور اس طرف چل پڑا۔
اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا حلق تھام رکھا تھا۔راستہ بڑا خراب تھا۔ہر طرف کیچڑ پھیلا ہوا تھا۔کچھوا اس سے بے خبر اپنی تکلیف کی شدت میں آگے بڑھتا چلا گیا۔
چوہیا اس کا پیچھا کر رہی تھی۔کچھوا جب کافی آگے بڑھ آیا تو اس کے پاؤں کیچڑ میں دھنس گئے۔وہ حلق کی تکلیف کو بھول کر کیچڑ سے پاؤں نکالنے کی کوشش کرنے لگا۔ایک طرف گٹھلی حلق میں پھنسی ہوئی اذیت پہنچا رہی تھی تو دوسری طرف دلدل آہستہ آہستہ اس کا جسم نگلتا جا رہا تھا۔
جب کچھوا دلدل میں بالکل غائب ہو گیا تو چوہیا نے اللہ کا شکر ادا کیا اور واپس اپنے گھر لوٹ آئی۔
کچھوے سے سب کی جان چھوٹ چکی تھی۔برسات کا موسم بھی ختم ہو چکا تھا تیز دھوپ ہر طرف پھل گئی تھی۔اب چوہوں کو کسی کا خوف باقی نہیں رہا تھا۔چوہیا نے سب کو اپنے گھر بلا کر ان کی دعوت کی اور انہیں ہنس ہنس کر بتایا کہ اس نے کیا ترکیب لڑائی کہ کچھوا خودبخود اپنے پیروں سے چل کر دلدل میں جا گھسا یہ سن کر سب چوہوں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور خوب ہلہ گلہ کیا۔

Browse More Moral Stories