Badil Ki Naseehat - Article No. 1500

Badil Ki Naseehat

بادل کی نصیحت - تحریر نمبر 1500

آسمان پر کالے بادل چھائے ہوئے تھے بادل اتنے گہرے تھے کہ دن میں بھی رات کا گمان ہورہا تھا۔

منگل 20 اگست 2019

فائقہ اجمل
آسمان پر کالے بادل چھائے ہوئے تھے بادل اتنے گہرے تھے کہ دن میں بھی رات کا گمان ہورہا تھا۔عمر تیزے سے اپنے کھیتوں کی طرف جارہا تھا تاکہ اگر بارش آجائے تو وہ گندم کے گھٹوں کو پلاسٹک کی چادر سے ڈھانپ دے ۔کچی سڑک پر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا چلا جارہا تھا گھنگور گھٹاؤں سے ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی تیز موسلاد ھار بارش شروع ہو جائے گی پھر چند ہلکی ہلکی بوندیں برسیں تو عمرنے بھا گنا شروع کر دیا اچانک اس نے ایک آواز سنی ایسی آواز تھی جیسے کوئی کسی ویران کنویں کے اندر سے بولا ہوتوعمر کے قدم رک گئے اس نے ادھر ادھر دیکھا کوئی بھی نظر نہ آیا،یہاں توکوئی بھی نہیں ہے۔
پھر یہ آواز کہاں سے آئی اس نے زیر لب کہا یہ میں ہوں۔سراٹھا کراوپر آسمان پردیکھا وہی آواز پھر آئی عمر نے اوپر آسمان کی طرف دیکھا آسمان پر اسے بادل کا بڑا سا ٹکڑا نظر آیا پھر اسے بادل کی آنکھیں اور ہونٹ بھی نظر آئے تم کون ہوں ذیشان نے ڈرتے ڈرتے پوچھا آواز آئی میں بادل ہوں۔

(جاری ہے)

عمر نے کہا میں نے اس شکل میں تمہیں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔
بادل نے کہا میں قطب شمالی کے برف پوش پہاڑوں کے اوپر رہتا ہوں میں دنیا دیکھنے نکلا ہوں ہوائیں مجھے ملک ملک لیے پھر رہی ہیں اب آدھی دنیا دیکھ چکا ہوں یہ کونسا ملک ہے؟عمر نے فخر سے کہا یہ میرا وطن پاکستان ہے۔

بادل نے کہا مجھے اپنے پیارے وطن کے بارے میں بتاؤ!عمر نے کہا کیوں نہیں ۔
عمر بولا میرا ملک ہرے بھرے میدانوں گھنے جنگلوں میٹھے پانی کے چشموں بل کھاتی ندی نالوں شورمچاتے آبشاروں اور ملک بوس پہاڑوں کا دیس ہے ۔اس کے چار موسم ہیں گرمی ،سردی،بہار ،خزاں ہر موسم کا الگ مزہ ہے۔
یہاں مٹی کو سونا بنانے والے مزدور اور کسان ہیں۔سمندروں کا سینہ چیرتے ملاح فضا میں اڑنے والے شاہین صفت ہواباز ہیں۔
ہمارے ملک میں درس گا ہیں ہیں۔تخلیق وجستجو کے سمندر سے آگاہی کے موتی چننے والے سائنس داں ہیں ۔ہم دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہیں۔ہمارا ملک اقوام عالم میں بھائی چارے اور امن کے فروغ کا خواہش مند ہے ۔ہم نے یہ پیارا وطن قربانیاں دے کر حاصل کیا ہے اور اس کی حفاظت اور حرمت کی خاطر سر پر کفن باندھے ہر وقت کٹ مرنے کے لیے تیار ہیں۔عمر بڑے جذبے سے یہ سب کہہ رہا تھا اور بادل کے ہونٹوں پرمسکراہٹ تھی ۔
بادل نے کہا اپنے وطن کے بارے میں تمہارے جذبات کی میں بے حد قدر کرتا ہوں مگر میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ یہاں کے اکثر لوگ وطن کی بہتری پر توجہ نہیں دے رہے ہیں سر سبز درختوں کو بے دردی سے کاٹ رہے ہیں یہ درخت فضا کو آلودگی سے پاک رکھتے ہیں لوگوں میں سجر کاری کا رجحان نہیں ہے کارخانوں اور گاڑیوں کے دھویں سے بھی فضائی آلودگی پیدا ہورہی ہے اس زہریلے دھویں میں سیسہ ہوتاہے جو انسان کی ذہنی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے شور بھی انسان کے مزاج پر اثر ڈالتا ہے شور یعنی(وائس پلوشن )کا شمار بھی آلودگی میں ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ مختلف ذہنی امراض میں تیزی سے مبتلا ہورہے ہیں۔

ان سب خرابیوں کی وجہ تعلیم کی کمی بھی ہے تم لوگوں کو چاہئے کہ جگہ جگہ درخت لگاؤ تاکہ ماحول بہتر ہو اور ذہنی اور جسمانی صحت اچھی رہے میری نصیحت یاد رکھنا اور یہ بھی نہ بھولنا کہ آج جو مفت کی نصیحت قبول نہیں کرے گا کل وہ مہنگے داموں افسوس خریدے گا۔اس وقت تیز ہوائیں چلنے لگیں درختوں کی شاخیں شائیں شائیں کرتی ہلنے لگیں بادل نے کہا اچھا دوست خدا حافظ پھر ہوائیں اسے اپنے جوش پر لئے دورافق کی طرف بڑھ گئیں۔
اچانک بارش کی بوچھاڑ سے عمر کو ہوش آگیا اس نے چونک کر اپنے آس پاس دیکھا اسے ایسا لگا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہا تھا پھر وہ اپنی گندم کو بارش سے بچانے کے لئے تیزی سے کھیتوں کی جانب دوڑا۔

Browse More Moral Stories