Bhula Hua Wada - Article No. 2617

Bhula Hua Wada

بھولا ہوا وعدہ - تحریر نمبر 2617

میں وعدہ کرتا ہوں، آئندہ اپنی سائیکل کا ہر طرح خیال رکھوں گا

جمعرات 4 جنوری 2024

نذیر انبالوی
شیراز چودہ سال کا ایک شیخی باز لڑکا تھا۔اسے سائیکل چلانے کا بہت شوق تھا۔سائیکل چلانے میں اسے اتنی مہارت ہو گئی کہ اب وہ سائیکل چلاتے ہوئے کرتب بھی دکھانے لگا تھا۔اس دوران سائیکل کے پُرزے بے جا استعمال کی وجہ سے جلدی گھس جاتے یا ٹوٹ جاتے۔
ایک دن وہ اسی طرح کرتب دکھاتا ہوا جا رہا تھا۔آس پاس سے گزرنے والے لوگ اسے سائیکل پر کرتب کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں،مگر کوئی اسے ایسا کرنے سے روک نہیں رہا۔
اچانک دھماکا ہوا۔سڑک پر چلتے ہوئے لوگوں نے شیراز کو گھورا۔پچھلے ٹائر کی ٹیوب ایک دھماکے سے پھٹ گئی تھی۔شیراز سائیکل سے اُتر گیا۔ٹیوب کے ساتھ ٹائر بھی پھٹ گیا تھا۔شیخی بگھارتے ہوئے شیراز گھر سے بہت دور نکل گیا تھا۔اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو سو روپے کا ایک نوٹ اس کے ہاتھ میں تھا۔

(جاری ہے)

کچھ دیر بعد وہ ایک سائیکل مستری کے پاس کھڑا تھا۔مستری نے ٹائر اور ٹیوب دیکھنے کے بعد کہا:”ٹیوب کو تو پنکچر لگ جائے گا،مگر ٹائر تبدیل کرنا پڑے گا۔

نیا ٹائر سات سو روپے کا ہے،بتاؤ ٹائر تبدیل کر دوں؟“
سات سو روپے،میرے پاس تو سو روپے ہیں،لگتا ہے پیدل گھر جانا پڑے گا۔شیراز نے سائیکل کو دیکھتے ہوئے سوچا۔پھر وہ سائیکل کھینچتا ہوا گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔شیراز گھر پہنچا تو پیدل چلنے کی وجہ سے وہ بہت تھک چکا تھا۔امی جان نے پچھلے ٹائر کو دیکھا،جو زمین سے چپکا ہوا تھا۔بولیں:”آج پھر سائیکل پنکچر کر کے لے آئے ہو۔

”آج ٹیوب کے ساتھ ٹائر بھی پھٹ گیا ہے۔پنکچر اور نئے ٹائر کا خرچ،کل ملا کر آٹھ سو روپے ہوئے۔“
”آٹھ سو روپے۔“امی جان نے دہرایا۔
”آپ سات سو روپے دے دیں،سو روپے میرے پاس ہیں۔“شیراز کا یہ پُرسکون انداز امی جان کے لئے حیرت میں مبتلا کرنے کے لئے کافی تھا۔
”یہ سب ہوا کیسے؟“
امی جان کا سوال سن کر شیراز نے نہایت عاجزی سے جواب دیا:”سائیکل پر سوار گھر کی طرف چلا آ رہا تھا کہ اچانک ٹیوب اور ٹائر دونوں پھٹ گئے۔
وہیں سے میں سائیکل کھینچتا ہوا پیدل گھر آ رہا ہوں۔“
اچانک شیراز کی نظر سائیکل پر پڑی تو اسے محسوس ہوا،جیسے وہ کہہ رہی ہوں:”جھوٹ․․․․․جھوٹ․․․․․سراسر جھوٹ،اپنے کرتوتوں کے بارے میں تو بتاؤ،سچ بولو سچ۔“
شیراز نے بھی آنکھوں ہی آنکھوں میں جواب دیا:”تم تو چپ رہو،دیکھو میں اپنی پیاری امی جان سے بات کر رہا ہوں،آٹھ سو روپے کا معاملہ ہے۔
امی اپیل پر غور کر رہی ہیں۔“
آخر امی جان نے آٹھ سو روپے شیراز کو دے دیے۔شیراز اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا تھا۔نیا ٹائر اور ٹیوب میں پنکچر لگنے کی دیر تھی کہ وہ پہلے جیسا شیراز بن گیا تھا۔سائیکل نے احتجاجاً چیخ و پکار شروع کر دی،مگر شیراز پر نہ تو پہلے اثر ہوتا تھا اور نہ اب ہو رہا تھا۔
ایک دن وہ سائیکل پر دور ایک نئی کالونی کی طرف جا نکلا تھا۔
نئی کالونی کی بڑی بڑی سڑکیں دیکھ کر شیراز نے وہاں سائیکل پر کرتب دکھانا شروع کر دیے۔وہ کبھی چلتی سائیکل پر لیٹ جاتا،کبھی اپنے دونوں پاؤں ایک ہی پائیدان پر رکھ دیتا اور کبھی گدی پر پاؤں رکھ کر اپنے دونوں ہاتھ ہینڈل پر رکھ کر خوشی سے نعرہ بلند کرتا کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے،اچانک اس کے سامنے ایک گدھا گاڑی آ گئی۔وہ کوشش کے باوجود سائیکل پر قابو نہ رکھ سکا اور گدھا گاڑی سے جا ٹکرایا۔
اس ٹکر میں شیراز کے گھٹنے پر چوٹ آئی اور سائیکل کا اگلا پہیا ٹیڑھا ہو گیا۔جب وہ لنگڑاتی ٹانگ اور سائیکل کے ٹیڑھے پہیے کے ساتھ گھر میں داخل ہوا تو امی جان گھبرا گئیں۔اس کے زخم پر مرہم لگایا اور پینے کو گرما گرم دودھ دیا۔شیراز مسہری پر لیٹا تو اسے صحن میں کھڑی ہوئی سائیکل دکھائی دے رہی تھی۔سائیکل کو دیکھ کر اسے افسوس ہوا کہ وہ بھی بُری حالت میں تھی۔
اسے بھی مرمت کی ضرورت تھی۔امی جان صحن میں آئیں تو اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا:”آج کل تو لوگ اندھا دھند سڑکوں پر گاڑیاں چلاتے ہیں،میرا بیٹا تو بہت دیکھ بھال کر آرام سے سائیکل چلاتا ہے۔“
یہ سن کر شیراز سوچ میں پڑ گیا۔اس کی نظر سائیکل پر پڑی۔اسے ایسا لگا جیسے سائیکل اسے گھور رہی ہے اور امی کی بات سن کر وہ کہہ رہی ہو:”یہ بات درست نہیں،جس طرح شیراز مجھے چلاتا ہے،اس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتیں۔
شیراز میرے ذریعے کرتب دکھاتا ہے،وہ مجھے چلاتا نہیں،اُڑاتا ہے،میرے کل پُرزے اس سے بہت تنگ ہیں،یہ کوئی بات سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں۔“
اچانک امی جان نے بستر پر لیٹے شیراز کو گھورا۔شیراز کو لگا جیسے امی سائیکل کے پُرزوں کی ساری باتیں سن چکی ہوں۔انھوں نے کچھ سوچا اور الماری میں سے ایک کاغذ نکال کر شیراز کے سامنے رکھ دیا۔یہ کاغذ اس وقت کا تھا،جب امی جان نے اسے سائیکل خرید کر دی تو شیراز نے ان سے وعدہ کیا تھا،جو اس کاغذ پر لکھا تھا:”وہ سائیکل کی حفاظت کرے گا،اسے دھیان سے چلائے گا،اس کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھے گا،وہ شرارتی بچوں کی طرح اس پر کرتب نہیں کرے گا۔

شیراز نے ان باتوں میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا تھا۔ابو جان اپنے دفتر کے کام کے سلسلے میں دوسرے شہر گئے ہوئے تھے،اس لئے امی جان سے سائیکل کی مرمت کے لئے مزید پیسے ملنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔
اگلے دن شیراز کو لنگڑاتے ہوئے اسکول جانا اور آنا پڑا۔اسکول زیادہ دور نہیں تھا،اس لئے شیراز سائیکل پر ہی اسکول جاتا تھا۔گھر واپسی پر اس کے جیومیٹری بکس میں جیب خرچ جوں کا توں دیکھ کر امی نے پوچھا:”تم نے ان روپوں کو خرچ کیوں نہیں کیا؟“
”میں سائیکل کے لئے پیسے اکٹھے کر کے اس کی مرمت کروانا چاہتا ہوں۔
میں اسے دوبارہ زخمی نہیں کروں گا۔“اس کی باتوں سے امی جان کا دل بھی پسیج گیا تھا۔وہ بولیں:”غلطی کا احساس ہونا سب سے اچھی بات ہے۔میں سائیکل کی مرمت کے لئے پیسے دے دوں گی،وعدہ کرو،سائیکل کو احتیاط سے استعمال کرو گے۔“
”میں وعدہ کرتا ہوں،آئندہ اپنی سائیکل کا ہر طرح خیال رکھوں گا۔“شیراز کی یہ بات سن کر امی جان کے ساتھ ساتھ شاید سائیکل بھی خوش ہوئی ہو گی۔

Browse More Moral Stories