Baghban Ka Raaz - Article No. 2115

Baghban Ka Raaz

باغبان کا راز - تحریر نمبر 2115

اگر میں ان شیطان کے چیلوں کو ڈھیل دوں تو یہ میرا جینا عذاب بنا دیں․․․․انھیں سب پتا چل جائے گا

منگل 16 نومبر 2021

جدون ادیب
مدثر تیزی سے دوڑتا ہوا آیا اور گیند بلے باز کی طرف پھینکی۔سلیم نے جما کر بلا گھمایا اور گیند باؤنڈری کے اوپر سے ہوتی ہوئی شمسو کے باغ میں جا گری اور اس کے ساتھ ہی کھیل ختم ہو گیا،کیونکہ ان لڑکوں کے پاس اضافی گیند نہیں تھی اور یہ بھی ممکن نہ تھا کہ شمسو سے گیند مانگی جاتی۔روزانہ ہی اس کے باغ میں گیند جاتی، مگر وہ خبطی بوڑھا باغبان کبھی گیند واپس نہیں کرتا تھا۔
گاؤں والوں سے بھی الگ تھلگ رہتا تھا۔وہ باغ کے کونے میں بنے اپنے بڑے سے گھر میں اکیلا رہتا تھا۔
علی ہمت کرکے دیوار کود کر اندر چلا گیا۔باغ میں اسے کئی گیندیں ملیں۔وہ واپسی کے لئے پلٹ رہا تھا کہ شمسو اس کی طرف آتا دکھائی دیا۔علی ایک درخت کے پیچھے چھپ گیا۔

(جاری ہے)

یوں لگتا تھا جیسے بوڑھے کو کسی کی موجودگی کا شبہ ہو گیا ہے۔وہ چوکنا ہو کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔

علی موقع پا کر باغ سے ملحق بوڑھے کے گھر میں گھس گیا اور مناسب وقت کا انتظار کرنے لگا۔اتنے میں شمسو بڑبڑاتا گھر کی طرف آیا۔علی ایک ستون کی آڑ میں تھا۔شمسو بڑبڑا رہا تھا:”اگر میں ان شیطان کے چیلوں کو ڈھیل دوں تو یہ میرا جینا عذاب بنا دیں․․․․انھیں سب پتا چل جائے گا خبیث کہیں کے!“
علی کے کان کھڑے ہو گئے۔اتنے میں بوڑھے نے برآمدے کا بلب جلایا اور اندر چلا گیا۔
علی دبے قدموں اس کے پیچھے لپکا۔بوڑھا ایک بڑے کمرے میں داخل ہوا۔اس نے احتیاطاً مڑ کر دیکھا اور پھر ایک طرف رکھی چارپائی ہٹا کر ایک خفیہ بنے ہوئے زمین دوز راستے میں داخل ہو گیا۔
علی کا دل دھک دھک کرنے لگا۔اسے اپنے بدن سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔اسے لگا کہ وہ بے ہوش ہو جائے گا۔اسی وقت باہر سے شمیم نے مخصوص انداز میں آواز لگائی۔
شمیم کی آواز سن کر علی کو حوصلہ محسوس ہوا اور وہ دبے قدموں دوبارہ باغ میں پہنچا اور دیوار کود کر باہر نکل گیا۔شمیم اس کی پھینکی ہوئی گیندیں جمع کر چکا تھا اور بہت خوش اور پُرجوش تھا،مگر علی چپ چپ سا اس کے ساتھ چلتا رہا۔
علی گھر پہنچا تو یہ جان کر خوشی سے نہال ہو گیا کہ شہر سے اس کے چچا آئے ہیں۔اگلے دن علی نے چچا کو شمسو کے پُراسرار انداز کے بارے میں بتایا تو دونوں نے مل کر ایک منصوبہ بنایا۔

شمسو ہفتے میں ایک دن گاؤں سے سودا سلف لینے جاتا تھا۔جب وہ گھر سے روانہ ہوا تو علی اور چچا باغ کے راستے اس کے گھر میں داخل ہوئے،مگر وہ یہ دیکھ کر بہت مایوس ہوئے کہ تمام کمرے بند تھے۔بڑے بڑے تالے اور مضبوط دروازے دیکھ کر وہ مایوس ہونے لگے،مگر پھر چچا کو ایک خیال آیا۔وہ برآمدے سے دیوار کے اوپر چڑھے۔چھت پر جا کر دیکھا اسٹور کی ایک کھڑکی کھلی مل گئی۔
کھڑکی کے ذریعے وہ اندر داخل ہوئے اور سیڑھیاں اُتر کر علی کے بتائے ہوئے کمرے میں پہنچ گئے اور چارپائی اُٹھا کر تہ خانے میں داخل ہو گئے۔اندر کا راز جان کے ان کے ہوش اُڑ گئے۔
ادھر علی بے چینی سے چچا کی واپسی کا انتظار کر رہا تھا۔اچانک بیرونی دروازہ کھلا اور شمسو بڑبڑاتا ہوا اندر داخل ہوا۔وہ خود کو کوس رہا تھا کہ رقم لیے بغیر گاؤں چلا گیا۔
علی نے چھپنے کی کوشش کی،مگر کسی چیز سے ٹکرا کر گر پڑا۔دوسرے لمحے شمسو نے اسے گردن سے دبوچ لیا اور گالیاں بکتا ہوا اس پر پِل پڑا۔علی نے دونوں بازو منہ کے سامنے رکھ کر خود کو بچانے کی کوشش کی۔شمسو نے مکوں اور لاتوں سے مار کر اسے ادھ موا کر دیا۔اسی وقت چچا کھڑکی کھول کر باہر نکلے تو شمسو نے لاٹھی سے ان پر وار کیا۔چچا تیزی سے ایک طرف ہٹ گئے اور اُچھل کر شمسو کو لات رسید کی تو وہ دور جا گرا۔
شمسو اُٹھا تو اس کے ہاتھ میں ایک لمبا سا خنجر تھا۔علی درد سے کراہ رہا تھا۔وہ لڑکھڑاتا ہوا اُٹھا،شمسو نے چچا پر وار کیا،جسے چچا نے پھرتی سے جھک کر ناکام بنا دیا۔اس سے پہلے کہ شمسو دوبارہ وار کرتا،علی نے ڈنڈا اُٹھا کر شمسو کی کمر میں دے مارا۔وہ دہرا ہو گیا اور چچا نے جھپٹ کر اس کے ہاتھ سے خنجر چھین لیا اور دونوں نے مل کر اس پر قابو پا لیا اور رسی سے باندھ دیا۔
علی بھاگتا ہوا گیا اور لوگوں کو بلا لایا۔شمسو کا راز کھل چکا تھا۔وہ تہ خانے میں منشیات بناتا تھا۔اسی تہ خانے سے ایک خفیہ راستہ جنگل میں نکلتا تھا جہاں سے وہ منشیات اپنے گروہ کے لوگوں کو پہنچاتا تھا۔شمسو کو گرفتار کر لیا گیا۔علی اور چچا کی خوب تعریف ہوئی۔چچا بہت خوش لگ رہے تھے۔

Browse More Moral Stories