Baron Ka Adab - Article No. 2133
بڑوں کا ادب - تحریر نمبر 2133
کاش!میں اپنے اساتذہ کرام کا ادب کرتا تو شاید مجھے یہ دن ہی نہ دیکھنے پڑتے
بدھ 8 دسمبر 2021
احمد علی،رحیم یار خان
قاسم ایک بہت ہی ذہین بچہ تھا۔وہ چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔کلاس کے ذہین ترین طلبہ میں اس کا شمار ہوتا تھا۔قاسم کو اللہ تعالیٰ نے ذہن تو اچھا دیا تھا،لیکن وہ بڑوں کا ادب نہیں کرتا تھا۔اساتذہ کرام کی نقل اُتارنا،چوری چھپے ان پر جملے کسنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
وقت گزرتا گیا اس نے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔اسی سلسلے میں اس نے ایک ہوٹل میں دوستوں کو پارٹی دی۔وہ پارٹی میں شرکت کے لئے اپنی موٹر سائیکل پر جا رہا تھا کہ ایک تیز رفتار کار نے اسے ٹکر ماری۔کار ڈرائیور تو وہاں سے رفو چکر ہو گیا،البتہ قاسم وہیں کراہتا رہا۔کچھ لوگوں نے انسانی ہمدردی کے تحت اسے ہسپتال پہنچایا۔وہاں پر اس کے گھر والوں کو بلایا گیا۔
کافی عرصے تک وہ بستر سے لگا رہا۔اس کے دوست عیادت کے لئے اس کے پاس آئے۔رفتہ رفتہ وہ بے ساکھیوں کے سہارے چلنے کے قابل ہوا تو اب اس نے پڑھائی کو خیر آباد کہہ کر نوکری کی تلاش شروع کی،لیکن ایک ٹانگ سے معذور شخص کو کیا نوکری مل سکتی تھی۔
آخر اسے ایک سکول میں معمولی سکول ٹیچر کی نوکری مل گئی۔جب وہ لنگڑا کر کلاس میں داخل ہوتا تو چند شریر بچے اس کی نقل اُتارتے اور جب وہ ان کی طرف دیکھتا تو وہ معصوم بن جاتے۔ان بچوں کو دیکھ کر اسے اپنا ماضی یاد آ جاتا․․․․اور سوچتا کہ کاش!میں اپنے اساتذہ کرام کا ادب کرتا تو شاید مجھے یہ دن ہی نہ دیکھنے پڑتے۔اب صرف وہ تھا یا اس کا بیمار،لاچار اور معذور بدن یا پھر اس کا پچھتاوا۔
قاسم ایک بہت ہی ذہین بچہ تھا۔وہ چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔کلاس کے ذہین ترین طلبہ میں اس کا شمار ہوتا تھا۔قاسم کو اللہ تعالیٰ نے ذہن تو اچھا دیا تھا،لیکن وہ بڑوں کا ادب نہیں کرتا تھا۔اساتذہ کرام کی نقل اُتارنا،چوری چھپے ان پر جملے کسنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
وقت گزرتا گیا اس نے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔اسی سلسلے میں اس نے ایک ہوٹل میں دوستوں کو پارٹی دی۔وہ پارٹی میں شرکت کے لئے اپنی موٹر سائیکل پر جا رہا تھا کہ ایک تیز رفتار کار نے اسے ٹکر ماری۔کار ڈرائیور تو وہاں سے رفو چکر ہو گیا،البتہ قاسم وہیں کراہتا رہا۔کچھ لوگوں نے انسانی ہمدردی کے تحت اسے ہسپتال پہنچایا۔وہاں پر اس کے گھر والوں کو بلایا گیا۔
(جاری ہے)
کافی خون بہہ جانے کی وجہ سے اس پر نقاہت اور کمزوری طاری تھی۔
اس کی ٹانگوں پر کافی زخم آئے تھے۔نتیجتاً اس کی دائیں ٹانگ کاٹ دی گئی۔کافی عرصے تک وہ بستر سے لگا رہا۔اس کے دوست عیادت کے لئے اس کے پاس آئے۔رفتہ رفتہ وہ بے ساکھیوں کے سہارے چلنے کے قابل ہوا تو اب اس نے پڑھائی کو خیر آباد کہہ کر نوکری کی تلاش شروع کی،لیکن ایک ٹانگ سے معذور شخص کو کیا نوکری مل سکتی تھی۔
آخر اسے ایک سکول میں معمولی سکول ٹیچر کی نوکری مل گئی۔جب وہ لنگڑا کر کلاس میں داخل ہوتا تو چند شریر بچے اس کی نقل اُتارتے اور جب وہ ان کی طرف دیکھتا تو وہ معصوم بن جاتے۔ان بچوں کو دیکھ کر اسے اپنا ماضی یاد آ جاتا․․․․اور سوچتا کہ کاش!میں اپنے اساتذہ کرام کا ادب کرتا تو شاید مجھے یہ دن ہی نہ دیکھنے پڑتے۔اب صرف وہ تھا یا اس کا بیمار،لاچار اور معذور بدن یا پھر اس کا پچھتاوا۔
Browse More Moral Stories
چالاک لومڑی
Chalak Lomri
شرارت کی سزا
Shararat Ki Saza
اتفاق میں برکت ہے
Ittafaq Mein Barket Hai
میرا بہترین دوست
Mera Behtreen Dost
قسم سے
Qasam Se
سونے کی گھڑی
Soone Ki Ghari
Urdu Jokes
دانش مندی
danish mandi
صحیح اندازہ
sahih andaza
بھکاری
bhikari
آٹھ نمبر کا جوتا
8 Number Ka Juta
کم گو انسان
kumgo insan
پہلا طالبعلم
pehla talib e ilm
Urdu Paheliyan
ہاتھ میں لے کر ذرا گھمایا
hath me leke zara ghumaya
سرکوتھا دھرتی چھپائے
sar ko tha dharti chupaye
روڑوں کے اندر تھے روڑے
roro ke andar thy rory
جس شے کو جھولی میں ڈالے
jis shai ko jholi me daly
دریا کوہ سمندر دیکھے
darya kohe samandar dekhe
اپنے دیس میں پلی پلائی
apne dais me pali palai
ArticlesStoriesMiscellaneousGamesBaby NamesUrdu Videos