Borhe Ki Dua - Article No. 2033
بوڑھے کی دعا - تحریر نمبر 2033
جو کام تم سورج غروب ہونے کے وقت شروع کرو گی وہ چاند کے نکلنے تک جاری رہے گا
ہفتہ 7 اگست 2021
شمع خان
مسز خان ایک موٹی عورت تھی جو اکیلی ایک الگ تھلگ مکان میں رہتی تھی۔اس کا اپنے بارے میں یہ خیال تھا کہ وہ ایک اچھی عورت ہے۔ وہ اکثر اپنی سہیلیوں کو بتاتی کہ میں بہت مہربان ہوں،لیکن خود کہنے سے تو کبھی کوئی مہربان نہیں ہو جاتا۔ایک دن ایک آدمی نے مسز خان کے گھر کے دروازے پہ دستک دی۔وہ بہت غریب تھا۔اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے،بال بکھرے ہوئے تھے۔وہ بہت پریشان حال تھا۔آدمی نے مسز چُن سے کھانے کے لئے کچھ مانگا۔مسز خان غصے سے تلملاتی ہی باہر نکلی اور یہ کہتے ہوئے اس غریب آدمی پر برس پڑی، ”جاؤ دفع ہو جاؤ۔میرے پاس تمہیں کھلانے کو کچھ نہیں۔اگر اتنے ہی بھوکے ہو تو خود محنت کرو اور کھاؤ“۔
یہ کہہ کر اس نے زور سے دروازہ بند کر دیا اور وہ غریب آدمی بند دروازے کو حسرت سے دیکھتا رہ گیا۔
دروازہ بند کرنے کے بعد مسز خان نے اندر جا کر اپنے لیے چائے کا ایک گرم کپ تیار کیا اور مزے لے لے کر پیتی رہی۔غریب آدمی سڑک کے کنارے چلتا ہوا ایک دوسرے مکان پر پہنچا جہاں مسز بشیر رہتی تھی۔جونہی مسز بشیر کی نظر اس غریب آدمی پر پڑی وہ اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئی۔مسز بشیر نے اسے اپنے پاس بلایا اور کہا،”تم تھکے ہوئے دکھائی دیتے ہو اور تمہیں سردی بھی لگ رہی ہے۔آؤ!اندر آجاؤ اور یہاں بیٹھ جاؤ۔اگرچہ میرے پاس کوئی چائے وغیرہ نہیں ہے،لیکن تم پریشان نہ ہو۔میرے پاس ایک روٹی اور تین خوبصورت سیب ہیں۔ایک سیب میں کھا لیتی ہوں اور دو تم کھا لو۔“
وہ آدمی اس عورت کے گھر کے اندر گیا اور بیٹھ گیا۔تھوڑی دیر تک ان دونوں نے باتیں کیں۔پھر مسز بشیر اور اس آدمی نے مل کر روٹی اور سیب کھائے۔تب وہ آدمی کھڑا ہو گیا اور مسز بشیر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہنے لگا،”آپ نے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے۔لہٰذا سورج غروب ہوتے وقت آپ جو کام شروع کریں گی وہ چاند کے نکلنے تک جاری رہے گا“۔
پھر اس آدمی نے دوبارہ خاتون کا شکریہ ادا کیا اور اللہ حافظ کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔مسز بشیر سوچنے لگی کہ اس آدمی نے کیا عجیب و غریب بات کہی ہے کہ جو کام تم سورج غروب ہونے کے وقت شروع کرو گی وہ چاند کے نکلنے تک جاری رہے گا۔وہ سوچ میں پڑ گئی کہ اس بات سے اس کی کیا مراد ہے؟
پھر مسز بشیر کو میز پر ایک سیب رکھا ہوا دکھائی دیا۔وہ خود سے کہنے لگی،”بیچارے نے صرف ایک سیب کھایا ہے۔جب کہ میری خواہش تھی کہ وہ دونوں کھائے۔کیوں نہ میں اس بچے ہوئے سیب کو ٹوکری میں رکھ دوں“۔
اس نے وہ سیب اٹھایا اور بڑی ٹوکری میں ڈال دیا۔پھر اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک اور خوبصورت سا سیب میز پر رکھا ہوا دکھائی دیا۔”یہ تو بڑی عجیب بات ہے!میں نے ٹوکری میں سیب ڈال دیا تھا،مگر یہ پھر کہاں سے آگیا“۔
اس نے وہ سیب اٹھا کر پھر ٹوکری میں ڈال دیا اور مطمئن ہو گئی،مگر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اسے میز پر ایک اور سیب رکھا نظر آیا۔ جب وہ سیب ٹوکری میں ڈالتی تو اسے میز پر ایک اور مل جاتا۔اب مسز بشیر سمجھ گئی کہ اس آدمی کی بات کا مطلب کیا تھا۔وہ ٹوکری میں سیب ڈالتی رہی،یہاں تک کہ چاند نکل آیا اور پھرمیز پر کوئی سیب نظر نہ آیا۔اب اس کی ٹوکری سیبوں سے بھر چکی تھی۔دوسرے دن اس نے وہ سیبوں سے بھری ٹوکری بازار میں جا کر بیچ دی۔اس طرح اس کے پاس بہت سی رقم آگئی۔
مسز بشیر کی ساحلی مسز خان جس نے اس غریب کو دھکے دے کر نکال دیا تھا اس نے جب مسز بشیر کی سیبوں بھری ٹوکری دیکھی تو حیرت سے اس کی آنکھیں کھل گئیں۔اس نے مسز بشیر سے پوچھا،”یہ تمام سیب تم نے کہاں سے لیے ہیں؟تمہارے گھر میں تو سیب کا کوئی درخت بھی نہیں ہے!
مسز بشیر نے اسے پورا واقعہ سنایا کہ کس طرح اس نے اس غریب آدمی کو کھانے کے لئے روٹی اور سیب دیے تھے اور کس طرح اس نے شکریہ ادا کیا۔مسز خان نے مسز بشیر سے تو کچھ نہ کہا،لیکن اپنے دل میں فیصلہ کر لیا کہ اب کی بار وہ بوڑھا آئے گا تو اس کو خوب کھلاؤں گی، خوب پلاؤں گی۔
اگلے دن وہ بوڑھا دوبارہ آیا۔مسز خان اس کو دیکھ کر خوشی سے پھولی نہ سمائی۔اس نے بوڑھے آدمی سے درخواست کی،”مہربانی کرکے میرے گھر کے اندر آئیں۔میں آپ کی خاطر مدارات کروں گی“۔
بوڑھا گھر کے اندر آگیا۔مسز خان نے اسے پینے کے لئے چائے اور کھانے کے لئے بہت سے کیک دیے۔بوڑھے آدمی نے بہت سے کیک کھائے اور بہت سی چائے پی۔تب وہ کھڑا ہو گیا اور مسز خان کا شکریہ ادا کیا۔مسز خان غور سے وہ باتیں سننے کے انتظار میں تھی جن کے بعد اسے اپنی من پسند چیز ڈھیروں مل سکتی تھی۔
پھر بوڑھا آدمی بولا،”سورج ڈوبنے کے وقت جو کام تم شروع کرو گی وہ چاند نکلنے تک کرتی رہو گی“۔
یہ کہنے کے بعد بوڑھے نے اللہ حافظ کہا اور چلا گیا۔چونکہ مسز خان کے ذہن میں تھا کہ سورج غروب ہونے کا وقت اسے کیا کرنا ہے۔اس لئے اس نے ایک شلنگ کا سکہ میز پر رکھا اور کہا،”جب سورج غروب ہونا شروع ہو گا تو میں شلنگ اٹھا کر بیگ میں رکھوں گی اور پھر چاند کے نکلنے تک سکے اُٹھاتی اور بیگ میں ڈالتی رہوں گی جب کہ آج رات چاند دیر سے نکلے گا۔اس طرح صبح سے پہلے میں بہت دولت مند ہو جاؤں گی“۔
آخر سورج غروب ہونے لگا اور وہ وقت آپہنچا جس کا مسز خان کو بے چینی سے انتظار تھا۔سورج غروب ہونے کے قریب ہی تھا کہ مسز خان بے دھیانی میں تیزی سے مڑی جس کے نتیجے میں وہ میز پر رکھے ہوئے چائے سے بھرے برتن سے ٹکرا گئی اور چائے فرش پر گر کر بہنے لگی۔ اس نے جلدی سے کپڑا لیا اور فرش صاف کرنے لگی۔جب وہ یہ کر رہی تھی تو اس وقت سورج غروب ہو گیا۔
پھر کیا ہوا!
وہ بیچاری فرش صاف کرتی رہی کرتی رہی،یہاں تک کہ چاند نکل آیا اور اس رات چاند دیر سے نکلا تھا۔چونکہ اس نے لالچ کی خاطر بوڑھے کی مدد کی تھی،اس لئے اسے اپنے کیے کی سزا مل گئی۔
سچ کہتے ہیں”لالچ بری بلا ہے“۔
مسز خان ایک موٹی عورت تھی جو اکیلی ایک الگ تھلگ مکان میں رہتی تھی۔اس کا اپنے بارے میں یہ خیال تھا کہ وہ ایک اچھی عورت ہے۔ وہ اکثر اپنی سہیلیوں کو بتاتی کہ میں بہت مہربان ہوں،لیکن خود کہنے سے تو کبھی کوئی مہربان نہیں ہو جاتا۔ایک دن ایک آدمی نے مسز خان کے گھر کے دروازے پہ دستک دی۔وہ بہت غریب تھا۔اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے،بال بکھرے ہوئے تھے۔وہ بہت پریشان حال تھا۔آدمی نے مسز چُن سے کھانے کے لئے کچھ مانگا۔مسز خان غصے سے تلملاتی ہی باہر نکلی اور یہ کہتے ہوئے اس غریب آدمی پر برس پڑی، ”جاؤ دفع ہو جاؤ۔میرے پاس تمہیں کھلانے کو کچھ نہیں۔اگر اتنے ہی بھوکے ہو تو خود محنت کرو اور کھاؤ“۔
یہ کہہ کر اس نے زور سے دروازہ بند کر دیا اور وہ غریب آدمی بند دروازے کو حسرت سے دیکھتا رہ گیا۔
(جاری ہے)
وہ آدمی اس عورت کے گھر کے اندر گیا اور بیٹھ گیا۔تھوڑی دیر تک ان دونوں نے باتیں کیں۔پھر مسز بشیر اور اس آدمی نے مل کر روٹی اور سیب کھائے۔تب وہ آدمی کھڑا ہو گیا اور مسز بشیر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہنے لگا،”آپ نے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے۔لہٰذا سورج غروب ہوتے وقت آپ جو کام شروع کریں گی وہ چاند کے نکلنے تک جاری رہے گا“۔
پھر اس آدمی نے دوبارہ خاتون کا شکریہ ادا کیا اور اللہ حافظ کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔مسز بشیر سوچنے لگی کہ اس آدمی نے کیا عجیب و غریب بات کہی ہے کہ جو کام تم سورج غروب ہونے کے وقت شروع کرو گی وہ چاند کے نکلنے تک جاری رہے گا۔وہ سوچ میں پڑ گئی کہ اس بات سے اس کی کیا مراد ہے؟
پھر مسز بشیر کو میز پر ایک سیب رکھا ہوا دکھائی دیا۔وہ خود سے کہنے لگی،”بیچارے نے صرف ایک سیب کھایا ہے۔جب کہ میری خواہش تھی کہ وہ دونوں کھائے۔کیوں نہ میں اس بچے ہوئے سیب کو ٹوکری میں رکھ دوں“۔
اس نے وہ سیب اٹھایا اور بڑی ٹوکری میں ڈال دیا۔پھر اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک اور خوبصورت سا سیب میز پر رکھا ہوا دکھائی دیا۔”یہ تو بڑی عجیب بات ہے!میں نے ٹوکری میں سیب ڈال دیا تھا،مگر یہ پھر کہاں سے آگیا“۔
اس نے وہ سیب اٹھا کر پھر ٹوکری میں ڈال دیا اور مطمئن ہو گئی،مگر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اسے میز پر ایک اور سیب رکھا نظر آیا۔ جب وہ سیب ٹوکری میں ڈالتی تو اسے میز پر ایک اور مل جاتا۔اب مسز بشیر سمجھ گئی کہ اس آدمی کی بات کا مطلب کیا تھا۔وہ ٹوکری میں سیب ڈالتی رہی،یہاں تک کہ چاند نکل آیا اور پھرمیز پر کوئی سیب نظر نہ آیا۔اب اس کی ٹوکری سیبوں سے بھر چکی تھی۔دوسرے دن اس نے وہ سیبوں سے بھری ٹوکری بازار میں جا کر بیچ دی۔اس طرح اس کے پاس بہت سی رقم آگئی۔
مسز بشیر کی ساحلی مسز خان جس نے اس غریب کو دھکے دے کر نکال دیا تھا اس نے جب مسز بشیر کی سیبوں بھری ٹوکری دیکھی تو حیرت سے اس کی آنکھیں کھل گئیں۔اس نے مسز بشیر سے پوچھا،”یہ تمام سیب تم نے کہاں سے لیے ہیں؟تمہارے گھر میں تو سیب کا کوئی درخت بھی نہیں ہے!
مسز بشیر نے اسے پورا واقعہ سنایا کہ کس طرح اس نے اس غریب آدمی کو کھانے کے لئے روٹی اور سیب دیے تھے اور کس طرح اس نے شکریہ ادا کیا۔مسز خان نے مسز بشیر سے تو کچھ نہ کہا،لیکن اپنے دل میں فیصلہ کر لیا کہ اب کی بار وہ بوڑھا آئے گا تو اس کو خوب کھلاؤں گی، خوب پلاؤں گی۔
اگلے دن وہ بوڑھا دوبارہ آیا۔مسز خان اس کو دیکھ کر خوشی سے پھولی نہ سمائی۔اس نے بوڑھے آدمی سے درخواست کی،”مہربانی کرکے میرے گھر کے اندر آئیں۔میں آپ کی خاطر مدارات کروں گی“۔
بوڑھا گھر کے اندر آگیا۔مسز خان نے اسے پینے کے لئے چائے اور کھانے کے لئے بہت سے کیک دیے۔بوڑھے آدمی نے بہت سے کیک کھائے اور بہت سی چائے پی۔تب وہ کھڑا ہو گیا اور مسز خان کا شکریہ ادا کیا۔مسز خان غور سے وہ باتیں سننے کے انتظار میں تھی جن کے بعد اسے اپنی من پسند چیز ڈھیروں مل سکتی تھی۔
پھر بوڑھا آدمی بولا،”سورج ڈوبنے کے وقت جو کام تم شروع کرو گی وہ چاند نکلنے تک کرتی رہو گی“۔
یہ کہنے کے بعد بوڑھے نے اللہ حافظ کہا اور چلا گیا۔چونکہ مسز خان کے ذہن میں تھا کہ سورج غروب ہونے کا وقت اسے کیا کرنا ہے۔اس لئے اس نے ایک شلنگ کا سکہ میز پر رکھا اور کہا،”جب سورج غروب ہونا شروع ہو گا تو میں شلنگ اٹھا کر بیگ میں رکھوں گی اور پھر چاند کے نکلنے تک سکے اُٹھاتی اور بیگ میں ڈالتی رہوں گی جب کہ آج رات چاند دیر سے نکلے گا۔اس طرح صبح سے پہلے میں بہت دولت مند ہو جاؤں گی“۔
آخر سورج غروب ہونے لگا اور وہ وقت آپہنچا جس کا مسز خان کو بے چینی سے انتظار تھا۔سورج غروب ہونے کے قریب ہی تھا کہ مسز خان بے دھیانی میں تیزی سے مڑی جس کے نتیجے میں وہ میز پر رکھے ہوئے چائے سے بھرے برتن سے ٹکرا گئی اور چائے فرش پر گر کر بہنے لگی۔ اس نے جلدی سے کپڑا لیا اور فرش صاف کرنے لگی۔جب وہ یہ کر رہی تھی تو اس وقت سورج غروب ہو گیا۔
پھر کیا ہوا!
وہ بیچاری فرش صاف کرتی رہی کرتی رہی،یہاں تک کہ چاند نکل آیا اور اس رات چاند دیر سے نکلا تھا۔چونکہ اس نے لالچ کی خاطر بوڑھے کی مدد کی تھی،اس لئے اسے اپنے کیے کی سزا مل گئی۔
سچ کہتے ہیں”لالچ بری بلا ہے“۔
Browse More Moral Stories
بادشاہ کاانوکھالباس
Badshah Ka Anokha Libas
انگوٹھی کا ہنگامہ
Angothi Ka Hungama
کتا اور آئینے
Kutta Aur Aaine
وقت ایک سا نہیں رہتا
Waqt Aik Sa Nahi Rehta
ہمدردی
Hamdardi
تِل
Til
Urdu Jokes
مسڑ جناح
mr jinnah
چوہیا
chuhiya
ایک شرابی
aik sharabi
ٹارزن کے آخری الفاظ
Tarzan Ke Akhri Alfaz
زبان اور قواعد
Zuban aur quwaaid
سٹیج
Stage
Urdu Paheliyan
جو بھی اس پر آنکھ جمائے
jo bhi us par aankh jamaye
چھوڑا مت تم اس کا ہاتھ
chodo mat tum uska hath
چار ہیں رانیاںاور اک راجا
char hen ranian aur aik hai raja
جھیل کے اوپر اک مینار
jheel ke upar ek minar
پردے میں وہ چھپ کر آیا
parde me wo chup kar aya
ہو گر ایک تو ہے بے کار
ho agar aik tu hai bekar
ArticlesStoriesMiscellaneousGamesBaby NamesUrdu Videos