Til - Article No. 1838

Til

تِل - تحریر نمبر 1838

میرے بچے کے دائیں کندھے کے نیچے بغل کے پاس ایک سیاہ اُبھرا ہوا تِل ہے جو اس نوجوان کی بغل کے نیچے ہر گز نہیں ہو سکتا

جمعرات 19 نومبر 2020

اشتیاق احمد
”پچیس سال پہلے آپ کا چار سالہ بیٹا گم ہو گیا تھا۔“یہ جملہ تھا یا بم جو سیٹھ ماجد کے دماغ پر گرا۔وہ بُری طرح چونکے۔آنکھوں میں حیرت دوڑ گئی۔انھوں نے نظر بھر کر نوجوان کو دیکھا۔اس کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر آدمی بھی تھا۔ابھی ابھی یہ دونوں ان کی کوٹھی میں داخل ہوئے تھے۔ ملازم نے انھیں بتایا تھا کہ دو آدمی ان سے ملنے کے لئے آئے ہیں۔
جونہی وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے ،تو ادھیڑ عمر آدمی نے یہ جملہ کہا۔
”ہاں ہاں بالکل!لیکن آپ اس بارے میں کیا جانتے ہیں؟“وہ تیزی کے ساتھ قدرے زور سے بولے۔
”آپ کو کچھ یاد ہے کہ جس روز آپ کا بیٹا گم ہوا تھا،اس کے جسم پر کیسا لباس تھا؟اس کے گلے میں کیا تھا؟“
”ہاں کیوں نہیں!اس کا لباس سبز اور سرخ رنگ کا تھا اور گلے میں سونے کا قیمتی لاکٹ تھا۔

(جاری ہے)

پولیس نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ کوئی اسے اس لاکٹ کی وجہ سے اُٹھا کر لے گیا،لیکن اگر یہ بات ہوتی تو صرف لاکٹ لے جاتا،بچے کو کبھی نہ لے جاتا۔میرا خیال تھا کہ اغوا کرنے والا شاید خرکار تھا،لیکن آپ کو اس بارے میں کیا معلوم ہے؟“
”یہ دیکھیے!“یہ کہہ کر ادھیڑ عمر آدمی نے ایک تھیلے میں سے سفید اور سرخ لباس نکالا اور میز پر ان کے سامنے پھیلا دیا۔

”یہ ․․․․․یہ تو بالکل وہی لباس ہے۔یہ تمہیں کہاں سے ملا؟“ان کی آواز لرزنے لگی۔
”ابھی بتاتا ہوں․․․․․پہلے اسے بھی دیکھ لیں۔“اب اس نے تھیلے میں سے ایک لاکٹ نکالا۔اس لاکٹ کو دیکھ کر سیٹھ امجد بہت زور سے اُچھلے اور بولے:”یہ بھی بالکل وہی ہے۔آخر تم بتاتے کیوں نہیں کہ یہ کہاں سے ملے؟“
”آپ کا بیٹا آپ کے سامنے ہے۔

”کیا ؟“سیٹھ امجد تقریباً چیخ اُٹھے۔
”ہاں یہی آپ کا بیٹا ہے۔میں نے ہی اسے اغوا کیا تھا۔“
”یہ کیسے ہو سکتا ہے؟پچیس سال بعد تمہیں میرا بیٹا لوٹانے کا خیال کیسے آگیا؟“انھوں نے بے یقینی کے عالم میں کہا۔
”جرم کے احساس نے اس عمر میں مجھے بہت زیادہ ستانا شروع کر دیا ہے۔آخر تنگ آکر میں نے فیصلہ کیا کہ اسے آپ کے حوالے کردوں۔

”لیکن تم نے اسے اغوا کیوں کیا تھا؟“انھوں نے اب بھی بے یقینی کے عالم میں کہا۔
”بچے اغوا کرکے بیگار کیمپ والوں کو فروخت کرنا میرا پیشہ تھا۔میں نے اور بھی کئی بچے اغوا کیے،لیکن یہ بچہ مجھے اتنا اچھا لگا کہ میں نے اسے اپنے پاس رکھ لیا۔اس روز سے میں نے اسے باپ بن کر پالا،یہاں تک کہ میں نے اسے میٹرک تک پڑھایا بھی۔آپ اس سے پوچھ لیں ۔
آج سے پہلے یہ مجھ ہی کو اپنا باپ خیال کرتا رہا ہے۔جوں جوں یہ بڑا ہوتا گیا،باپ کی محبت میرے اندر بڑھتی گئی،یہاں تک کہ ایک دن میں نے بچے اغوا کرنے سے توبہ کرلی،لیکن جرم کا احساس پھر بھی اپنی جگہ رہا۔اب میں حاضر ہوں،آپ کا بچہ حاضر ہے،آپ پسند کریں تو مجھے پولیس کے حوالے کر دیں،چاہیں تو معاف کر دیں۔“
”میں تمہیں اپنے بچے کی خاطر تو معاف کر سکتا ہوں،لیکن تم نے تو اور بھی بچے اغوا کیے ہیں۔
ان کا کیا ہو گا؟ان کے ماں باپ کا کیا ہو گا؟“
” وہ تو جانے کہاں ہوں گے!ان کی واپسی تو ناممکن ہے۔ان بچوں کے ماں باپ سے تو بات کرنا بھی ان کے لئے تکلیف دہ ہو گا،اس لئے آپ معاملہ یہیں تک رہنے دیں۔“
”ارے میں ابھی اپنے بچے سے تو ملا تک نہیں۔“یہ کہہ کر سیٹھ نے نوجوان کو سینے سے لگا لیا۔ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔اسی حالت میں وہ بولے:”میرے بچے!تمہاری ماں تمہارے غم میں روتے روتے کب کی مر گئی۔
میں سخت دل تھا جو زندہ رہا۔میں اس شخص کو تمہاری خاطر معاف کرتا ہوں۔“
ادھیڑ عمر آدمی بولا:”لیکن سیٹھ صاحب!آپ ایک مہربانی اور کریں۔“
”کہو،کیا کہتے ہو؟“
”میں نے اسے باپ بن کر پالا ہے،آپ اتنی اجازت دے دیں کہ میں کبھی کبھی یا مہینے میں ایک آدھ بار اس سے ملنے کے لئے آجایا کروں گا۔“
وہ بولے:”اجازت ہے۔

”اب میں اجازت چاہوں گا۔“
”ایسے نہیں،اب تم کھانا کھا کر جاؤ گے۔میں ذرا ایک دوست کو فون کر لوں۔آؤ میرے بچے!میں تمہیں تمہارا گھر دکھا دوں۔“
نوجوان سیٹھ صاحب کے ساتھ ہو گیا۔
”تم گھوم پھر کر کوٹھی دیکھو،میں ذرا ایک دو فون کر لوں۔“
وہ اپنے کمرے میں آئے اور کسی کو فون کیا،پھر باورچی خانے میں آئے اور ملازم کو کھانا لگانے کی ہدایت دی۔
اس کے بعد وہ ادھیڑ عمر آدمی کے پاس آبیٹھے۔نوجوان ابھی کوٹھی میں گھوم پھر رہا تھا۔
”حامد کہاں رہ گیا؟‘ادھیڑ عمر آدمی بولا۔
”تو تم نے اس کا نام حامد رکھا ہے،جب کہ میں نے اپنے بیٹے کا نام خاور رکھا تھا۔“
”آپ اسے جس نام سے چاہیں پکارا کیجیے۔“
”ہاں کیوں نہیں“وہ مسکرائے۔پھر چونک کر بولے:”اور آپ کا نام کیا ہے میں نے پوچھا ہی نہیں۔

”میرا نام رشید خاں ہے۔“اس نے کہا۔
عین اس وقت ملازم کھانے کی ٹرالی اندر لے آیا۔ساتھ ہی حامد اندر آگیا۔
”آؤ حامد!تم بھی ان کے ساتھ کھالو کھانا۔اس کے بعد یہ رخصت ہو جائیں گے اور پھر آئیں گے۔
دونوں کھانا کھانے لگے۔اتنے میں دروازے کی گھنٹی بجی۔پھر ملازم کے ساتھ چند پولیس والے اندر داخل ہوئے۔
”یہ کیا؟پولیس!“رشید خاں زور سے اُچھلا۔
نوجوان کے چہرے پر بھی حیرت دوڑ گئی۔
”ہاں پولیس۔میں ایسے چکروں میں آنے والا نہیں۔“سیٹھ امجد مسکرائے۔
”جی کیا مطلب؟“دونوں ایک ساتھ بولے۔
”تم دونوں فراڈ ہو،لیکن تم سے میں یہ ضرور پوچھوں گا کہ تم نے میرے بچے کا کیا کیا تھا؟“سیٹھ صاحب بولے۔
”آپ ہمیں بتائیں کیا معاملہ ہے؟“پولیس افسر نے کہا۔
سیٹھ امجد نے ساری بات پولیس افسر کو بتا دی۔
پھر بولے:”یہ نوجوان ضرور اس کا بیٹا ہے۔یہ اسے اس نیت سے لایا ہے کہ میں اسے اپنا بیٹا مان لوں۔پھر یہ اس کے ذریعے سے میری دولت پر عیش کرتا،لیکن میں اتنا سیدھا نہیں۔میں نے آخر دنیا دیکھی ہے۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ پچیس سال پہلے اسی شخص نے میرے بچے کو اغوا کیا تھا،کیونکہ اس نے جو لاکٹ اور کپڑے مجھے دکھائے ہیں،وہ میرے ہی بچے کے ہیں۔ آپ اس سے پوچھیے انسپکٹر صاحب!“
”ہاں ضرور،کیوں نہیں!اے مسٹر!اب ذرا سچ اُگل دو۔

”یہ واقعی سیٹھ صاحب کا بچہ ہے۔میں سچ کہتا ہوں۔“
”نہیں ہر گز نہیں․․․․میں آج بھی اپنے بچے کو پہچان سکتا ہوں۔“سیٹھ امجد بولے۔
”کیا مطلب؟آپ اب بھی اپنے بچے کو پہچان سکتے ہیں؟“پولیس افسر نے کہا۔
”ہاں اس لئے کہ میرے بچے کے دائیں کندھے کے نیچے بغل کے پاس ایک سیاہ اُبھرا ہوا تِل ہے جو اس نوجوان کی بغل کے نیچے ہر گز نہیں ہو سکتا۔

ادھیڑ عمر آدمی اور نوجوان دونوں کے چہروں پر حیرت تھی۔
”کیوں ہو گئے چودہ طبق روشن!“پولیس انسپکٹر ہنسا۔
”یہ انہی کا بیٹا ہے۔میں نے غلط بیانی نہیں کی۔“
اپنے باپ کو قمیض اُتار کر دکھا دو مسٹر!تاکہ اس کے منہ پر لگی کالک اور گہری ہو جائے۔“پولیس انسپکٹر بولا۔
نوجوان نے اپنی جگہ سے حرکت نہ کی۔وہ تو بُت بنا کھڑا تھا۔

”اس کی قمیض اُتار دو۔“پولیس انسپکٹر نے اپنے ماتحت سے کہا۔
ماتحت آگے بڑھا اور اس نے قمیض اُتار دی۔دوسرا لمحہ حیران کن تھا۔نوجوان کی بغل کے نیچے سیاہ اُبھرا ہوا تِل صاف نظر آرہا تھا۔
سیٹھ امجد چونک اُٹھا اور بولا:”یہ․․․․میں کیا دیکھ رہا ہوں؟یہاں تو تِل موجود ہے۔“
نوجوان نے کھوئے کھوئے انداز سے کہا:”تت․․․․․تل۔

”میرے بچے!میرے بیٹے!میرے سینے سے لگ جاؤ۔تم ہی میرے خاور ہو۔“یہ کہہ کر سیٹھ صاحب نے اسے اپنے جسم سے چمٹا لیا۔
ادھیڑ عمر آدمی بُت بنا بیٹھا تھا۔
”تب تو یہ شخص سچا ثابت ہو گیا۔اب اس کے لئے کیا حکم ہے سیٹھ صاحب!“انسپکٹر نے کہا۔
”اسے جانے دیں۔اگرچہ اس نے بہت خوف ناک جرائم کیے ہیں،لیکن آج یہ بہت بڑی نیکی کا کام بھی کیا ہے،ایک باپ کو بچھڑے بیٹے سے ملایا ہے۔

نن․․․․․نہیں۔“نوجوان ہکلایا۔
”کیا مطلب!یہ کیا کہا بیٹے تم نے؟“
”یہ بے گناہ نہیں،بہت بڑا گناہ گار ہے۔اس نے مجھے آج تک نہیں بتایا کہ میں اس کا بیٹا نہیں ہوں۔مجھ سے اس نے ہمیشہ یہی کہا کہ میں تمہارا باپ ہوں۔آج اس نے اپنے منصوبے کا ذکر کیا۔اس نے مجھے بتایا تھا کہ پچیس سال پہلے ایک بچے کو اغوا کرکے بیچ دیا تھا،لیکن اس کا لاکٹ اور کپڑے سنبھال کر رکھ لیے تھے۔
اس خیال سے کہ بہت دولت مند باپ کا بیٹا ہے۔یہ چیزیں کبھی کام آسکتی ہیں۔آج یہ منصوبہ بنا کرمجھے ساتھ لایا تھا کہ سیٹھ صاحب کو ان کے بیٹے کے طور پر مجھے پیش کرے گا۔اس طرح میں بیٹا بن کر دولت سمیٹوں گا اور اس دولت میں اسے بھی برابر کا حصہ دیتا رہوں گا،یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس نے مجھے بھی اپنے ساتھ جرم کے راستے پر لگایا ہوا تھا۔“
وہ سب دھک سے رہ گئے،پر سیٹھ صاحب نے نوجوان کو سینے سے لگایا اور پولیس انسپکٹر کا ہاتھ رشید خاں کی کلائی پر جم گیا۔رشید خاں کا سر جھک گیا۔

Browse More Moral Stories