Khzany Ki Talash - Article No. 1026

Khzany Ki Talash

خزانے کی تلاش - تحریر نمبر 1026

ایک دن میں ایک کباڑیے کے پاس کچھ پرانی کتابوں کی ورق گردانی کررہا تھا کہ ایک کتاب میں مجھے بوسیدہ سا ایک کاغذ ملا۔

ہفتہ 9 ستمبر 2017

خزانے کی تلاش
جاوید اقبال:
ایک دن میں ایک کباڑیے کے پاس کچھ پرانی کتابوں کی ورق گردانی کررہا تھا کہ ایک کتاب میں مجھے بوسیدہ سا ایک کاغذ ملا۔ پر آڑی ترچھی لکیروں کا ایک جال سا بنا ہوا تھا۔ ساتھ ہی کسی نامعلوم زبان میں جگہ جگہ کچھ الفاظ بھی لکھے تھے۔ وہ کتاب خرید کر میں گھر آگیا، لیکن جب ان الفاظ اور لکیروں کا مطلب میری سمجھ میں نہ آیا تو یہ کاغذ اپنے دوستوں کو دکھایا۔
خالد نے کاغذ کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور بولا:” یہ تو کوئی نقشہ معلوم ہوتا ہے۔“ خالد میز پر وہ نقشہ پھیلا کر بیٹھ گیا اور ان لفظوں اور لکیروں کو غور سے دیکھنے لگا۔ بیس منٹ بعد اس نے سر اٹھایا اور بولا:”یہ تو کسی دفن شدہ خزانے کا نقشہ ہے۔

(جاری ہے)

“اسد نے پوچھا:”مسٹر ماہر نقشہ جات! یہ تو بتایئے کہ یہ خزاں کہاں دفن ہے؟“ خالد نے کہا:”یہاں سے شمال کی جانب ایک گھنا جنگل ہے۔

جنگل میں ایک پہاڑی ہے اور اس پہاڑی کے دامن میں ایک غار ہے۔ یہ خزانہ اسی غار میں ہے اگر تم خزانہ حاصل کرنا چاہو تو میں وہاں تک تمھیں لے جاسکتا ہوں۔“ ہم فوراََ تیار ہوگئے۔ جلدی جلدی کچھ کھانے کی چیزیں ، کچھ اوزار وغیرہ کا انتظام کیا اور گاڑی میں بیٹھ خزانے کی تلاش میں روانہ ہوئے۔ خالد کو ہم نے اس مہم کے دوران اپنا لیڈر چُن لیا۔ وہ اسد کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھا نقشے کو دیکھ دیکھ کر راستے بتاتا جارہا تھا۔
ایک لمبا سفر طے کرکے ہم اس جنگل کے قریب جا پہنچے۔ خالد نے کہا:” یہی ہے وہ جنگل ، گاڑی روک دو ، آگے پیدل جانا ہے“ ہم نے کھانے کا سامان اور اپنے اوزار اُٹھالیے اور پیدل جنگل میں چل پڑے۔ چلتے چلتے ہمارے پاؤں تھک گئے۔ ایک جگہ ندی دیکھ کر خالد نے رکنے کا اشارہ کیا اور کہا:” لوبھئی ، کچھ کھا پی لو اور آرام کرلو پھر آگے بڑھتے ہیں۔
“ہم وہاں بیٹھ گئے ،ٹفن کھل گئے، دسترخوان بچھ گئے۔ خوب پیٹ بھر کر کھانے کے بعد پھل اور مٹھائیاں بھی کھائیں اور گھاس پر لیٹ گئے، مگر تھوڑی دیر بعد ہی خالد نے اُٹھادیا، بولا:”ہم یہاں آرام کرنے نہیں آئے ، ہمیں اپنا مشن مکمل کرنا ہے۔“ہم خالد کو کوستے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور پھر سفر شروع ہوا۔ درختوں کے ایک جھنڈ سے جیسے ہی باہر نکلے، سامنے پہاڑی نظر آگئی، جس میں غار تھا۔
غار کا دہانہ جھاڑ جھنکار اور درختوں میں چھپا ہوا تھا، مگر خالد کی تیز نظروں نے ڈھونڈ لیا۔ ہم ٹارچ جلا کر اور راستہ بنا کر اندھیرے غار میں داخل ہوگئے۔ جگہ جگہ جانوروں کی ہڈیاں بکھری پڑی تھیں۔ چھت پر چمکادڑیں اُلٹی لٹکی ہوئی تھی۔ ہمیں دیکھ کر ان میں ہلچل پیدا ہوئی۔ وہ ادھر سے اُدھر اُڑنے لگیں۔ ہم ان سے بچتے ہوئے آگے بڑھے۔ ”یہاں تو کوئی خزانہ نہیں ہے۔
“ احمد نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔ ”خزانہ یہیں دفن ہے ہمیں کھدائی کرکے اسے نکالنا ہے۔ “ خالد بولا۔ یہ سنتے ہی ہمارے ہاتھوں کے توتے اُڑگئے کہ ہمیں اس قدر پتھریلی زمین کھودنی پڑے گی، مگرخزانے کی لالچ میں ہم یہ بھی کرنے کو تیار تھے۔ سب سے پہلے اسد ہتھوڑا لے کر آگے بڑھا اور پتھریلی زمین کھودنے لگا۔پورا غار اس کی آواز سے گونج اُٹھا۔
ابھی چند پتھر ہی ٹوٹے تھے کہ ہمیں غار کے منھ پر ایک سیاہ ہیولا سانظر آیا۔ ہم چونک اُٹھے۔ دیکھا تو ایک سیاہ ریچھ شاید ہماری بوسونگھ کر غار میں داخل ہورہا تھا۔ ہم بری طرح پھنس گئے تھے۔ پیچھے غار بند تھا اور آگے ریچھ کھڑا تھا۔ روشنی سے آنے کی وجہ سے ریچھ کی آنکھیں ابھی اندھیرے میں صحیح طرح دیکھنے کے قابل نہیں ہوئی تھیں۔ خالد نے کڑک کر کہا:”ریچھ پر حملہ کردو۔
“میں بیلچہ اُٹھائے آگے بڑھا اور ریچھ کے سر پر وار کیا۔ چوٹ کھا کر ریچھ غضب ناک ہوگیا۔ اس نے اپنے بازؤں کو زور سے ادھر اُدھر گھمایا۔ خالد اس اندھے وار کی زدمیں آگیا اور دور جا گرا۔ اسد نے چھلانگ لگائی اور ہتھوڑا اُٹھائے ریچھ کی طرف بھاگا مگر اسے پتھر سے ٹھوکر لگی اور وہ ریچھ کے قریب جا گرا۔ ریچھ نے اسے اپنے بازؤں میں جکڑ لیا۔اسد کے منھ سے گھٹی گھٹی چیخیں نکل رہی تھیں۔
میں نے بیلچہ سر سے اوپر اٹھایا اور ریچھ کی پشت پر وار کیا۔ ریچھ نے اسد کو چھوڑ دیا اور میری طرف مڑا۔ میں نے اسے مارنے کے لیے پھر بیلچہ اُٹھایا مگر اس نے مجھے زور سے دھکا دے دیا۔ میں اُلٹ کر ایک گڑھے میں جاگرا۔ میرے پاؤں نرم نرم ریت میں دھنس گئے۔ گڑھے کے باہر ریچھ کے غرانے اور دوستوں کے للکارنے کی آوازیں مسلسل آرہی تھیں ۔ پھر کچھ دیر بعد خاموشی چھا گئی۔
میں نے گڑھے سے سرنکال کر دیکھا۔ میرے دوست غائب تھے اور ریچھ غضب ناک ہوکر ہمیں ڈھونڈ رہا تھا۔ جیسے ہی اس کی نظر مجھ پر پڑی ، وہ میری طرف بڑھا۔ جب وہ گڑھے کے قریب آیا تو میں دونوں ہاتھوں سے ریت بھر کر اس کے منھ پر پھینکی۔ ریچھ کی آنکھوں ،منھ اورناک میں ریت بھرگئی۔ وہ زمین پر بیٹھ کر اپنی آنکھیں ملنے اور کھانسنے لگا۔ موقع غنیمت جان کر میں نے باہر کی طرف دوڑ لگادی۔
“ٹھہرو ہم بھی آرہے ہیں۔“ پیچھے سے دوستوں کی آواز آئی ۔ وہ بھی وہیں چھپے ہوئے تھے۔ غار سے نکل کر ہم ایسے بھاگے کہ دوسرا سانس پھر گاڑی میں بیٹھ کر ہی لیا۔ ”نقشے میں تو ریچھ کا ذکر نہیں تھا، پھر کہاں سے آن ٹپکا؟“خالد نے حیرت سے کہا ”یہ خزانے کا محافظ ریچھ ہے۔“ احمدنے کہا اور ہم کھِل کھِلا کر ہنس پڑے۔ خزانے کی لالچ میں ہم اپنے اوزار اور دوسرا سامان گنوا بیٹھے تھے اور راتوں رات امیر بننے کا خواب دھرے کا دھرارہ گیا تھا۔

Browse More Moral Stories