Maghroor Badshah Ka Anjaam - Akhri Hissa - Article No. 2361

Maghroor Badshah Ka Anjaam - Akhri Hissa

مغرور بادشاہ کا انجام (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2361

”کاش․․․․!میں تکبر میں آکر اپنے محسن حکیم داؤد سے بے رخی نہ برتتا۔اور احسان کا بدلہ احسان سے دیتا۔کاش․․․․․․“

جمعرات 29 ستمبر 2022

محمد فہیم عالم
یہ غلام دوستوں سے معاوضہ نہیں لیتا․․․․․آداب․․․․!“اتنا کہہ کر وہ دربار سے رخصت ہو گیا۔بادشاہ سمیت تمام درباری حیرت و تعجب کا بت بنے اسے تک رہے تھے۔وہ اپنے ملک یونان واپس آ گیا۔آج ایک سال بعد اس کا پھر اس پڑوسی ملک میں آنا ہوا تھا۔اسے ایک جڑی بوٹی کی تلاش تھی۔اور وہ جڑی بوٹی صرف اس ملک کے جنگلات میں پائی جاتی تھی۔

اپنی مطلوبہ جڑی بوٹی تلاش کرنے کے بعد اس کے ذہن میں خیال آیا۔چلو!لگے ہاتھوں بادشاہ سلامت سے ہی مل لیتے ہیں۔ذرا حال و احوال جان لیتے ہیں۔وہ بڑے ہی اشتیاق سے دربار میں حاضر ہوا تھا۔لیکن اس مغرور بادشاہ نے اس سے جو بے رخی کا برتاؤ کیا تھا۔اس سے اس کا دل ٹوٹ گیا تھا۔اسے بادشاہ سلامت سے کم از کم اس سلوک کی امید نہ تھی۔

(جاری ہے)

بادشاہ نے اس کے احسان کا بدلہ بہت ہی برے طریقے سے دیا تھا۔

اس کے ذہن میں آندھیاں سی چل رہی تھیں۔نظر انداز کیا جانا بہت ہی تکلیف دہ ہوتا ہے۔دل و دماغ میں آتش فشاں سے پھٹنے لگتے ہیں۔وہ بھی اسی تکلیف سے گزر رہا تھا۔اسے پتہ ہی نہ چلا کب اس کا سفر تمام ہوا اور وہ اپنے ملک پہنچ گیا۔اس نے اس مغرور بادشاہ کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔گھر جاتے ہی وہ اپنے مخصوص کمرے میں گھس گیا۔جس میں بیٹھ کر وہ دوائیاں بنایا کرتا تھا۔
کافی دیر کے بعد وہ کمرے سے نکلا تو اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سے تھیلی تھی۔
”احسان․․․!یہ تھیلی پڑوسی ملک کے بادشاہ کو دے آؤ۔اسے میرا سلام کہنا۔اور کہنا کہ یونانی حکیم داؤد کی طرف سے یہ قبول فرمائیے۔“اس نے اپنے وفادار غلام کو وہ تھیلی تھماتے ہوئے کہا تھا۔غلام تھیلی لے کر اس بادشاہ سلامت کی خدمت میں پہنچا۔
”حضور!ہمارے ملک یونان کے مایہ ناز شاہی حکیم داؤد نے یہ نذرانہ آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے۔
“غلام نے تھیلی بادشاہ سلامت کو دیتے ہوئے کہا۔بادشاہ نے تھیلی کھولی تو اس میں چند بیج اور ساتھ ہی ایک خط تھا۔اس میں لکھا ہوا تھا۔
”السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ!
حضور کا اقبال بلند ہو!
عالی جاہ․․․․!یہ چند بے حد قیمتی بیج ہیں جو میں نے برسوں کی محنت و تلاش کے بعد حاصل کئے ہیں۔آپ دہکتے ہوئے انگاروں پر ان کو جلا کر ان کی دھونی لیجئے۔
انشاء اللہ!آپ کو حیرت انگیز فائدہ ہو گا۔“
والسلام حکیم داؤد یونانی
بادشاہ سلامت نے حیرت و تعجب سے ان بیجوں کی طرف دیکھا۔وہ بالکل ایسے ہی بیج تھے۔جیسے اس حکیم نے ان کی گردن کا علاج کرتے ہوئے استعمال کیے تھے۔
بادشاہ سلامت نے دہکتے ہوئے انگارے منگوائے اور بیج ان پر ڈال دیئے۔جیسے ہی بادشاہ نے دھونی لینے کے لئے اپنی ناک آگے کی اسے ایک زور دار چھینک آئی۔
اور اس کی گردن کے مہرے اپنی جگہ سے سرک گئے۔اب اس کی گردن اکڑ کر رہ گئی۔یہ سب کچھ اس قدر آناً فاناً ہوا کہ سب دنگ رہ گئے۔
”اس گستاخ غلام کو پکڑ لو!اور جاؤ!اس کے گستاخ آقا حکیم داؤد یونانی کو ہمارے حضور بیڑیوں میں جکڑ کر حاضر کرو․․․․․آ․․․․ہ․․․․․!“بادشاہ کراہ کر رہ گیا۔کیونکہ گرج دار آواز میں سپاہیوں کو حکم دیتے ہوئے اس نے اپنی گردن کو ذرا سی حرکت دی تھی۔

بادشاہ سلامت کا حکم پاتے ہی سپاہی حکیم کو گرفتار کرنے کے لئے ملک یونان کی طرف دوڑے۔حکیم کے مطب پر الو بول رہے تھے۔جب کہ حکیم کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔سپاہی نے ملک یونان کا کونا کونا چھان مارا لیکن حکیم کہیں نہ ملا۔سپاہی مایوس واپس لوٹ آئے۔یوں اس مغرور بادشاہ کو اپنے غرور و تکبر کی سزا مل گئی۔اب وہ پچھتا رہا تھا۔
”کاش․․․․!میں تکبر میں آکر اپنے محسن حکیم داؤد سے بے رخی نہ برتتا۔اور احسان کا بدلہ احسان سے دیتا۔کاش․․․․․․“۔

Browse More Moral Stories