Heera Pheeri - Article No. 1599

Heera Pheeri

ہیرا پھیری - تحریر نمبر 1599

چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔یہ مثال بابر بھائی پر صادق آتی تھی۔کہیں بیٹھے ہوں عادت سے مجبور ہو کر کچھ نہ کچھ اُٹھا ضرور لیتے تھے۔

جمعرات 12 دسمبر 2019

عشرت جہاں
چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔یہ مثال بابر بھائی پر صادق آتی تھی۔کہیں بیٹھے ہوں عادت سے مجبور ہو کر کچھ نہ کچھ اُٹھا ضرور لیتے تھے۔محلے کے ایک درزی کے پاس بیٹھنے لگے تو بٹن دھاگے اور سوئیاں غائب کرنا شروع کردیں۔گھر لالا کر جمع کرنے لگے۔انور درزی کو پتا چلا تو پرانی تعلق داری کالحاظ کرتے ہوئے کہا تو کچھ نہیں،لیکن دوکان سے فارغ کر دیا۔
پھر کسی کارخانے میں کام کرنے لگے،چند دن محتاط رہے۔خود کو بہ مشکل تمام روکے رکھا،مگر بل آخر ہاتھ کی صفائی دکھانے لگے۔پہلے کپڑوں کے چھوٹے ٹکڑے پھر بڑے ٹکڑوں پر ہاتھ صاف کرنے لگے۔بیوی نے ہر چند منع کیا:”کیوں نیک کمائی کو خراب کرنے کا کام کررہے ہو؟اچھی بھلی روزی سے جاؤ گے،مالکوں کو پتا چلا تو نکالنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔

(جاری ہے)

“بیوی نے بار ہا سمجھایا۔


”امیر کبیر سیٹھ لوگ ہیں،یہ لوگ چھوٹے دل کے نہیں ہوتے بھلا انھیں معمولی باتوں کی کیا پروا،یوں بھی چھوٹے موٹے کپڑوں سے کیا بنتاہے بھلا؟“وہ لا پرواہی سے بولے۔
”اگر کچھ نہیں بنتا تو چھوڑ کیوں نہیں دیتے یہ حرکتیں۔“بیوی زور سے بولی۔
ان سے جواب نہ بن پڑا تو باہر کی راہ لی اور پھر ایسا ہی ہوا کہ ایک دن فیکٹری سے بھی نکال دیے گئے۔
کئی دن بے روز گار پھرتے رہے۔آخر دور پار کے ایک رشتے دار کو رحم آیا اور کسی کینٹین میں کام پر لگوادیا۔بابر بھائی قصہ گوئی میں ماہر تھے۔سب کا دل لگائے رکھتے خود ان کا بھی اس کام میں دل لگ گیا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شام میں جو کھانا بچ جاتا اکرم بھائی تمام ملازمین میں برابر تقسیم کر دیتے ۔کسی دن بریانی ،کبھی پائے نہاری تو کبھی قورمہ۔
کسی دن کھانا زیادہ مل جاتاہے تو کسی دن کم۔چند دن تو بابر بھائی قناعت پر قائم رہے۔لیکن کب تک؟کہتے ہیں کہ انسان شکل بھی بدل سکتاہے ،مگر عادت نہیں۔چوری اور ہیرا پھیری کی بُری لَت انھیں اس طرح چمٹ چکی تھی کہ اسے وہ غلط بات سمجھتے ہی نہیں تھے۔جب کھانا بن کر تیار ہو جاتا تو و ہ اپنے لیے پہلے سے ہی نکال کر ایک طرف رکھنے لگے۔اب چاہے کم ہو یا زیادہ ان کی بلا سے ۔
انھیں تو اپنے حصے سے غرض تھی۔آہستہ آہستہ گھی مرچ مصالحوں میں بھی ڈنڈی مارنے لگے۔
اکرم بھائی کو پہلے تو شک ہوا۔بہ نظر غائر انھوں نے سب کا جائزہ لیا اور آخر کار بابربھائی پر ان کو یقین پختہ ہو گیا۔یہاں بھی لحاظ ،مروت آڑے آیا،اکرم بھائی چاہتے تو رنگے ہاتھوں پکڑ کر ذلیل کر سکتے تھے،لیکن انھیں سبق سکھانے کے لیے انھوں نے انوکھا طریقہ اختیار کیا۔

”ہاں بھئی،عمران بیٹا!بابر بھائی کے لیے ذرا گرما گرم بریانی تولے آؤ۔“بابر بھائی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انھوں نے قریب بیٹھالیا۔
”حمزہ بیٹا!سلاد اور رائتہ بھی لے آؤ۔‘بابر بھائی حیران حیران سے بیٹھے تھے۔اگر چہ اکرم بھائی کا رویہ تمام ملازمین کے ساتھ اچھا تھا،لیکن آج وہ ان پر خصوصی مہربان تھے۔ایک پلیٹ بریانی انھوں نے اکرم بھائی کے اصرار پر جھجکتے جھجکتے ختم کی،پلیٹ صاف کرکے رکھ ہی رہے تھے کہ دوسری پلیٹ سامنے دھر دی۔

”بابر صاحب !اور کھائیں۔“اکرم بھائی نے خوش دلی سے کہا۔
”الحمد اللہ،پیٹ بھر گیا ہے اکرم بھائی!“بابر بھائی نے پیٹ پر ہاتھ مار کر ڈکارلی۔
”نہیں جناب!یہ کھانا تو آپ کو کھانا ہی پڑے گا۔اس پر آپ ہی کا نام لکھا ہے۔“اکرم بھائی کے انداز پر وہ چونکے۔دوسری پلیٹ بڑی مشکل سے ختم کی جو مقدار میں بھی زیادہ تھی۔لڑکے کن آنکھوں سے بابر بھائی کو دیکھ رہے تھے۔

”پانی ۔“انھوں نے پانی مانگا۔
”پانی نہیں آج صرف کھانا ملے گا۔“اکرم بھائی کے ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی۔عمران تیسری پلیٹ لیے سر پر کھڑا تھا۔اس کے چہرے پر شرارت ناچ رہی تھی۔
”نہیں․․․․․․․․نہیں․․․․․․․اکرم بھائی !اب گنجائش نہیں ہے۔“بابر بھائی ہکلائے۔
”آپ کو کھانا پڑے گا بابر بھائی!“اکرم بھائی نے دیدے گھمائے۔

”خدا قسم صرف ایک پلیٹ کی گنجائش تھی آپ کے کہنے پر دوسری بھی کھا چکا ،مگر اب․․․․․“دھان پان سے بار بھائی رو دینے کو تھے۔
”اللہ کے بندے!جب انسان کی ضرورت محدود ہے وہ لالچ کیوں کرتاہے۔کیوں اپنا اعتبار ختم کرتاہے۔“اکرم بھائی تیزی سے بولے۔
”میری توبہ ۔مجھے معاف کردیں اکرم بھائی!“انھوں نے فوراً کانوں کو ہاتھ لگائے ،اگر آئندہ ایسی حرکت کروں تو جو چور کی سز اوہ میری سزا۔“
ان کی بات سن کر لڑکے ہنسنے لگے۔ان کے انداز پر اکرم بھائی بھی مسکرادیے۔

Browse More Moral Stories