Ghora Gadha Barabar - Article No. 2030

Ghora Gadha Barabar

گھوڑا گدھا برابر - تحریر نمبر 2030

ایک گھوڑا اور ایک گدھا،ایک میدان میں کھڑے ایک دوسرے سے لفظی جنگ لڑ رہے تھے

بدھ 4 اگست 2021

انور فرہاد
”اے گدھے!ذرا ہٹ کے۔ذرا پرے․․․․“
”کیوں․․․․؟ہٹ کے کیوں․․․․․․پرے کیوں․․․․․؟“
”اس لئے کہ تیرے جسم سے بدبو آرہی ہے۔“
”ٹیڑھے منہ والے گھوڑے!ایسی دُولتی ماروں گا کہ گر گئے تو اُٹھ نہیں پاؤ گے۔“
”گدھے کہیں کے۔گدھے نہ ہوتے تو کچرا اُٹھانے والی گاڑی کیوں کھینچتے؟“
ایک گھوڑا اور ایک گدھا،ایک میدان میں کھڑے ایک دوسرے سے لفظی جنگ لڑ رہے تھے۔

”ٹھیک ہے۔“گدھا بولا:”میں کچرا گاڑی کھینچتا ہوں۔جہاں سے اور جس طرح مزدوری ملے کرنی چاہیے۔تم کون سا ہوائی جہاز کھینچتے ہو․․․․؟تم بھی تو ایک تانگے میں جُتے ہوئے ہو۔دیکھو انسان اپنے بچوں کو گدھا کہتے ہیں۔گدھا کہیں گا۔

(جاری ہے)

کیا تمہیں یہ عزت،یہ مرتبہ حاصل ہے؟“
”نہیں،اور نہ مجھے چاہیے۔ارے گدھے!یہ عزت نہیں بے عزتی ہے۔

رہی بات تانگے کی تو تانگے میں کوئی گندگی سواری نہیں کرتی۔ صاف ستھرے لوگ بیٹھتے ہیں تانگے میں۔“
گدھا بولا:”مگر تم خود گندگی کرتے جاتے ہو۔جہاں سے گزرتے ہو،لید کرتے ہوئے جاتے ہو۔اسی لئے تو تمہیں اور تمہارے تانگے کو شہر بدر کر دیا گیا ہے،کہ شہر کو تمہاری گندگی سے پاک رکھا جائے۔“
گھوڑے نے گولائی میں اپنی دُم گھمائی۔
“ہلکے سے ہنہنایا۔پھر بولا:”شہر کے نام سے خوب یاد آیا۔ایک زمانہ تھا،جب بادشاہ سلامت جیسے لوگ گھوڑوں پر سواری کرتے تھے۔تمہارے باپ دادا نے کبھی کسی بڑے آدمی کو اپنی پیٹھ پر سوار کیا․․․․؟“
گدھے نے بڑی ہوشیاری سے گھوڑے کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا:”مگر جب گاڑی آئی تو تمہارے باپ دادا کی حیثیت بھی خاک میں مل گئی اور گھوڑوں کو سواری کے بجائے مال برداری میں لگا دیا گیا۔

گھوڑا ذرا تلملایا،مگر سنبھل کر بولا:”مگر ہماری عزت داری میں کوئی فرق نہیں آیا۔آج بھی گھوڑوں کو شاہی سواری یعنی بگھی میں دیکھا جا سکتا ہے اور فلموں میں تو جنگ کے دوران فوجوں کو گھڑ سواری کرتے ہوئے اب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔“
”اے گھوڑے!کیا تم چاول کھا گئے ہو؟ایسی بے پَرکی اُڑا رہے ہو جیسے ہمیں اپنے اردگرد کی کوئی خبر نہیں۔

”کیسے خبر ہو گی تمہیں،گدھے جو ہو۔آج جو دنیا بھر میں فلمیں بنتی ہیں،ان میں گھوڑوں کو ماضی کے بادشاہوں کی جنگ میں شریک دکھایا جاتا ہے،مگر تم کیا جانو فلموں کی باتیں۔تم گدھے ہی رہو گے۔“
گدھے نے زور دار قہقہہ لگایا۔جب اس کی ڈھینچوں ڈھینچوں ختم ہوئی تو بولا:”تمہاری بے خبری پر افسوس ہوتا ہے اور ہنسی بھی آتی ہے۔ تمہیں پتا ہی نہیں اب گدھے بھی فلموں میں کام کرتے ہیں۔
کبھی گدھے گاڑیوں کی ریس دکھائی جاتی ہے۔کبھی مال برداری کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور ہاں خوب یاد آیا پاکستان میں ایک فلم بھی تو بنی ہے”انسان اور گدھا“ مگر تم نے کہاں دیکھی ہو گی یہ فلم۔اس میں ایک گدھے نے ایسی اداکاری کی ہے کہ․․․․․․“
گھوڑا اس کی بات کاٹ کر بولا:”زیادہ شیخی نہ بگھارو․․․․وہ فلم گدھے کی وجہ سے نہیں اداکاری کی وجہ سے کامیاب ہوئی تھی۔

”تم کہاں کہاں گدھوں کی اہمیت کو جھٹلاؤ گے۔برصغیر ہندو پاکستان کے سب سے بڑے ناول نگاڑ کرشن چندر نے ایک گدھے کی سرگزشت ناول کے روپ میں لکھ کر گدھوں کو امر کر دیا ہے ۔کسی ادیب نے شاعر نے کسی گھوڑے پر ایسا کچھ لکھا ہے؟“
گھوڑے نے کہا:”ناول نہیں لکھا تو کیا ہو۔بہت سی کہانیاں لکھی ہیں جن میں گھوڑوں کو انسان کا سب سے وفادار جانور قرار دیا گیا ہے۔

”انسان کا سب سے وفادار جانور تو کتا ہے۔جن لوگوں نے گھوڑوں کو یہ عزت بخشی ہے وہ نرے گدھے ہیں۔“
”گھوڑا زور سے ہنہنایا۔اس کی ہنسی رکی تو بولا:”تم نے آخر اپنے گدھے پن کو تسلیم کر ہی لیا نا۔مان لیا نا۔“
گدھا ابھی کوئی جواب نہیں دے پایا تھا کہ ادھر ایک بکری قریب آگئی اور دونوں کو مخاطب کرکے کہنے لگی:”میں دیر سے تم دونوں کی زبانی جنگ کا تماشا دیکھ رہی ہوں۔
آخر مسئلہ کیا ہے تم دونوں کے درمیان؟“
”دیکھو نا بی بکری!“گدھا بولا:”یہ گھوڑا مجھے گدھا کہتا ہے۔گدھا سمجھتا ہے۔“
بکری بولی:”ارے بھائی!گدھے کو گدھا ہی کہا جائے گا۔گھوڑا نہیں کہا جائے گا۔“
”یہی بات تو اس گدھے کی سمجھ میں نہیں آتی۔“گھوڑے نے مزے سے اپنی دُم ہلاتے ہوئے کہا۔
”سمجھ میں آتا ہے۔
سب سمجھ میں آتا ہے۔تم مجھے گدھا ثابت کرکے اپنے آپ کو بڑا افلاطون جتانے کی کوشش کر رہے ہو۔بی بکری!یہ بھی میری ہی طرح ایک جانور ہے۔کوئی پروفیسر قسم کا انسان نہیں ہے۔پھر مجھ سے جھگڑا کیوں مول لیتا ہے؟“
بکری نے فوراً ہی کوئی جواب نہیں دیا۔ذرا دیر تک جگالی کی پھر دونوں کی طرف دیکھ کر کہا:”میرے دوستو!یہ تو تم جانتے ہوں کہ تمہارا خالق اور مالک اللہ ہے؟“
گھوڑے نے کہا:”ہاں،بالکل جانتے ہیں۔

گدھے نے تائید کی:”اس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔“
”اس کی نگاہ میں تو کوئی بُرا نہیں،کوئی چھوٹا نہیں یا بڑا نہیں۔دیکھو،وہ سب کو رزق دیتا ہے۔سب کو زندہ رہنے کے لئے طور طریقے سکھاتا ہے۔سب کے روزگار کا بندوبست کرتا ہے۔اگر اس نے کسی کو چھوٹا بنایا ہے اور کسی کو بڑا تو یہ اس کی حکمت ہے۔اس میں اس کی کوئی مصلحت ہے۔تم دونوں کو تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس کے فضل سے تم دونوں کو انسانوں کی نگرانی اور نگہبانی حاصل ہے۔
انسان تمہارے لئے کھانے پینے کا بندوبست کرتا ہے۔تم سے اپنی ضرورت کے تحت کام لیتا ہے تو تمہیں آرام بھی پہنچاتا ہے۔“
”ہاں․․․․یہ بات تو ہے۔“گھوڑے نے کہا۔
”تم دونوں کو اللہ کا اس لئے بھی شکر ادا کرنا چاہیے کہ انسان تمہیں ہم بکریوں اور گایوں کی طرح ذبح کرکے کھاتا نہیں۔“
”بی بکری!اب تو اللہ کی وہ مخلوق جو سب سے زیادہ اشرف ہے،افضل ہے،ہم گدھوں اور گھوڑوں کا گوشت بھی بازار میں فروخت کر دیتا ہے۔

”اور پکڑے بھی جاتے ہیں،پھر سزا کے مستحق بھی قرار دیے جاتے ہیں۔“بکری نے برجستہ کہا۔پھر جگالی کرنے کے بعد گدھے سے بولی :”آپ کی معلومات کی داد دینی پڑتی ہے۔کون کہتا ہے کہ تم محض گدھے ہو۔“
پھر گھوڑے کی طرف دیکھ کر بولی:”مسٹر گھوڑے!آپ انھیں محض گدھا نہ سمجھیں۔ان میں بھی کچھ عقل ہے،سمجھ ہے،سوجھ بوجھ ہے۔“
”ان تمام باتوں کے باوجود وہ گدھے میاں ہیں اور میں تو ہوں ہی گھوڑا۔“
”ہاں،مگر دونوں اللہ کی مخلوق ہیں اور اس کی نگاہ میں دونوں اہمیت کے حامل ہیں۔پھر چھوٹے بڑے اور گدھے اور گھوڑے کا کیا جھگڑا؟پیار محبت کے ساتھ مل جل کر رہو کہ یہی اللہ کی خوشنودی کا سبب ہے۔یہی اس کی عبادت ہے۔“

Browse More Moral Stories