Haal Mein Maazi - Article No. 1952

Haal Mein Maazi

حال میں ماضی(دوسرا حصہ) - تحریر نمبر 1952

آگ لگنے کی خبر انھیں پہلے صفحے پر ہی مل گئی

ہفتہ 17 اپریل 2021

جاوید بسام
”اور یہ مرد؟“
”یہ میرے والد ہیں،مگر تم یہ سب کیوں پوچھ رہے ہو؟“
بلاقی کرسی پر بیٹھ گیا:”آپ کے والدین کہاں ہیں؟“اس نے پوچھا۔
”ان کا انتقال ہو چکا ہے۔“ماریا بولی۔
بلاقی نے گہری سانس لی اور اپنا ماتھا سہلانے لگا۔
”آخر بات کیا ہے؟“ماریا نے پوچھا۔
”میں بتاتا ہوں۔
“بلاقی بولا اور گزشتہ رات کی پوری روداد اسے سنا دی۔
ماریا حیرت سے آنکھیں پھاڑے سن رہی تھی۔جب بلاقی خاموش ہوا تو وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی:”مگر ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟“
بلاقی نے کچھ سوچا پھر بولا:”کیا کبھی اس گھر میں آگ لگی تھی؟“
ماریا نے سر اُٹھایا اور غور سے بلاقی کو دیکھنے لگی۔

(جاری ہے)

پھر اس نے گردن ہلائی اور بولی:”ہاں ایسا ہوا تھا،مگر یہ ساٹھ سال پہلے کا واقعہ ہے اور وہ بچی میں تھی۔


بلاقی کو حیرت سے سانپ سونگھ گیا۔ماریا بھی خاموش تھی۔
پھر بلاقی بولا:”اچھا میں چلتا ہوں بعد میں آپ کے پاس آؤں گا۔“یہ کہہ کر وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ماریا بولی:”ٹھیرو،کیا تمہارے پاس ان باتوں کا کوئی ثبوت ہے؟“
بلاقی نے جلا ہوا ہاتھ آگے کیا اور بولا:”میں جلد آپ کے پاس آؤں گا۔“یہ کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔
کچھ دیر بعد وہ چائے خانے میں بیٹھا تھا۔
سامنے رکھی چائے ٹھنڈی ہو رہی تھی اور وہ سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔
کچھ دیر بعد کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ مارا اور بولا:”ہاں بلاقی!اب بتاؤ تم کیا کہہ رہے تھے۔میں اس وقت جلدی میں تھا۔“
وہ گراہم تھا۔اس نے کرسی کھینچی اور بیٹھ گیا۔بلاقی نے کھوئی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا اور خاموش رہا۔گراہم ہنس کر بولا:”میاں!کہاں گم ہو؟تم کس آگ کا ذکر کر رہے تھے؟“
بلاقی نے گہری سانس لی اور بولا:”اب بات نے اور رُخ اختیار کر لیا ہے۔
دوپہر کو میں وہاں چلا گیا تھا۔وہاں کوئی جلی ہوئی عمارت نہیں ہے۔“پھر اس نے ماریا سے ملاقات کا احوال سنایا۔
گراہم توجہ سے سن رہا تھا۔اس کی آنکھیں چمکنے لگی تھیں۔جب بلاقی چپ ہوا تو وہ بولا:”تم نے یہ بات کسی کو بتائی تو نہیں؟“
بلاقی نے نفی میں گردن ہلائی۔
گراہم کچھ دیر سوچتا رہا،پھر سرگوشی میں بولا:”میرا خیال ہے تم نے وقت میں سفر کیا ہے۔

بلاقی نے سر ہلایا اور بولا:”ہاں مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے وہاں موجود لوگوں کے کپڑے پرانی وضع کے تھے اور آگ بجھانے والی گاڑی بھی قدیم طرز کی تھی۔“
”کیا میں ماریا سے مل سکتا ہوں؟“گراہم نے پوچھا۔
بلاقی نے گردن ہلائی۔دونوں اُٹھے اور باہر نکل گئے۔
کچھ دیر بعد وہ اس عمارت کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔ماریا نے انھیں اندر بلا لیا۔
بلاقی نے دوست کا تعارف کرایا اور بولا:”یہ آپ سے کچھ سوالات کرنا چاہتے ہیں۔“ماریا نے سر ہلایا۔
گراہم نے اس سے بہت ساری باتیں کی۔ماریا نے بتایا کہ وہ ایک اسکول میں استاد تھی۔اب ریٹائر ہو چکی ہے۔جب وہ چھے سال کی تھی تو اس گھر میں آگ لگ گئی تھی۔اس کے ماں باپ گھبراہٹ میں باہر نکل گئے تھے۔وہ اوپر تھی۔پھر ایک آدمی آیا۔وہ کوچوان تھا اور اسے اُٹھا کر نیچے لے گیا۔
اس کے کوٹ میں آگ لگ گئی تھی۔اس رات ہم پڑوسی کے گھر میں رہے تھے۔“
”کیا اس واقعے کے کچھ گواہ موجود ہیں؟“گراہم نے پوچھا۔
ماریا کچھ دیر سوچتی رہی پھر بولی:”زیادہ تر لوگ تو وفات پا چکے ہیں۔کچھ یہاں سے گھر چھوڑ چلے گئے،مگر دو گھر چھوڑ کر ایک دندان ساز رہتا ہے۔اس وقت وہ نوعمر لڑکا تھا۔“
”کیا ہم اس سے مل سکتے ہیں؟“گراہم نے پوچھا۔

”ہاں“ماریا بولی۔وہ دندان ساز سے جا کر ملے۔اس نے بتایا کہ میں اپنے والد کے ساتھ دور کھڑا دیکھ رہا تھا۔وہ کوچوان بہت بہادر تھا۔ اس نے جس پھرتی سے ماریا کی جان بچائی تھی،سب حیران رہ گئے تھے۔وہ واپس لوٹ گئے۔
اگلے دن گراہم نے بلاقی سے ملاقات کی اور جوش سے ہاتھ ملتے ہوئے بولا:”لو میاں بلاقی!تمہارے وقت میں سفر کی اسٹوری تیار ہو گئی۔
کل اخبار میں شائع ہو جائے گی۔“
بلاقی نے اسٹوری پڑھی اور بولا:”ہم کسی مشکل میں تو نہیں پڑ جائیں گے؟“
”مشکل کیسی؟بلکہ ماریا اور تم پر دولت اور شہرت کے دروازے کھل جائیں گے۔“گراہم ہنس کر بولا۔
پھر اس نے دو لفافے نکالے ان میں بڑے نوٹ تھے۔ایک پر بلاقی اور دوسرے پر ماریا کا نام لکھا تھا۔وہ بولا:”لو یہ تمہارا اور دوسرا ہم ابھی ماریا کو دینے چلتے ہیں۔

”مجھے یہ ٹھیک نہیں لگ رہا۔“بلاقی بولا۔
”اوہ بھائی!ہم خبروں سے پیسہ کماتے ہیں تو اس کے حصول کے لئے خرچ بھی کرتے ہیں۔بس کوئی نئی بات ہو تو پہلے ہم کو بتانا۔“گراہم بولا۔
پھر وہ ماریا کے پاس گئے اور اسے لفافہ دیا۔وہ خوش ہو گئی،کیونکہ وہ ریٹائر ہونے کے بعد مشکل سے گزر بسر کر رہی تھی۔
اگلے دن اخبار میں میاں بلاقی کی ماضی میں سفر کی داستان شائع ہوئی۔
ہر طرف شور مچ گیا۔لوگ اسی کی باتیں کر رہے تھے۔تمام اخبار فوراً بک گئے اور دوبارہ چھاپے گئے۔جب بلاقی صبح چائے خانے پر گیا تو دوستوں نے اسے گھیر لیا۔وہ اس کے منہ سے تمام واقعہ سننا چاہتے تھے۔
کئی دن تک لوگ اس موضوع پر بات کرتے رہے۔آہستہ آہستہ لوگوں کی دو جماعتیں بن گئیں۔کچھ لوگوں کا خیال تھا یہ ممکن نہیں،جب کہ کچھ کو اس پر یقین تھا۔

ایک دن شام کو بلاقی چائے خانے میں بیٹھا تھا کہ گراہم وہاں آیا۔وہ پریشان نظر آرہا تھا۔بلاقی نے وجہ پوچھی۔وہ مدہم آواز میں بولا:”میں مشکل میں پھنس گیا ہوں۔اس واقعہ پر سوال اُٹھ رہے ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے یہ کہانی جھوٹی ہے۔“
”مگر ان کو یقین کیوں نہیں آرہا۔میں تو ماریا کو پہلے سے نہیں جانتا تھا اور نہ کبھی اس علاقے میں گیا تھا۔

”ہاں مگر یہ تو تم کہہ رہے ہونا۔“
”میں جھوٹ نہیں بولتا۔“بلاقی غصے سے بولا۔
”مجھے پتا ہے تم جھوٹ نہیں بولتے،مگر لوگ اس پر کیسے یقین کریں؟ہمیں اس کا ثبوت ڈھونڈنا ہو گا۔“
گراہم پریشانی سے بولا۔
بلاقی کچھ سوچتے ہوئے اپنا گال کھجانے لگا۔دونوں دیر تک خاموش رہے۔آخر بلاقی نے گراہم کی پیٹھ پر ہاتھ مارا اور جوش سے بولا:”ہم ایک چیز بھول گئے ہیں۔

”وہ کیا؟“
”ہمیں اس زمانے کے اخبار دیکھنے چاہئیں شاید ان سے کچھ مدد مل جائے۔“
گراہم چند لمحے بلاقی کو غور سے دیکھتا رہا پھر میز پر ہاتھ مار کر بولا:”یہ تو میں بھول ہی گیا۔چلو،ابھی دفتر چلتے ہیں۔“
گراہم کا اخبار اسی سال پرانا تھا۔وہ دفتر پہنچے۔پرانے اخبار تہہ خانے میں رکھے جاتے تھے۔گراہم نے چابی لی،تالا کھولا اور دونوں سیڑھیاں اُترنے لگے۔
وہ ایک بڑا ہال تھا۔جس میں پرانے کاغذوں کی بُو پھیلی تھی۔گراہم نے روشنی کی۔وہاں بے شمار الماریاں تھیں، درمیان میں ایک لمبی میز اور کرسیاں بھی پڑی تھیں۔
”میاں بلاقی!ذرا الماریوں پر لکھے سنہ پڑھتے چلو۔“گراہم بولا۔
جلد ہی انھوں نے مطلوبہ الماری ڈھونڈ لی۔گراہم نے اسے کھولا اور تاریخوں پر نظر ڈورانے لگا۔پھر اس نے واقعے کے اگلے دن کا اخبار نکالا۔
دونوں کرسیوں پر بیٹھ گئے۔وہ بہت پُرجوش تھے۔آگ لگنے کی خبر انھیں پہلے صفحے پر ہی مل گئی۔اس میں وہی باتیں تھیں،جو وہ جانتے تھے۔ان کی دلچسپی خبر سے زیادہ تصویروں میں تھی۔وہ تین تصویریں تھیں جو کسی پڑوسی فوٹو گرافر نے کھینچ کر اخبار کو دے دی تھیں۔پہلی تصویر جلتے ہوئے گھر کی تھی،دوسری میں آگ بجھانے والوں کو دیکھایا گیا تھا اور تیسری تصویر بچی کے باپ اور کوچوان کی تھی۔
ان کے عقب میں بگھی بھی نظر آرہی تھی۔دونوں حیرت سے آنکھیں پھاڑے تصویر کو دیکھ رہے تھے۔وہ زیادہ واضح نہیں تھی،مگر اس میں بلاقی کو آسانی سے پہچانا جا سکتا تھا۔گراہم نے بلاقی کے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور بولا:”واہ میاں بلاقی!آخر مسئلہ حل ہو ہی گیا۔“
اس نے اخبار لپیٹا اور دونوں باہر نکل گئے۔وہ بہت خوش تھے۔
دوسرے دن لوگ پھر دھڑا دھڑ اخبار خرید رہے تھے۔
اس میں تیسری تصویر چھاپی گئی تھی۔
شام کو بلاقی،گراہم کے ساتھ ماریا سے ملنے گیا۔ماریا نے انھیں مزے دار کافی پلائی۔اس نے بھی وہ خبر پڑھ لی تھی۔وہ بولی:”بلاقی!تم نہ صرف بہادر آدمی ہو،بلکہ ذہین بھی ہو۔مجھے فخر ہے کہ میں بھی اس قصبے میں رہتی ہوں،جس میں تم رہتے ہو۔“
بلاقی نے آہ بھری اور بولا:”مگر کچھ لوگ مجھے جھوٹا سمجھتے ہیں۔

گراہم نے اسے ایک دھپ لگائی اور بولا:”مگر میں نہیں سمجھتا۔“سب زور زور سے ہنسنے لگے۔پھر ماریا اُٹھی اور بولی:”آج میں خریداری کے لئے بازار گئی تھی،تو تمہارے لئے یہ لے آئی۔“
اس نے اخبار میں لپٹی کوئی چیز بلاقی کی طرف بڑھائی۔
”یہ کیا ہے؟“بلاقی حیرت سے بولا اور کاغذ پھاڑا تو اس میں سے ایک بہت عمدہ کپڑے کا کوٹ برآمد ہوا۔گراہم نے تالی بجائی اور بولا:”لو میاں بلاقی!تمہیں نیا کوٹ بھی مل گیا۔“
”ارے اس کی کیا ضرورت تھی؟“بلاقی نے کہا۔
”تم رات کو اِدھر اُدھر گھومتے ہو شاید کہیں پھر ضرورت پڑ جائے۔“ماریا بولی۔
بلاقی خوش دلی سے ہنس دیا۔پھر وہ وہاں سے رخصت ہو گئے۔(ختم)

Browse More Moral Stories