Hisab E Dostaan - Article No. 1388

Hisab E Dostaan

حسابِ دوستاں - تحریر نمبر 1388

”زندگی تمھارے لیے مذاق ہے ،میرے لیے نہیں ۔میں نے پہلے بھی بتایا تھا

بدھ 8 مئی 2019

عشرت جہاں
”اُف‘اتنا بڑا مذاق ! ایسا کیوں کیا تم لوگوں نے ؟“بلال منھ کھولے کھڑا تھا۔
”بھئی ،مذاق ہی تو ہے ،کوئی بڑا مسئلہ تو نہیں ہے۔“زمان ہنستے ہوئے بولا۔
”یہ مذاق ہے ؟“بلال نے دانت پیسے۔
”ارے بھئی،پریشان مت ہو،اپنی باری پر تم بدلہ لے لینا۔“حسن نے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔

”زندگی تمھارے لیے مذاق ہے ،میرے لیے نہیں ۔میں نے پہلے بھی بتایا تھا،ابو اسپتال میں داخل ہیں ۔“بلال روہا نسا ہو گیا۔پیر یڈ کی گھنٹی بجی اور وہ آنسو پیتا ہوا اپنی نشست کی طرف بڑھ گیا۔
زمان،حسن اور نوید نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔ان کے ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی۔تینوں شرمندہ شرمندہ سے اپنی نشستوں پر جا بیٹھے ۔

(جاری ہے)

بلال روٹھا روٹھا سارُخ موڑے بیٹھا رہا۔
اگر پاپا ٹھیک ہوتے تو میری خواہش پوری کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ،چاہے اس کے لیے انھیں
او ورٹائم ہی کیوں نہ لگانا پڑتا ،لیکن اب میں ان سے کیسے کہوں․․․․․
بلال اپنی سوچوں میں غرق تھا۔مس انیقہ کے آنے کی آواز دور سے آتی محسوس ہورہی تھی ۔
کچھ عرصے پہلے ہی اس اسکول میں اس کا داخلہ ہوا تھا۔
زمان،حسن اور نوید کھاتے پیتے گھرانوں کے لڑکے تھے۔اگر چہ ذہین بھی تھے ،لیکن زندگی کی اونچ نیچ سے واسطہ نہ پڑا تھا،اس لیے بے فکر تھے ۔جب کہ بلال درمیانے درجے کے گھرانے کا ہونہار بچہ تھا۔اسکا لرشپ کے باعث شہر کے بہترین اسکول میں اسے داخلہ ملا تھا۔فضول خرچیوں کی اس کے پاس گنجایش نہیں تھی ۔تینوں نے شرارت ہی شرارت میں مس انیقہ سے کہا تھا کہ کل بلال کی سال گرہ ہے اور وہ پوری کلاس کو اسی خوشی میں دعوت دے رہا ہے ۔
اُدھر بلال اپنی پریشانی میں مبتلا تھا۔اس کے ابو پر ہلکا سا فالج کا حملہ ہوا تھا۔وہ اسپتال میں داخل تھے ،
جہاں ان کا علاج چل رہا تھا۔
اگر کل چھٹی کرلوں تو پھر ․․․․بلال سوچ رہا تھا ،لیکن ٹیسٹ بھی تو اہم ہے ۔اس نے اپنے خیال کی نفی کی ۔اب کیا ہوا ،اگر مس انیقہ کو ساری بات بتادوں تو شاید وہ میری بات پر اعتبار ہی نہ کریں ۔حسن ،زمان اور نوید اپنی بات سے مکر بھی سکتے ہیں ۔
وہ تین ہیں اور میں اکیلا ،مس میری بات پر اعتبار نہیں کریں گی ۔
چھٹی کی گھنٹی بجنے کے ساتھ ہی بلال بیگ اُٹھائے باہر نکل گیا ۔وہ اسکول سے دور جانا چاہتا تھا۔تینوں ایک دوسرے کا منھ تکتے رہ گئے۔
اپنی بہترین پوزیشن بحال رکھنے کے لیے اگلے دن کا ٹیسٹ بلال کے لیے بہت ضروری تھا ،ورنہ اسکا شپ میں کٹوتی ہو سکتی تھی ۔اسی لیے بلال اپنی کلاس میں موجود تھا ،جب کہ حسن،نوید اور زمان ابھی تک اسکول نہیں آئے تھے۔
بلال سوچ رہا تھا میں اسکول کے وقفے میں مس کو ساری بات سچ سچ بتا دوں گا چاہے،وہ یقین کریں یا نہ کریں۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ اس نے فیصلہ کر لیا۔
وقفے سے پہلے ہی مس انیقہ نے بچوں کو کلاس سے باہر نکلنے سے روک دیاتھا۔بلال بے بسی سی محسوس کررہا تھا۔وقفے کی گھنٹی بجتے ہی زمان ،حسن اور نوید پلاسٹک کے بڑے بڑے تھیلے اُٹھائے کلاس میں داخل ہوئے۔
مس انیقہ نے ہلکی سی مسکراہٹ سے ان کا استقبال کیا۔ان کے اشارے پر تینوں دوست تھیلے رکھ کر کلاس سجانے لگے ۔مس انیقہ کی حوصلہ افزائی پا کر دیگر بچے بھی بڑھ چڑھ کر کام کرنے لگے ۔بلال حیرت سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ذرا دیر بعد ہی میز کئی قسم کی چیزوں سے بھر چکی تھی۔جن میں سب سے نمایاں بڑا سا کیک تھا۔بلال کو یوں لگا ،جیسے کسی نے جادو کی چھڑی گھما کر میز کو کھانے پینے کی چیزوں سے بھر دیا ہو۔
حسن،زمان اور نوید بلال کی طرف بڑھے ۔وہ بُت بنا بیٹھا تھا۔
نوید نے بلال سے کہا:”پہلے ہم اسپتال گئے تھے ۔تمھارے ابو بالکل ٹھیک ہیں اور اسپتال سے گھر جانے کی تیاری کررہے تھے ۔ہم نے انھیں بتا دیا ہے کہ ہم اسکول میں بلال کی سالگرہ منارہے ہیں۔یہ سن کروہ بہت خوش ہوئے۔“
زمان بولا:”زندگی کا نیا سال مبارک ہو دوست!“
”ہم تمھیں کھونا نہیں چاہتے۔“حسن نے کہا اور حسن بلال کا ہاتھ پکڑے میز کی جانب بڑھ گیا،جہاں مس انیقہ اور بچے کیک کٹنے کے منتظر تھے۔

Browse More Moral Stories