Kahin Aisa Na Ho - Article No. 2229

Kahin Aisa Na Ho

کہیں ایسا نہ ہو - تحریر نمبر 2229

آج کل چوری،ڈاکازنی اور لوٹ مار کا دور ہے

پیر 11 اپریل 2022

عشرت جہاں
ہمارے ایک دوست فاروق صاحب ادھیڑ عمر کے ہیں،لیکن اب تک اپنی وہمی طبیعت سے چھٹکارا نہ پا سکے۔ان دنوں ہم بھی ذرا فارغ تھے سوچا کہ ان سے مل کر ان کی وہمی طبیعت کی گتھی سلجھانا چاہیے۔اتفاق سے موصوف خود رکشے کے دھچکے کھاتے ہوئے غریب خانے پر تشریف لے آئے۔چائے کے دوران ہم نے بات شروع کی:”اللہ نے آپ کو بہت کچھ دیا ہے،اب ایک گاڑی خرید لیں،تاکہ کہیں آنے جانے میں آسانی رہے اور وقت بے وقت کام آئے۔
میاں!ان دھکوں اور پریشانی سے تو بچ جاؤ گے۔“
”ہاں،کبھی کبھار سوچتے تو ہیں اپنی گاڑی کی بات ہی کچھ اور ہے۔“انھوں نے ہماری تائید کی۔
”لیکن پھر خیال آتا ہے․․․․“وہ ذرا رُک کر بولے:”آج کل چوری،ڈاکازنی اور لوٹ مار کا دور ہے۔

(جاری ہے)

ایسا نہ ہو کہ ہم کسی پُرسکون سڑک پر رواں دواں ہوں،اچانک سڑک پر پیچھے سے کوئی لٹیرا نمودار ہو جائے۔

گاڑی رکوائے،ہمیں اُتارے اور گاڑی بھگا لے جائے۔“انھوں نے منظرکشی کی۔
پھر بولے:”یوں بھی تو ہو سکتا ہے کہ اسی رواں دواں سڑک پر کوئی جلد باز اچانک ہماری گاڑی کے نیچے کُچلا جائے۔“انھوں نے جُھرجُھری لی اور خاموش ہو گئے۔
”اور یقینا یہ بھی آپ ہی کے ساتھ ہونا ہے۔“ہم سکون سے بولے اور بات بدل کر کہا:”آپ اپنا سرمایہ بینک میں کیوں نہیں رکھتے۔
خدا کے بندے!اس دور میں بھی حفاظت کا بار اُٹھا رکھا ہے۔“
”نا بابا ناں خدانخواستہ بینک دیوالیہ ہو گیا تو پھر․․․․․ہماری رقم تو ڈوب جائے گی ناں!اور اگر بینک میں ڈاکا پڑ گیا۔“انھوں نے کانوں کو ہاتھ لگائے:”ہم تو بن موت مارے جائیں گے۔“
انھوں نے ہماری بات کو نامعقول مشورہ قرار دے کر یکسر رد کر دیا۔
”بھائی صاحب!آپ تو پہلے ہی بہت محتاط رہتے ہیں۔
ایک ایک روپے کا حساب دن رات اُنگلیوں پر کرتے ہیں۔مشین میں حساب اس لئے نہیں رکھتے کہ حقیقی رقم کہیں کسی کو پتا نہ چل جائے۔دور جو سائنسی ٹھیرا۔“
ہم نے طنزیہ لہجے میں کہا:”آپ جیسا محتاط کون ہو گا۔آپ نے تو ATM کارڈ کی بھی کئی فوٹو کاپیاں بنوا رکھی ہیں۔گم ہونے کی صورت میں مشکل نہ پیش آئے۔بٹنوں والا موبائل بھی کئی کئی تھیلیوں میں محفوظ رہتا ہے،کہیں پانی یا دھول مٹی نہ پڑ جائے۔

وہ خاموشی سے سنتے رہے۔
ہم چڑ کر بولے:”کال سننے کے لئے ایک کے بعد ایک تھیلی کھلتی ہے اتنی دیر میں مسز کی کال مس کال بن جاتی ہے۔آپ سے تو ہم صرف عبرت حاصل کر سکتے ہیں۔“
اس دوران وہ ہمیں رحم بھری نگاہوں سے گھورتے رہے اور ہم کھری کھری سناتے رہے۔
”اچھا کھایا پیا کرو۔اچھے کھانے پر کوئی ٹیکس نہیں؟“ہم ان کے پُرسکون انداز پر جھلا اُٹھے۔

”زیادہ کھانا صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔یہ بات تو آپ کے علم میں ہے۔“انھوں نے ہمیں سمجھایا:”شوگر،بلڈ پریشر نامی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔کھانا اچھا ہو گا تو زیادہ کھایا بھی جائے گا۔“ہم نے ایک اور وار کیا:”اچھا پہنا کرو۔“
ہماری یہ بات سُن کر فوراً کہنے لگے:”آج کل تو ہر ہفتے فیشن بدل جاتا ہے۔مہنگے سے مہنگا خرید لو۔پھر آپ جیسے لوگ کہیں گے کہ فیشن کے مطابق نہیں پہنا۔اب مہنگا اور اچھا پہننے لگوں تو مانگنے والوں کی لائن لگ جائے گی۔“انھوں نے اپنی دور اندیشی پر داد طلب نگاہوں سے ہمیں دیکھا اور مسکرائے۔
”اچھا سوچا کرو۔یہ تو کر سکتے ہو!“اس کے سوا ہمارے پاس کہنے کو کچھ نہ بچا تھا۔

Browse More Moral Stories