Kareem Sahab Ka Ghar - Article No. 2207
کریم صاحب کا گھر - تحریر نمبر 2207
آپ پریشان نہ ہوں اور گھر نادر شاہ کو بیچ دیں بیس لاکھ ہم دونوں کے لئے کافی ہیں ہم ویسے بھی بوڑھے ہو چکے ہیں
منگل 8 مارچ 2022
انوار آس محمد
کریم صاحب بہت نیک انسان تھے۔ملازمت سے ریٹارمنٹ کے بعد وہ ایک چھوٹے سے گھر میں اپنی بیوی کے ساتھ رہتے تھے۔گھر میں محلے کے بچوں کو قرآن پاک پڑھاتے تھے۔گھر دو منزلہ تھا اوپر کی منزل کو وہ کرائے پر دیتے تھے جس کے کرائے سے ان کا گزارہ ہوتا تھا۔
آج کل کریم صاحب پریشان تھے انھوں نے اپنا گھر نادر شاہ نامی ایک شخص کو کرائے پر دے دیا تھا۔وہ اچھا آدمی نہیں تھا،وہ بہت بدمزاج اور لڑاکا تھا۔اب نادر نے کریم صاحب کو بھی تنگ کرنا شروع کر دیا تھا،تاکہ وہ کریم صاحب کا گھر کسی نہ کسی طرح حاصل کر لے۔
کریم صاحب نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیا،لیکن کوئی بھی ان کی مدد نہ کر سکا۔اصل بات یہ تھی کہ کوئی بھی نادر شاہ سے دشمنی مول لینا نہیں چاہتا تھا۔
نادر نے ایک دن کریم صاحب سے کہا کہ وہ ان کا گھر خریدنا چاہتا ہے اور بیس لاکھ روپے دے گا۔
”لیکن میرا گھر تو چالیس لاکھ سے اوپر کا ہے۔“کریم صاحب نے کہا۔
”مولوی صاحب!آپ کا خیال کرتے ہوئے اتنی رقم دے رہا ہوں،ورنہ میرے پاس دوسرے راستے بھی ہیں۔“نادر نے سمجھانے والے انداز میں دھمکی دی۔
وہ شریف انسان تھے کچھ نہ بولے۔نادر نے انھیں سوچنے کے لئے ایک ہفتے کا وقت دیا۔
مجبوراً کریم صاحب ایک رشتے دار کے ساتھ علاقے کے تھانے چلے گئے،لیکن علاقے کا ایس ایچ او بھی شاید نادر شاہ کا دوست تھا،وہ ٹال مٹول سے کام لینے لگا۔کریم صاحب نے ایک وکیل سے بات کی۔وکیل نے بھی یہی کہا کہ مقدمہ کئی سال چل سکتا ہے اور پیسے بھی خرچ ہوں گے۔ان حالات نے کریم صاحب کی پریشانی اور بڑھا دی۔
جب بیوی نے کریم صاحب کو پریشان دیکھا تو اُس نے کہا:”آپ پریشان نہ ہوں اور گھر نادر شاہ کو بیچ دیں بیس لاکھ ہم دونوں کے لئے کافی ہیں ہم ویسے بھی بوڑھے ہو چکے ہیں۔اب اس عمر میں لڑائی جھگڑا کرنا یا عدالتوں کے چکر لگانا ہمارے بس کی بات نہیں،آپ نادر شاہ کی بات مان لیں۔“
کریم صاحب نے نادر کو گھر فروخت کرنے کی حامی بھر لی۔نادر شاہ تو خوشی سے کھل اُٹھا۔
نادر شاہ اگلے ہی روز کریم صاحب کے ساتھ رجسٹرار صاحب کے دفتر جا پہنچا۔جوں ہی وہ دفتر میں داخل ہوئے،رجسٹرار صاحب اپنی کرسی سے اُٹھ کھڑے ہوئے،کیونکہ وہ اپنے استاد کریم صاحب کو پہچان گئے تھے۔
”استاد محترم!آپ اپنا گھر کیوں فروخت کرنا چاہتے ہیں اور وہ بھی اتنا سستا؟“سلام کرنے کے بعد رجسٹرار صاحب نے پوچھا۔
رجسٹرار اشرف اللہ ایک اچھے افسر تھے۔وہ بھی علاقے کے بدکردار لوگوں کو جانتے تھے۔وہ نادر شاہ کو بھی پہچان چکے تھے۔
”آپ ڈریں نہیں،مجھے سب کچھ بتائیے۔“رجسٹرار صاحب نے کہا۔
اور پھر کریم صاحب نے انھیں ہر بات سچ سچ بتا دی۔
یہ صورتِ حال دیکھ کر نادر شاہ کے ہوش اُڑ گئے۔بس پھر کیا تھا،رجسٹرار نے چپکے سے پولیس کو بلایا اور نادر شاہ کو زبردستی گھر خریدنے اور دھمکیاں دینے کے جرم میں اسی وقت گرفتار کروا دیا۔کریم صاحب کا گھر خالی ہوا،تب جا کر کریم صاحب نے سکون کا سانس لیا۔
کریم صاحب بہت نیک انسان تھے۔ملازمت سے ریٹارمنٹ کے بعد وہ ایک چھوٹے سے گھر میں اپنی بیوی کے ساتھ رہتے تھے۔گھر میں محلے کے بچوں کو قرآن پاک پڑھاتے تھے۔گھر دو منزلہ تھا اوپر کی منزل کو وہ کرائے پر دیتے تھے جس کے کرائے سے ان کا گزارہ ہوتا تھا۔
آج کل کریم صاحب پریشان تھے انھوں نے اپنا گھر نادر شاہ نامی ایک شخص کو کرائے پر دے دیا تھا۔وہ اچھا آدمی نہیں تھا،وہ بہت بدمزاج اور لڑاکا تھا۔اب نادر نے کریم صاحب کو بھی تنگ کرنا شروع کر دیا تھا،تاکہ وہ کریم صاحب کا گھر کسی نہ کسی طرح حاصل کر لے۔
کریم صاحب نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیا،لیکن کوئی بھی ان کی مدد نہ کر سکا۔اصل بات یہ تھی کہ کوئی بھی نادر شاہ سے دشمنی مول لینا نہیں چاہتا تھا۔
(جاری ہے)
کریم صاحب پولیس کے پاس جانے سے گھبراتے تھے۔
وہ چاہتے تھے کہ معاملہ کسی طرح حل ہو جائے،لیکن ایسا نہ ہوا۔نادر نے ایک دن کریم صاحب سے کہا کہ وہ ان کا گھر خریدنا چاہتا ہے اور بیس لاکھ روپے دے گا۔
”لیکن میرا گھر تو چالیس لاکھ سے اوپر کا ہے۔“کریم صاحب نے کہا۔
”مولوی صاحب!آپ کا خیال کرتے ہوئے اتنی رقم دے رہا ہوں،ورنہ میرے پاس دوسرے راستے بھی ہیں۔“نادر نے سمجھانے والے انداز میں دھمکی دی۔
وہ شریف انسان تھے کچھ نہ بولے۔نادر نے انھیں سوچنے کے لئے ایک ہفتے کا وقت دیا۔
مجبوراً کریم صاحب ایک رشتے دار کے ساتھ علاقے کے تھانے چلے گئے،لیکن علاقے کا ایس ایچ او بھی شاید نادر شاہ کا دوست تھا،وہ ٹال مٹول سے کام لینے لگا۔کریم صاحب نے ایک وکیل سے بات کی۔وکیل نے بھی یہی کہا کہ مقدمہ کئی سال چل سکتا ہے اور پیسے بھی خرچ ہوں گے۔ان حالات نے کریم صاحب کی پریشانی اور بڑھا دی۔
جب بیوی نے کریم صاحب کو پریشان دیکھا تو اُس نے کہا:”آپ پریشان نہ ہوں اور گھر نادر شاہ کو بیچ دیں بیس لاکھ ہم دونوں کے لئے کافی ہیں ہم ویسے بھی بوڑھے ہو چکے ہیں۔اب اس عمر میں لڑائی جھگڑا کرنا یا عدالتوں کے چکر لگانا ہمارے بس کی بات نہیں،آپ نادر شاہ کی بات مان لیں۔“
کریم صاحب نے نادر کو گھر فروخت کرنے کی حامی بھر لی۔نادر شاہ تو خوشی سے کھل اُٹھا۔
نادر شاہ اگلے ہی روز کریم صاحب کے ساتھ رجسٹرار صاحب کے دفتر جا پہنچا۔جوں ہی وہ دفتر میں داخل ہوئے،رجسٹرار صاحب اپنی کرسی سے اُٹھ کھڑے ہوئے،کیونکہ وہ اپنے استاد کریم صاحب کو پہچان گئے تھے۔
”استاد محترم!آپ اپنا گھر کیوں فروخت کرنا چاہتے ہیں اور وہ بھی اتنا سستا؟“سلام کرنے کے بعد رجسٹرار صاحب نے پوچھا۔
رجسٹرار اشرف اللہ ایک اچھے افسر تھے۔وہ بھی علاقے کے بدکردار لوگوں کو جانتے تھے۔وہ نادر شاہ کو بھی پہچان چکے تھے۔
”آپ ڈریں نہیں،مجھے سب کچھ بتائیے۔“رجسٹرار صاحب نے کہا۔
اور پھر کریم صاحب نے انھیں ہر بات سچ سچ بتا دی۔
یہ صورتِ حال دیکھ کر نادر شاہ کے ہوش اُڑ گئے۔بس پھر کیا تھا،رجسٹرار نے چپکے سے پولیس کو بلایا اور نادر شاہ کو زبردستی گھر خریدنے اور دھمکیاں دینے کے جرم میں اسی وقت گرفتار کروا دیا۔کریم صاحب کا گھر خالی ہوا،تب جا کر کریم صاحب نے سکون کا سانس لیا۔
Browse More Moral Stories
آزاد پنچھی
Azad Panchi
ایک حیرت انگیز مخلوق
Aik Herat Angaiz Makhlooq
سانپ کی خصلت
Sanp Ki Khaslat
بہانے باز
Bahane Baz
سچا خزانہ
Sacha Khazana
کیمرہ
Camera
Urdu Jokes
دادا
Dada
مالک مکان کرائے دار
Malik Makan Karaye dar
میرا نام اخبار
mera naam akhbar
نشانی
nishani
بلا تکلف
bila takalluf
بھکاری بس سٹاپ پر
Bhikaar bus stop per
Urdu Paheliyan
ہاتھ میں پکڑے اور مروڑے
hath ma pakra aur marody
اک برتن دیکھا ہے نرالا
ek bartan dekhna hai nirala
شیشے میں ہے لال پری
sheeshe me hai lal pari
اک شے کے ہیں پوت ہزار
ek shai ke hen poot hazar
جب آیا چپکے سے آیا
jab aaye chupke se aaya
خشکی پر نہ اس کا پاؤ
khuski par na us ka paon
ArticlesStoriesMiscellaneousGamesBaby NamesUrdu Videos