Khatarnak Jungle - Article No. 2250

Khatarnak Jungle

خطرناک جنگل - تحریر نمبر 2250

سب نے وہم کی اور ڈر کی سنی سنائی باتوں کو سچ سمجھ لیا اور ڈر گئے مگر تم بھی ہو۔تم نے رات کا یہ سفر بے خوفی سے کیا ہے اور ہر طرح کے وہم سے آزاد رہ کر کیا ہے۔یہ بات بہت اچھی ہے۔

پیر 9 مئی 2022

شہر سے دور ایک پہاڑی تھی۔یہ جنگلی پھولوں،پھل دار درختوں سے اس طرح ڈھکی تھی کہ ہوائی جہاز میں بیٹھ کے اوپر سے کوئی دیکھتا تو مٹی پتھر کچھ نظر نہیں آتا۔سب کچھ ہرا ہرا یا پھولوں کا نیلا،پیلا،نارنجی،سرخ رنگ ہی دکھائی دیتا۔
پہاڑی کے برابر سے ایک سڑک گزرتی تھی جو شہر تک جاتی تھی۔سڑک پکی نہیں تھی۔ضرورت بھی کیا تھی اس لئے کہ ادھر لوگوں کا آنا جانا کم ہی تھا۔
دن میں دو مرتبہ دودھ لے جانے والے گوالے اپنی سائیکلیں کھڑکھڑاتے گزرتے تھے یا پھر اپنے ریوڑ سنبھالتے ہوئے اِکا دُکا چرواہے تھے۔ہفتے میں ایک دو مرتبہ گھوڑوں پر سوار سرکاری کارندوں کا گزر ہوتا تھا۔کسی کا خط یا تار پہنچانا ہوتا تو ڈاکیا اپنی پرانی سائیکل سنبھالے ادھر نکل آتے۔وہ آدھا دن گزار کے پہاڑی کی دوسری طرف بستیوں میں گنتی کے چند خط پہنچاتے اور واپس شہر لوٹ جاتے۔

(جاری ہے)


خود بستی کے لوگ کبھی کبھار ہی شہر جاتے تھے۔وہ اپنی ضرورت کا سامان وہیں کے ایک دکاندار سے خرید لیتے تھے۔دکاندار دکان ہی میں رہتا تھا۔اکیلا آدمی تھا،کہیں آتا جاتا نہیں تھا۔دس بارہ دن بعد وہ اپنی گھوڑا گاڑی تیار کرتا اور سویرے سویرے شہر چلا جاتا۔سامان خرید کر وہ شام ہوتے ہوتے لوٹتا۔سورج ڈوبنے تک سب کچھ سنبھال کے فارغ ہو جاتا۔
اندھیرا ہونے پر وہ دکان کے دروازے بند کر لیتا تھا پھر صبح سے پہلے نہیں کھولتا تھا۔چاہے کچھ بھی ہو جائے۔کوئی بھی آ جائے مگر کوئی کیوں آنے لگا․․․؟
بستی کے لوگ مغرب ہوتے ہی گھروں میں بند ہو جاتے تھے۔پھر دوسرے دن سورج کے ساتھ ہی نکلتے تھے۔اس کی ایک وجہ تھی۔سب نے سُن رکھا تھا کہ پہاڑی پر بہت سے خطرناک جانوروں کا بسیرا ہے۔ایک تو وہاں چیتے کا جوڑا رہتا ہے۔
بہت ہی ڈراؤنے دو خاندان ریچھ کے ہیں۔ایک بوڑھا شیر کہیں سے آ گیا ہے۔سنا ہے اور بھی بھیانک جانور پہاڑی پر بسے ہوئے ہیں۔
ان خطرناک جانوروں کو بہت کم لوگوں نے دیکھا تھا۔اب جو تھے ان میں سے تو کسی نے بھی نہیں دیکھا ہو گا۔دیکھنے والے پہلے کبھی وہاں رہتے ہوں گے یا تو وہ مر کھپ گئے تھے یا جا چکے تھے۔ہاں خطرناک جانوروں کی آوازیں بہت لوگوں نے سن رکھی تھیں۔
کسی کسی نے سایوں کی طرح انہیں گزرتے بھی دیکھا تھا۔وہ لوگ پریشان رہتے تھے اور خطرناک جانوروں کی آوازوں اور سایوں کے بارے میں اپنے بچوں کو بتایا کرتے تھے۔برسوں سے سب اسی طرح تھا۔گلیوں محلوں میں دن کے وقت تو خوب چہل پہل رہتی،رات ہوتے ہی سناٹا ہو جاتا تھا،بچے تک آواز نہیں نکالتے تھے۔گھروں میں بند اپنے بستروں پر لیٹے بیٹھے لوگ بس نیند کا انتظار کرتے تھے۔

ایک دن شہر سے شکیل نام کا ایک لڑکا پہاڑی کے دوسری طرف جانے کے لئے روانہ ہوا۔وہ دکاندار کا بھتیجا تھا اور چچا کے بلانے پر چھٹیاں گزارنے جا رہا تھا۔دکاندار چچا نے اپنے خط میں اسے اچھی طرح سمجھا کر لکھ دیا تھا کہ وہ دن ہی دن میں پہاڑی کے ادھر پہنچ جائے۔رات کے وقت آنا ٹھیک نہیں ہے۔
شکیل شہر سے چلا تو خوب دھوپ نکلی ہوئی تھی۔کچھ دور اس نے ایک بڑے میاں کو خاکی وردی پہنے چمڑے کا جھولا لٹکائے سائیکل پر آہستہ آہستہ جاتے دیکھا۔
اس نے دوڑ لگا کر انہیں جا لیا۔وہ چچا کی دکان کا پتہ سمجھنا چاہتا تھا۔یہ ڈاک منشی تھے۔ہمدرد آدمی تھے۔انہوں نے بتایا کہ وہیں جا رہے ہیں اگر شکیل بیٹھنا چاہے تو سائیکل پر ان کے ساتھ بیٹھ سکتا ہے۔واہ واہ اس سے اچھی کیا بات ہو گی۔وہ خود بھی سائیکل چلانا جانتا تھا۔انہوں نے طے کیا کہ دونوں باری باری چلائیں گے ایک کو تھکانا اچھا نہیں۔
خیر پہاڑی کے برابر سے جاتی اس سڑک پر یہ دونوں چلے جا رہے تھے کہ اتفاق سے ایک جیپ گاڑی پہاڑی ڈھلان پر سے اُترنے لگی۔
سائیکل اس وقت بڑے میاں چلا رہے تھے،ان کا دھیان اس طرف نہیں تھا،جیپ کو اچانک سامنے پا کر وہ گڑبڑا گئے اور سائیکل کا پچھلا پہیہ گزرتی جیپ سے ٹکرا گیا۔دونوں دور جا گرے۔شکیل تو سڑک کے کنارے اُگی گھاس پر گرا تھا،معمولی خراشوں کے سوا اسے چوٹ نہ آئی۔ڈاکیے بے چارے بے ہوش ہو گئے۔سائیکل بھی ٹوٹ پھوٹ گئی۔جیپ والوں نے اُتر کر دیکھا۔غلطی ان کی نہیں تھی مگر ذمہ دار لوگ تھے۔
انہوں نے کہا ہم ڈاکیے کو شہر کے ہسپتال لے جاتے ہیں تم بھی آنا چاہو تو آ سکتے ہو۔شکیل نے سوچا کہ دکان دور کتنی ہو گی،وہ چلتا رہے تو اچھا ہے۔اس نے جیپ پر ڈاکیے کو سوار کرایا،ان کی سائیکل چڑھا دی،تھیلا بھی رکھ دیا۔جیپ شہر کی طرف چلی گئی۔
ان باتوں میں کافی وقت لگ گیا تھا اور سورج جھک آیا تھا۔شکیل نے سوچا وہ سڑک چھوڑ کر کسی چھوٹے راستے سے پہاڑی پر چڑھتا ہوا روشنی روشنی میں دکان تک پہنچ سکتا ہے۔
وہ جنگلی پھولوں پھلوں سے لدے ٹیڑے میڑے درختوں کے درمیان رستہ بناتا پہاڑی پر چڑھنے لگا۔طرح طرح کی چڑیاں اور تتلیاں اُڑتی پھرتی تھیں۔خرگوش اور گرگٹ تھے اور درختوں کے تنوں پر چلتے شوخ رنگوں والے کیڑے مکوڑے تھے۔درختوں پر پھل پک رہے تھے۔ان سب خوبصورت چیزوں کو دیکھتا پھلوں کے مزے لیتا شکیل چلتا رہا۔وہ اپنے خیال سے ٹھیک چل رہا تھا۔سمجھ رہا تھا کہ گھنٹے بھر میں پہاڑی کے اُدھر اُتر جائے گا مگر وہ بھٹک گیا تھا۔
شام گہری ہو گئی اور پرندے شور کرتے آنے لگے،دیکھتے دیکھتے سورج ڈوب گیا۔گھنے جنگل کے اندھیرے نے اسے اور بھٹکا دیا مگر وہ باہمت لڑکا تھا،چلتا رہا۔کچھ دیر میں چاند نکل آیا جس کے دھیمے اُجالے میں وہ راستہ ڈھونڈتا رہا۔
رات آدھی سے زیادہ گزر گئی۔شکیل تھک گیا تھا،اسے بھوک بھی لگ رہی تھی مگر چاندنی رات میں پہاڑی کے ہرے بھرے درختوں اور اُڑنے پھرنے والے پرندوں اور جانوروں کی آوازوں سے ایسا کچھ سماں بندھا تھا اور رات کو کھلنے والے پھولوں کی خوشبو نے ایسا جادو چلایا تھا کہ شکیل کو بھوک اور تھکن کا زیادہ خیال نہیں آیا۔
آخر اُجالا ہوتے ہوتے وہ دوسری طرف جا اُترا۔اس کا چچا دکان کھولنے کی تیاری کر رہا تھا۔شکیل کو پہچان کر وہ خوش ہوا اور پریشان بھی ہو گیا۔بھلا اس طرف سے،اس وقت کوئی یہاں کیسے پہنچ سکتا ہے․․․؟
رات میں تو پہاڑی پر خطرناک جانوروں کا راج ہوتا ہے۔شکیل کے لئے ہر خطرناک جانوروں والی بات نئی تھی۔اسے گرگٹ،چڑیاں،جگنو،خرگوش اور دوسرے دلچسپ جانور بے شک ملے تھے اور جنگل کے رسیلے پھل اور رات میں کھلنے والے پھول بھی۔
پہاڑی پر تو کوئی ایک بھی خطرناک جانور نہیں ہے۔
چچا سوچ میں پڑ گئے۔یہاں ایسے خطرناک جانور ہوں گے ہی نہیں۔جس نے بھی پہلے پہل ان جانوروں کی بات پھیلائی تھی اس نے انہیں خود تو دیکھا نہیں ہو گا،بس اپنا وہم اور اپنا خوف دوسروں سے بیان کر دیا ہو گا یا بہت سے بہت اس نے ڈراؤنی آوازیں سنی اور سائے دیکھے ہوں گے،جنہیں وہ سمجھ نہیں پایا ہو گا۔درختوں کے ہلتے سائے اسے چیتے،شیر اور ریچھ نظر آئے ہوں گے۔رات میں جنگل کی دلچسپ آوازیں اس کے خوف کے ساتھ بدل گئی ہوں گی۔
چچا نے کہا”دیکھو سب نے وہم کی اور ڈر کی سنی سنائی باتوں کو سچ سمجھ لیا اور ڈر گئے مگر تم بھی ہو۔تم نے رات کا یہ سفر بے خوفی سے کیا ہے اور ہر طرح کے وہم سے آزاد رہ کر کیا ہے۔یہ بات بہت اچھی ہے۔“

Browse More Moral Stories