Khilona Gari - Article No. 2370
کھلونا گاڑی - تحریر نمبر 2370
گھریلو حالات سے سمجھوتہ کرنے والے بچے کی کہانی
بدھ 12 اکتوبر 2022
بشریٰ ذیشان
”ابو!مجھے یہ گاڑی دلا دیں ناں!“احمد نے ایک کھلونا گاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمائش کی۔”نہیں بیٹا!ابھی تمہارے پاس جو اتنے سارے کھلونے ہیں،ان ہی سے کھیلو۔“احمد کے ابو نے دو ٹوک الفاظ میں کہا۔
”لیکن ابو!میرے پاس ایسی ریموٹ کنٹرول گاڑی نہیں ہے۔میرا بہت دنوں سے ایسی گاڑی لینے کو دل چاہ رہا تھا۔میرے دوست کے پاس بھی ایسی گاڑی ہے،ابو!مجھے بھی چاہیے۔“
”میں نے کہا ناں ابھی نہیں۔“احمد کے ابو نے کچھ سخت لہجے میں کہا۔احمد ناراض سا ہو کر بیٹھ گیا۔گھر آکر بھی اس کا مزاج خراب ہی رہا۔وہ دل میں سوچ رہا تھا کہ میرے امی ابو کو میرا ذرا بھی خیال نہیں ہے۔ان کو معلوم ہی نہیں ہے کہ میرے پاس سارے کھلونے کتنے پرانے ہو گئے ہیں۔
وہ مستقل یہی سوچ رہا تھا۔اب اسے ایسی باتیں یاد آرہی تھیں،جب اس کے والدین نے اس کی کوئی خواہش پوری نہ کی ہو یا ڈانٹ دیا ہو۔آخر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ امی ابو ہر وقت ڈانٹتے ہی رہتے ہیں،مجھے کبھی پیار نہیں کرتے۔اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
اس بات کو دو دن گزر گئے۔وہ اب اپنے والدین سے روٹھا ہوا سا رہنے لگا تھا۔وہ توجہ سے ان کی بات بھی نہیں سنتا۔احمد کے والدین اس کے اس رویے سے کافی پریشان تھے،لیکن ظاہر نہیں کرتے تھے۔احمد کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اس کے والدین کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
وہ جلدی سو گیا تھا۔اچانک پیاس سے اس کی آنکھ کھل گئی۔وہ پانی پینے اپنے کمرے سے باورچی خانے کی طرف جانے کے لئے نکلا۔ابھی وہ اندر ہی تھا کہ برآمدے میں اس کے والد کی آواز سنائی دی۔
والد اس کی امی سے کہہ رہے تھے:”میں احمد کی وجہ سے پریشان ہوں۔“احمد کے ابو کی آواز سے افسوس اور پریشانی ظاہر ہو رہی تھی۔
”میں بھی پریشان ہوں۔میرا خیال تھا کہ وہ ایک دو دن میں اس بات کو بھول جائے گا،لیکن وہ اس گاڑی کو بھول نہیں پا رہا ہے؟“
”سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں!میں نے اس گاڑی کی قیمت معلوم کی تھی۔وہ گاڑی تین ہزار کی ہے۔اگر میں وہ گاڑی اس کو دلا دوں گا تو گھر کا خرچ چلانا مشکل ہو گا۔کاش!میں اپنے بیٹے کی خواہش پوری کر سکتا۔“احمد کے ابو کے لہجے میں بے بسی تھی اور شاید آنکھوں میں آنسو بھی ہوں۔
”آپ فکر نہ کریں میں اس سے بات کرتی ہوں وہ سمجھ دار ہے،ہماری مجبوری سمجھ جائے گا۔“احمد کی امی نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
احمد پانی پیے بغیر اپنی چارپائی پر آکر بیٹھ گیا۔اب اسے بہت افسوس ہو رہا تھا کہ صرف ایک کھلونا گاڑی کی وجہ سے اس نے اپنے والدین کو اتنا دکھ دیا اور ان کے بارے میں اتنا غلط سوچا۔
صبح اُٹھ کر اس نے بہت احترام سے امی ابو کو سلام کیا اور اپنے ابو کے گلے لگ گیا۔
”ابو!آپ بہت اچھے ہیں۔“احمد نے اپنے ابو کے ہاتھ چومتے ہوئے کہا۔احمد کے ابو اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔احمد نے اپنے ابو کے ساتھ خوشی خوشی ناشتہ کیا۔
”امی!مجھے وہ گاڑی بالکل نہیں پسند،مجھے نہیں چاہیے۔“یہ کہتے ہی اس نے مسکراتے ہوئے اسکول کا بیگ اُٹھایا اور باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔
احمد کے ابو نے حیرت سے بیوی کی طرف دیکھا۔وہ بھی حیران کھڑی تھیں۔
”میں نے تو اس سے کچھ بھی نہیں کہا۔“احمد کی امی نے کہا۔
”واقعی!“احمد کے ابو نے سوچتے ہوئے کہا۔پھر وہ آفس جانے کے لئے تیاری میں مشغول ہو گئے۔اب وہ بہت خوش نظر آرہے تھے۔
”ابو!مجھے یہ گاڑی دلا دیں ناں!“احمد نے ایک کھلونا گاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمائش کی۔”نہیں بیٹا!ابھی تمہارے پاس جو اتنے سارے کھلونے ہیں،ان ہی سے کھیلو۔“احمد کے ابو نے دو ٹوک الفاظ میں کہا۔
”لیکن ابو!میرے پاس ایسی ریموٹ کنٹرول گاڑی نہیں ہے۔میرا بہت دنوں سے ایسی گاڑی لینے کو دل چاہ رہا تھا۔میرے دوست کے پاس بھی ایسی گاڑی ہے،ابو!مجھے بھی چاہیے۔“
”میں نے کہا ناں ابھی نہیں۔“احمد کے ابو نے کچھ سخت لہجے میں کہا۔احمد ناراض سا ہو کر بیٹھ گیا۔گھر آکر بھی اس کا مزاج خراب ہی رہا۔وہ دل میں سوچ رہا تھا کہ میرے امی ابو کو میرا ذرا بھی خیال نہیں ہے۔ان کو معلوم ہی نہیں ہے کہ میرے پاس سارے کھلونے کتنے پرانے ہو گئے ہیں۔
(جاری ہے)
ان کے پاس میرے لئے وقت ہی نہیں ہے۔
ہر وقت آفس کا کام کرتے رہتے ہیں۔امی ابو کو مجھ سے بالکل محبت نہیں ہے،انھیں صرف اپنے کام اور اپنی چیزوں کی پرواہ ہے بس۔وہ مستقل یہی سوچ رہا تھا۔اب اسے ایسی باتیں یاد آرہی تھیں،جب اس کے والدین نے اس کی کوئی خواہش پوری نہ کی ہو یا ڈانٹ دیا ہو۔آخر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ امی ابو ہر وقت ڈانٹتے ہی رہتے ہیں،مجھے کبھی پیار نہیں کرتے۔اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
اس بات کو دو دن گزر گئے۔وہ اب اپنے والدین سے روٹھا ہوا سا رہنے لگا تھا۔وہ توجہ سے ان کی بات بھی نہیں سنتا۔احمد کے والدین اس کے اس رویے سے کافی پریشان تھے،لیکن ظاہر نہیں کرتے تھے۔احمد کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اس کے والدین کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
وہ جلدی سو گیا تھا۔اچانک پیاس سے اس کی آنکھ کھل گئی۔وہ پانی پینے اپنے کمرے سے باورچی خانے کی طرف جانے کے لئے نکلا۔ابھی وہ اندر ہی تھا کہ برآمدے میں اس کے والد کی آواز سنائی دی۔
والد اس کی امی سے کہہ رہے تھے:”میں احمد کی وجہ سے پریشان ہوں۔“احمد کے ابو کی آواز سے افسوس اور پریشانی ظاہر ہو رہی تھی۔
”میں بھی پریشان ہوں۔میرا خیال تھا کہ وہ ایک دو دن میں اس بات کو بھول جائے گا،لیکن وہ اس گاڑی کو بھول نہیں پا رہا ہے؟“
”سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں!میں نے اس گاڑی کی قیمت معلوم کی تھی۔وہ گاڑی تین ہزار کی ہے۔اگر میں وہ گاڑی اس کو دلا دوں گا تو گھر کا خرچ چلانا مشکل ہو گا۔کاش!میں اپنے بیٹے کی خواہش پوری کر سکتا۔“احمد کے ابو کے لہجے میں بے بسی تھی اور شاید آنکھوں میں آنسو بھی ہوں۔
”آپ فکر نہ کریں میں اس سے بات کرتی ہوں وہ سمجھ دار ہے،ہماری مجبوری سمجھ جائے گا۔“احمد کی امی نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
احمد پانی پیے بغیر اپنی چارپائی پر آکر بیٹھ گیا۔اب اسے بہت افسوس ہو رہا تھا کہ صرف ایک کھلونا گاڑی کی وجہ سے اس نے اپنے والدین کو اتنا دکھ دیا اور ان کے بارے میں اتنا غلط سوچا۔
صبح اُٹھ کر اس نے بہت احترام سے امی ابو کو سلام کیا اور اپنے ابو کے گلے لگ گیا۔
”ابو!آپ بہت اچھے ہیں۔“احمد نے اپنے ابو کے ہاتھ چومتے ہوئے کہا۔احمد کے ابو اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔احمد نے اپنے ابو کے ساتھ خوشی خوشی ناشتہ کیا۔
”امی!مجھے وہ گاڑی بالکل نہیں پسند،مجھے نہیں چاہیے۔“یہ کہتے ہی اس نے مسکراتے ہوئے اسکول کا بیگ اُٹھایا اور باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔
احمد کے ابو نے حیرت سے بیوی کی طرف دیکھا۔وہ بھی حیران کھڑی تھیں۔
”میں نے تو اس سے کچھ بھی نہیں کہا۔“احمد کی امی نے کہا۔
”واقعی!“احمد کے ابو نے سوچتے ہوئے کہا۔پھر وہ آفس جانے کے لئے تیاری میں مشغول ہو گئے۔اب وہ بہت خوش نظر آرہے تھے۔
Browse More Moral Stories
نیلا طوطا (آخری حصہ)
Neela Tota - Aakhri Hissa
جھوٹ کی سزا
Jhot Ki Saza
چڑیاکی تین نصیحتیں (حکایت رومی)
Chirya Ki 3 Naseehatain
بلی شیر کی خالہ
Billi Sher Ki Khala
جادو کے بیج
Jadu Ke Beej
غلط فہمی
Ghalat Fehmi
Urdu Jokes
ایک آدمی کا گدھا
aik aadmi ka gadha
فلم
Film
ایک صاحب کی پانچوں انگلیاں
Aik sahib ki pancho ungliyan
بہرے
behre
نام
naam
سیکرٹری اور افسر
secretary and officer
Urdu Paheliyan
چیز میں ہے اک بالکل بے جان
cheez me hai ek bilkul bejan
اک حد تک تو گرمی کھائے
ek hud tak tu garmi khaye
صدیوں کا ہے اک گلزار
sadiyon ka hai ek gulzar
ایک جگہ پر چکر کھائے
aik jaga par chakkar khaye
جب وہ بولے ایک اکیلا
jab wo bole aik akela
اک شے جب بھی ہاتھ میں آئے
ek shay jab bhi hath me aye
ArticlesStoriesMiscellaneousGamesBaby NamesUrdu Videos