Lomri Ki Peshan Goi - Article No. 2044

Lomri Ki Peshan Goi

لومڑی کی پیشن گوئی - تحریر نمبر 2044

اسے اتنا معلوم تھا کہ ہر کسی کو میٹھی باتوں اور نرم گوئی سے دھوکا دیا جا سکتا ہے

پیر 23 اگست 2021

ایک تھی لومڑی جو دوسری تمام لومڑیوں کی طرح چالاک اور عیار تھی اور چونکہ اتنی طاقت نہ رکھتی تھی کہ شیر اور چیتے کی طرح شکار کر سکے اس لئے ہمیشہ چکنی چپڑی باتوں اور مکر و فریب کے ساتھ پرندوں اور چھوٹے جانوروں کو اپنے جال میں پھنساتی،میٹھی میٹھی باتوں سے اُن کی قربت حاصل کرتی اور پھر اچانک انہیں دبوچ کر ہڑپ کر جاتی۔
ایک روز یہ لومڑی صحرا کے وسط سے گزر رہی تھی اور اپنے دل میں سوچ رہی تھی۔
آج میں نے کچھ نہیں کھایا۔کڑاکے کی بھوک لگی ہے مجھے چاہئے کہ اپنے ہوش و حواس قائم رکھوں اور اگر میرا سامنا کسی خرگوش،چکور،پرندے،مرغے یا کسی اور جاندار سے ہو جائے تو مجھے ایسا حیلہ کرنا چاہئے کہ وہ مجھ سے خوف کھا کر بھاگ نہ لے۔لومڑی یہ سوچتی ہوئی آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔

(جاری ہے)

وہ یہ سوچ رہی تھی کہ اگر وہ کسی جانور کو جو اس کی خوراک کے لائق ہو،پھانس لے تو اسے کیا تدبیر کرنی چاہئے اور کس طرح کی گفتگو کرنی چاہئے کہ وہ اس کے نزدیک آجائے۔


اچانک اس نے رستے میں ایک عجیب و غریب چیز دیکھی۔رستے کے عین درمیان مٹھی بھر گھاس بکھری ہوئی تھی اور اس کے آس پاس لکڑی کا ایک ٹکڑا اور رسی کا ایک حصہ پڑا تھا اور ان کے درمیان ایک تازہ مچھلی نظر آرہی تھی․․․․ایک موٹی تازی مچھلی!لومڑی پہلے تو یہ سمجھی کہ بھوک کی شدت کے باعث اس کی آنکھیں کچھ سے کچھ دیکھ رہی ہیں اور مچھلی کہیں موجود نہیں لیکن وہ تھوڑا سا آگے بڑھی اور غور سے دیکھا تو واقعی ایک مچھلی وہاں موجود تھی اور اس کی بُو اس کے دماغ میں گھسی چلی آرہی تھی۔

اگر کوئی گوشت خور جانور ہوتا تو فوراً لپکتا اور مچھلی کو ہڑپ کر جاتا لیکن لومڑی بھوکی ہونے کے باوجود اسی جگہ کھڑی رہی اور سوچتی رہی اچھا اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مچھلی موجود ہے،مچھلی کا گوشت بڑا لذیذ ہوتا ہے لیکن میرے لئے یہی سمجھنا ضروری ہے کہ اس جگہ مچھلی آئی کہاں سے؟یہاں دریا کا کنارہ بھی نہیں کہ کہا جائے کہ مچھلی اُچھل کر باہر آپڑی ہو اور ہلاک ہو گئی ہو۔
مچھلی فروش کی دکان بھی یہاں نہیں،باورچی خانہ بھی یہاں دکھائی نہیں دیتا۔پھر یہ بھی کہ مچھلی کوئی صحرائی جانور نہیں کہ اپنے پاؤں چل کر یہاں آگئی ہو لہٰذا اس صحرا میں مچھلی کے ہونے کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو یہ لکڑی اور ریتی شکار کا جال ہیں اور یہ مچھلی کسی شکاری نے یہاں لا ڈالی ہے اور خود کسی کونے کھدرے میں چھپ گیا ہے تاکہ کسی لالچی جانور کو اپنے دام میں پھنسا لے یا یہ کہ کسی ماہی گیر نے دریا سے ڈھیر ساری مچھلیاں پکڑیں اور اس رستے سے جاتے ہوئے یہ مچھلی اس کے پشتارے سے گر پڑی اور اسے پتا نہ چلا۔
بہرحال خطرہ موجود ہے سو مچھلی کھانے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے۔
دراصل لومڑی کچھ عرصہ پہلے دیکھ چکی تھی کہ کیسے اچانک شکاری کے جال میں حرکت ہوئی تھی اور اس کی ایک سہیلی پھندے میں آگئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے آپ سے عہد کیا تھا کہ وہ ایسی چیزوں کے پکڑنے اور کھانے میں جلد بازی نہیں کرے گی جن کی اصل حقیقت اسے معلوم نہ ہو گی۔
آج بھی اس نے اپنے دل میں کہا سردست تو اس صحرا میں کوئی نظر نہیں آتا کہ مچھلی کو لے کر بھاگ کھڑا ہو لہٰذا بہتر یہی ہے کہ مچھلی کو یہیں چھوڑ کر اصل صورتحال کا کھوج لگاؤں۔یہ بھی ممکن ہے کہ مجھے ایسی خوراک مل جائے جو اس جیسی ہو۔
لومڑی نے مچھلی کو اسی طرح چھوڑا اور آگے بڑھنے لگی۔وہ کافی دور تک چلتی گئی مگر اسے کوئی شکار ہاتھ نہ آیا حتیٰ کہ دور سے اسے ایک بندر دکھائی دیا جو اسی رستے سے چلا آرہا تھا۔

لومڑی جانتی تھی کہ بندر کو کھانا ناممکن ہے لیکن اسے اتنا معلوم تھا کہ ہر کسی کو میٹھی باتوں اور نرم گوئی سے دھوکا دیا جا سکتا ہے۔بندر کو دیکھ کر اس کے دل میں اچانک ایک خیال آیا اور اس نے اپنے آپ سے کہا جو چالاکی کی بھی مجھ سے بن پڑے مجھے بندر کو مچھلی کی بساط تک لے جانا ہو گا تاکہ میں اس کے بھید سے آگاہ ہو سکوں۔یہ سوچ کر اس نے اپنی چال چلنا شروع کر دی۔
وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھی اور اس کی پشت کی طرف ہو کر صدا بلند کی۔میاں بندر ذرا رکیے مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ایک لمحے کو ٹھہریے!
بندر نے اپنا منہ موڑا اور جونہی لومڑی کو دیکھا،دوبارہ آگے بڑھنے لگا۔جب وہ ایک درخت کے نزدیک پہنچا تو اس پر چڑھ گیا اور ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔لومڑی بھی درخت کے نزدیک چلی آئی اور اس کے بالمقابل کھڑی ہو کر لگی تیز تیز باتیں کرنے قربان جاؤں،سلام عرض کرتی ہوں، میں نہیں جانتی خدا کا کیسے شکر بجا لاؤں کہ آپ سے یہاں ملاقات ہو گئی میں کتنی خوش نصیب ہوں کہ آج بالآخر اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی اور آپ کی خدمت میں پہنچ پانے کی عزت مجھے مل گئی۔
یقین کیجئے آج میں نے آپ کی تلاش میں تمام صحرا کی خاک چھانی تب جا کر یہاں پہنچی۔شکر خدا۔اب میری درخواست ہے کہ آپ جلدی کریں وقت کم رہ گیا ہے نیچے آئیے میری خواہش اور آرزو ہے تمام لوگ آپ کی راہ دیکھ رہے ہیں۔
بندر کو یہ باتیں سن کر بڑی حیرت ہوئی اس نے جواباً کہا مجھے نہیں معلوم تم کیا چاہتی ہو ان باتوں سے تمہارا مقصد کیا ہے؟
لومڑی بولی آخر تمام جانور جنگل کے میدان میں اب جمع ہیں اور آپ کے تشریف لانے کے منتظر ہیں مہربانی کریں!آئیے ہم جلد لوٹ آئیں گے۔رستے میں بات چیت کریں گے۔بندر بولا جانور!میرے تشریف لانے کے منتظر ہیں؟آخر کس لیے؟کیا مقصد ہے؟یقینا تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔مجھے جانوروں سے کیا لینا دینا؟

Browse More Moral Stories