Pani Ka Faisla - Pehla Hissa - Article No. 2409

Pani Ka Faisla - Pehla Hissa

پانی کا فیصلہ (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2409

کوئی ہے جو میرے ہاتھ پر تھوڑی دیر کے لئے چند اشرفیاں رکھ دے تاکہ میں بھی کچھ دیر کے لئے دولت کے احساس سے لطف اندوز ہو سکوں

منگل 6 دسمبر 2022

محمد فہیم عالم
”کوئی ہے جو میرے ہاتھ پر تھوڑی دیر کے لئے چند اشرفیاں رکھ دے تاکہ میں بھی کچھ دیر کے لئے دولت کے احساس سے لطف اندوز ہو سکوں۔“یہ عجیب و غریب صدا سن کر وہ دونوں بھائی چونک اُٹھے۔انہوں نے حیرت و تعجب سے اس کی طرف دیکھا۔وہ راہ گزر کے کنارے بیٹھا اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے بڑی پُرسوز آواز میں صدا لگا رہا تھا۔
اس کے لہجے میں زمانے بھر کی حسرت تھی۔اس کی درد بھری آواز نے ان کے قدم جکڑ سے لئے تھے۔انہوں نے اپنے گھوڑوں کی لگامیں کھینچ دیں۔
”کیا خیال ہے بھائی․․․․․!ایک نے دوسرے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
”آؤ یار!اس بے چارے فقیر کی یہ حسرت پوری کر ہی دیتے ہیں۔یہ بھی کیا یاد کرے گا۔“دوسرا مسکراتے ہوئے بولا اور وہ دونوں اپنے گھوڑوں سے اتر کر فقیر کی طرف بڑھے۔

(جاری ہے)


”یہ لو بابا․․․․!یہ اشرفیاں اپنے ہاتھ پر رکھ کر اپنی مسرت پوری کر لو۔“یہ کہہ کر ایک نے اپنی کمر سے بندھی ہوئی تھیلی کا منہ کھول کر سونے اور چاندی کے سکے فقیر کے ہاتھ پر اُلٹ دیئے۔
”اللہ تمہیں خوش رکھے۔اے پردیسی مسافرو!جس طرح تم نے میری حسرت اور خواہش کو پورا کیا۔اللہ تعالیٰ تمہاری آسوں مرادوں کو پورا کرے۔“
اشرفیاں دیکھ کر فقیر کی باچھیں کھل گئی تھیں۔
وہ بڑے اشتیاق اور محبت سے انہیں الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا۔”لاؤ بابا!یہ اشرفیاں مجھے واپس کر دو۔ہمیں ذرا جلدی ہے۔ہم نے اپنے وطن لوٹنا ہے۔ہمارا ابھی بہت سا سفر باقی ہے۔“جب کافی دیر تک وہ اشرفیوں کو یوں الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا تو ایک نوجوان بولا۔
”کیا کہا․․․․!یہ اشرفیاں میں تمہیں دے دوں․․․․!لو بھلا میں اپنی اشرفیاں تمہیں کیوں دوں۔
“فقیر اشرفیوں کو اپنے چوغ میں چھپاتے ہوئے بولا۔
”کیا ․․․․!“وہ دونوں چلا اُٹھے۔اُن کو چلانے کی آواز سن کر بہت سے راہ گیر بھی رک کر ان کی طرف دیکھنے لگے۔
”دماغ تو نہیں چل گیا آپ کا ․․․․یہ اشرفیاں ہماری ہیں۔ہم نے آپ کی خواہش پر صرف چند منٹ کے لئے آپ کے ہاتھ پر رکھی تھیں۔“نوجوان زور زور سے چلاتے ہوئے بولا۔
’او لوگو․․․․․!دیکھو․․․․!یہ دونوں مجھ غریب فقیر کو لوٹ رہے ہیں۔
آ․․․․ہ کیا زمانہ آ گیا۔اب تو لوگ مجھ جیسے قسمت کے ستائے فقیروں کو بھی لوٹنے لگ گئے اور وہ بھی دن دیہاڑے۔“فقیر نے تو باقاعدہ شور مچانا شروع کر دیا۔
”مکار،دھوکے باز فقیر!تجھے شرم نہیں آتی یوں جھوٹ بولتے ہوئے۔“دوسرا نوجوان غصے سے بولا۔
”لوگو․․․․․مجھے بچاؤ․․․․یہ اجنبی مسافر مجھ فقیر کو لوٹ رہے ہیں۔“فقیر زور زور سے دہائی دیتے ہوئے بولا۔
اُن کا یہ شور سن کر بہت سے لوگ جمع ہو گئے تھے۔فقیر کی بس ایک ہی رٹ تھی کہ یہ اشرفیاں اس کی ہیں۔اور یہ لوگ مجھے لوٹنا چاہ رہے تھے۔جب کہ وہ دونوں اجنبی مسافر قسمیں کھا کھا کر لوگوں کو یقین دلا رہے تھے کہ یہ اشرفیاں ان کے خون پسینے کی کمائی ہے۔لوگوں کے لئے فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا․․․․․آخر ایک سیانے بزرگ بولے:”میری مانو تو ان تینوں کو بادشاہ سلامت کے پاس لے چلو۔
وہی صحیح فیصلہ کریں گے۔“
ان بزرگ کی یہ رائے سبھی کو پسند آئی۔کچھ ہی دیر بعد وہ سب لوگ بادشاہ سلامت کے دربار میں موجود تھے۔یہ ملک تھا افغانستان․․․․اس وقت افغانستان کے بادشاہ عبدالرحمن خان اول تھے۔جس بزرگ کی رائے پر وہ آئے تھے وہ آگے بڑھے اور تمام معاملہ بادشاہ سلامت کے گوش گزار کر دیا۔
”ہاں فقیر بابا!تمہارا کیا کہنا ہے؟“تمام بات سن کر بادشاہ سلامت نے فقیر سے پوچھا۔”حضور!یہ اشرفیاں میری ہیں۔میں نے بھیک مانگ مانگ کر ان کو جمع کیا ہے اور اب یہ پردیسی اُچکے مجھ سے وہ میری جمع پونجی چھین لینا چاہتے ہیں۔
(جاری ہے)

Browse More Moral Stories