Pari Ki Beti - Article No. 1438
پری کی بیٹی۔۔۔تحریر:مختاراحمد - تحریر نمبر 1438
کچھ عرصہ پہلے وہ لوگ کافی امیر تھے- عذرا پری کا شوہرتجارت کرتا تھا اور ان کے گھر میں خدا کا دیا سب کچھ موجود تھا-مگر پھر ایک دفعہ ایسا ہوا کہ عذرا پری کا شوہر بیمار پڑ گیا- بیماری اتنی بڑھی کہ اپنا کام وام چھوڑ کر وہ چار پائی سے لگ
گیا-عذرا پری کو اپنے شوہر سے بے حد محبّت تھی
بدھ 12 جون 2019
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ پرستان میں ایک بے حد غریب پری اپنی بیٹی کے ساتھ ایک ٹوٹے پھوٹے سے گھر میں رہتی تھی- اس پری کا نام عذرا اور اس کی بیٹی کا نام شہناز تھا-
کچھ عرصہ پہلے وہ لوگ کافی امیر تھے- عذرا پری کا شوہرتجارت کرتا تھا اور ان کے گھر میں خدا کا دیا سب کچھ موجود تھا-مگر پھر ایک دفعہ ایسا ہوا کہ عذرا پری کا شوہر بیمار پڑ گیا- بیماری اتنی بڑھی کہ اپنا کام وام چھوڑ کر وہ چار پائی سے لگ
گیا-عذرا پری کو اپنے شوہر سے بے حد محبّت تھی- اس نے شوہرکی تیمارداری میں دن رات ایک کردیے- اس کی بیماری پر پیسہ پانی کی طرح بہایا مگر اس کے باوجود اس کا شوہر اسے اور ننھی پری شہناز کو اکیلا چھوڑ کر چلا گیا-
ان کے پاس جتنا روپیہ پیسہ تھا وہ تو سب عذرا پری کے شوہر کی بیماری میں لگ گیا تھا- اس کے مرنے کے بعد وہ لوگ کوڑی کوڑی کو محتاج ہوگئے تھے-اپنی گزر بسر کے لیے عذرا پری نے چند گھروں میں جھاڑو برتن اور دوسرے کام شروع کردیے- اس طرح ماں بیٹی زندگی کےدن پورے کرنے لگیں-
ان کے پڑوس میں ایک دیو بھی رہتا تھا جس کا نام کالا دیو تھا-جب عذرا پری کا شوہر بیمار تھا تو عذرا پری نے علاج کے لیے کالے دیو سے کچھ رقم قرض لی تھی- وہ رقم ابھی تک ادا نہیں ہوئی تھی-کالا دیو ہر روز عذرا پری سے اپنی رقم کی واپسی کے لیے اصرار کرتا تھا- مگر عذرا پری کے پاس تو ایک پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی- وو کالے دیو کو اس کی رقم کہاں سے لا کر دیتی- کالا دیو اسکا انکار سن کر منہ بنا کر چلا جاتا تھا-
ایک روز وہ پھر عذرا پری کے گھر آیا- اس روز وہ بہت غصے میں معلوم دیتا تھا- اس نے آتے کے ساتھ ہی پانی کے گھڑے پر ایک لات ماری اور دھم سے جو چار پائی پر بیٹھا تو چارپائی کی پٹی ہی ٹوٹ گئی-
عذرا پری سہم کر ایک کونے میں دبک گئی- اس کی بیٹی شہناز پری نے خوفزدہ انداز میں کہا-
امی جان! چارپائی ٹوٹ گئی- اب رات کو ہمیں زمین پر سوناپڑے گا۔
(جاری ہے)
کالا دیو غصے سے بولا-عذرا پری اگر مجھے یہ پتہ ہوتا کہ تم میری رقم واپس کرنے کا نام ہی نہیں لوگی تو میں تمہیں کبھی بھی رقم ادھار دینے پر راضی نہیں ہوتا- تم مجھے کیا سمجھتی ہو جو میری رقم ادا کرنے کا نام ہی نہیں لیتی ہو-عذرا پری گڑ گڑا کر بولی-بھیا کالے دیو- میری آمدنی بہت کم ہے- ہمارا ہی گزارہ مشکل سے ہوتا ہے-کالے دیو نے عذرا پری کی بیٹی شہناز پری کا ہاتھ پکڑ ا اوراسے اپنے ساتھ لے جاتے ہوۓ بولا-جب تک تم میرے پیسے واپس نہیں کرو گی- میں تمہاری بیٹی کو اپنے گھر میں نوکرانی بنا کر رکھوں گا- میرے گھر کی صفائی،کھانا پکانا، جھاڑو دینا، برتن دھونا، پودوں کو پانی دینا اور کپڑوں
کی دھلائی- یہ تمام کام اب تمہاری لڑکی انجام دے گی-عذرا پری کالے دیو کے سامنے گڑگڑانے لگی مگر اس کا دل ذرا بھی نرم نہ ہوا- وہ شہناز پری کو اپنے ساتھ لے کر اپنے گھر چلاآیا-
اس کا گھر بہت بڑا تھا- اس میں آٹھ بڑے بڑے کمرے تھے اورایک بہت وسیع باغ تھا- شہناز پری کو کالے دیو کا گھر پسند آگیا-شہناز آٹھ دس برس کی ایک ذہین لڑکی تھی- اس نے سوچا کہ اگر وہ کالے دیو کا حکم نہیں مانے گی، یا اس کے گھر سے بھاگ
جائے گی تو وہ جا کر اس کی امی کو تنگ کرے گا- اس لیے وہ چپ چاپ کالے دیو کا ہر کام کرنے لگی- صبح اس کے لیے ناشتہ بناتی،دوپہر کا کھانا پکاتی- اور پھر گھر کے دوسرے کاموں میں جت جاتی- ان کاموں سے فارغ ہوتی تو شام کے کھانے میں لگ جاتی- کالے دیو کو بھوک بہت لگتی تھی- شہناز پری کے آجانے سے کالے دیو کو بہت آرام ہوگیا تھا-
پہلے اسے اپنا ہر کام خود ہی کرنا پڑتا تھا- مگر اب اسے کھانا بھی پکا پکایا مل جاتا تھا اور کپڑے بھی دھلے دھلائے مل جاتے تھے- نہ جھاڑو دینا پڑتی تھی اور نہ برتن دھونا پڑتے تھے- اب وہ سارا دن مزے سے اپنے باغ کی ہری ہری گھاس پر ٹانگ پر ٹانگ
دھرے آرام سے لیٹا رہتا تھا-ایک روز وہ اپنے باغ میں لیٹا ہوا تھا کہ اچانک ہی اس کی
نظریں کھجور کے درختوں پر پڑیں- ان درختوں میں کھجورلگے ہوۓ تھے اور پک گئے تھے-
پکے ہوۓ کھجوروں کو دیکھ کر کالے دیو کے منہ میں پانی بھر آیا- وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور پھر ایک کھجور کے درخت پرچڑھنے لگا- ابھی اس نے آدھا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ اچانک اس کا ہاتھ شہد کی مکھیوں کے چھتے سے ٹکرا گیا- ہزاروں مکھیاں
بھنبھناتی ہوئی اس کی طرف لپکیں- کالا دیو شہد کی مکھیوں سےبہت ڈرتا تھا- انھیں اپنی طرف لپکتا دیکھ کر اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے- اس کے منہ سے چیخ نکلی اور اسی گھبراہٹ کی وجہ سے اس کے ہاتھوں سے درخت کا تنا بھی چھوٹ گیا- اور وہ دھڑام سے زمین پر گرا- اس کے گرنے کا دھماکہ بہت زور سے ہوا تھا-
شہناز پری کالے دیو کی پھٹی ہوئی قمیض سی رہی تھی- وہ بھی یہ دھماکہ سن کر چونک پڑی- وہ بھاگ کر کر جو کھڑکی کے قریب آئ تو اس نے کالے دیو کو زمین پر گرا دیکھا-
وہ جلدی سے باغ میں گئی- کالا دیو درد کے مارے کراہ رہا تھا- اس نے اپنی ایک ٹانگ کی پنڈلی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑا ہوا تھا اور اپنا بڑا سا منہ پھاڑ کر دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا- شہناز پری اسے چپ کرانے کی کوشش کرنے لگی-
کالے دیو نے اپنی قمیض کی آستین سے اپنی ناک پونچھی اوربھرائی ہوئی آواز میں بولا-
اتنی بلندی سے سر کے بل گرا ہوں، سر بہت مضبوط ہے-
اسے ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچا ہے- مگر ہائے میری ٹانک ٹوٹ گئی ہے- شہناز پری اب میں چلوں پھروں گا کیسے؟- مجھے اپنے گناہوں کی سزا مل گئی ہے- میں نے بہت لوگوں کے دل دکھائے ہیں-اسی وجہ سے مجھے آج یہ دن دیکھنا پڑا ہے-
یہ کہہ کر کالا دیو پھر رونے لگا-شہناز پری نے اسے تسلی دی اور اسے بڑی مشکلوں سے اس کے کمرے میں لائی- کالا دیو اپنے بستر پر لیٹ کر ہائے ہائے کرنے
لگا-تھوڑی دیر بعد اس نے کہا- " شہناز پری تمہاری نانی کے پاس جادو کامرہم ہے- اس کے لگانے سے میری ٹانگ ٹھیک ہوسکتی ہے- مگر مجھے یقین ہے کہ میرے گڑگڑانے کے باوجود بھی مجھے وہ مرہم نہیں دیں گی- وہ مجھ سے بہت ناراض ہیں- کیوں کہ آج سے چند سال قبل انہوں نے اپنے کھیتوں میں پانی دینے کے لیے اپنے گھر کے پاس ایک بہت گہرا کنواں کھدوایا تھا- وہ علاقہ چونکہ پہاڑی علاقہ ہے اس لیے کنواں بہت مشکل سے کھودا گیا تھا- مگرمیں نے شرارت کرنے کی نیت سے اس کنویں میں دوبارہ مٹی اور پتھر بھر دئیے تھے- میری یہ حرکت تمھاری نانی نے دیکھ لی- اس
دن سے وہ میری شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتیں-اتنا کہہ کر کالے دیو نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور خاموش ہوگیا- اس کے بعد اسے نیند آگئی-
شہناز پری بہت رحمدل تھی- حالانکہ کالے دیو نے اس کا اوراس کی ماں کا دل دکھایا تھا-مگر اس کی ٹانگ کے ٹوٹ جانے کے بعد اسے کالے دیوسے ہمدردی سی ہوگئی تھی- اس کی خواہش تھی کہ کالا دیو پھر سے چلنے پھرنے کے قابل ہوجائے- اسے اب اپنی غلطیوں کا احساس ہوگیا تھا-
جب کالا دیو سو گیا تو شہناز پری اس کے گھر سے نکلی اوراس نے ایک طرف کو اڑنا شروع کردیا- وہ اپنی نانی اماں کے گھرجا رہی تھی- تھوڑی دیر بعد وہ اپنی نانی اماں کے گھر پہنچ گئی- بڑھاپے کی وجہ سے نانی اماں بہت کمزور ہوگئی تھیں- انہوں
نے شہناز پری کو دیکھ کر بڑی خوشی کا اظہار کیا- شہناز پری نے نانی اماں کو بتایا کہ چونکہ اس کی امی نے دیو کا قرضہ واپس نہیں کیا تھا اس لیے وہ اس کو کام کاج کرنے کے لیے اپنے گھر لے آیا ہے- اب درخت پر گرنے کی وجہ سے اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے- اسے اپنی غلطیوں کا احساس بھی ہوگیا ہے- وہ بہت تکلیف میں بھی ہے- اس لیے وہ ان کے پاس جادو کا مرہم لینے کے لیے آئ ہے تاکہ کالے دیو کا علاج کرسکے-
نانی اماں دل کی بہت اچھی تھیں- حالانکہ اس دیو نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا تھا مگر انہوں نے شہناز پری سے کہا-
بیٹی میں تمہارے رویے سے بہت خوش ہوں- اگرچہ وہ دیواچھا نہیں ہے- اس نے تم لوگوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا ہے، مگراس کے باوجود تم اس کی مدد کرنا چاہتی ہو- یہ بہت اچھی بات ہے-
مجھے یقین ہے کہ تمہارا اچھا سلوک دیکھ کر اسے مزید اپنی غلطیوں کا احساس ہو جائے گا- کہہ کر نانی اماں نے جھٹ ایک پرانی سی صندوقچی میں سے جادو کا مرہم نکال کر شہناز پری کو دے دیا اور بولیں-اگر میری طبیعت ٹھیک ہوتی تو میں بھی ہمارے ساتھ ہی چلتی- خیر اب تم جلدی سے اسے لے کر روانہ ہوجاؤ- اس کے
لگاتے ہی دیو ٹھیک ہوجائے گا-نانی اماں نے شہناز پری کو رخصت کر دیا- نانی اماں سے رخصت ہو کر وہ پھر کالے دیو کے گھر پہنچی اور اسے جگا کر
بولی-
میں جادو کا مرہم لے آئی ہوں-کالا دیو تو خوشی کے مارے اچھل پڑا-شہناز پری نے اس کی پنڈلی پر جادو کامرہم لگایا تو تو کالا دیو پہلے کی طرح ہی بھلا چنگا ہوگیا- اس کا درد بھی غائب ہوگیا اوروہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا- اپنی ٹانگ کے ٹھیک ہوجانے پر اس کا خوشی سے برا حال تھا- وہ اپنے پورے گھر میں ناچا ناچا پھر رہا تھا- شہناز پری اس کی بچوں کی سی اچھل کود دیکھ کر ہنس رہی تھی-کالے دیو کو احساس تھا کہ شہناز پری نے اس کی زیادتیوں کہ بدلہ نیکی کی صورت میں دیا ہے- اسے اپنے پچھلے رویہ پر بے حد شرمندگی ہونے لگی تھی- اس نے عذرا پری اور شہناز پری سے اپنی تمام غلطیوں کی معافی مانگی اور عذرا پری کا قرض بھی معاف کردیا اور اسے اپنی طرف سے ایک تھیلی بھر کر اشرفیاں بھی دیں- اس کے علاوہ اس نے عذرا پری کو اپنی بہن بھی بنا لیا تھا اور ان دونوں کو اپنے ہی گھر میں لے آیا-
عذرا پری کے دن پھر گئے تھے- اس نے دوسروں کے گھروں میں کام کرنا بھی چھوڑ دیا تھا- اب وہ لوگ نہایت عیش و آرام سے رہنے لگے تھے- کالا دیو بے حد شریف بن گیا تھا- کالے دیو کی اس تبدیلی پر سارے لوگ حیران تھے- ان لوگوں کو کیا پتہ تھا کہ شہناز پری کی ایک ذرا سی نیکی کالے دیو کو راہ راست پر لے آئ تھی-اب وہ تینوں ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے-
Browse More Moral Stories