Qatil Ka Suragh - Article No. 2034

Qatil Ka Suragh

قاتل کا سراغ - تحریر نمبر 2034

جب اس نے بادشاہ سے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو بادشاہ نے فوراً اس کی کلائی پکڑ لی

پیر 9 اگست 2021

محمد احمد اسلم
بادشاہ سلامت دریا کے کنارے محل میں بیٹھے کچھ کام کر رہے تھے کہ ایک بڑا مٹکا دریا میں بہتا دکھائی دیا۔بادشاہ نے حکم دیا:”اسے نکال کر لاؤ۔“
مٹکا کھول کر جو دیکھا تو اس میں لاش تھی۔وزیر نے بتایا:”یہ تو فلاں جگہ کے کوتوال ہیں۔“
بادشاہ نے حکم دیا:”اس کی تحقیق ہونی چاہیے۔“اس کے بعد خود ہی فرمایا:”اچھا یہاں کے کمہاروں کو بلاؤ۔

تمام کمہاروں کو بلا کر ان سے معلوم کیا گیا کہ بتاؤ،یہ مٹکا کس علاقے کے کمہار کے ہاتھ کا بنا ہوا ہے؟
ایک کمہار نے بتایا:”حضور!یہ میرے ہاتھ کا بنا ہوا ہے۔“
بادشاہ نے پوچھا:”تمہارے مٹکے کہاں کہاں بکنے جاتے ہیں۔؟“
اس نے کہا:”فلاں علاقے کے مسافر خانے اور سرائے میں جاتے ہیں۔

(جاری ہے)


بادشاہ اس سرائے میں پہنچ گیا۔

سرائے کے مالک سے ملاقات کی۔
سرائے کے مالک نے کہا:”میں صاف صاف بتائے دیتا ہوں حضور!ایک دن میرے ہوٹل میں ایک آدمی آیا اور بالا خانے پر گیا۔میں نے اس سے کھانے کا پوچھا اور اس کے لئے کھانا تیار کرنے لگا۔کچھ دیر بعد دوسرا شخص آیا اور وہ بھی اوپر گیا۔میں نے سوچا کہ اسے بھی کھانے کی ضرورت ہو گی۔مجھے کھانے کی تیاری میں کچھ تاخیر ہوئی۔
جب کھانا تیار کرکے اوپر گیا تو دیکھا کہ پہلا شخص مردہ پڑا ہے اور دوسرا غائب ہے۔میں نے سوچا کہ اب کیا کروں۔میرے پاس یہ مٹکا رکھا ہوا تھا۔میں نے اس کی لاش اس میں رکھ کر جمنا میں ڈال دی۔“
بادشاہ کو یقین آگیا کہ ایسا ہی ہوا ہو گا۔پھر اس سے معلوم کیا کہ تم اس کے قاتل کو پہچان بھی سکتے ہو؟
اس نے کہا:”بالکل،اگر وہ میرے سامنے آجائے تو یقینا پہچان لوں گا۔

اب بادشاہ نے ایک ماہر مصور کو بلایا۔سرائے کے مالک کے بتائے ہوئے حلیے کے مطابق مصور نے تصویر بنا دی۔اب سرائے کے مالک سے پوچھا:”بتاؤ کیا یہی آدمی تھا؟“
اس نے کہا:”جی ہاں بالکل یہی تھا۔“
بادشاہ نے وہ تصویر اپنے پاس رکھ لی اور سمجھ گیا کہ یہ کام کسی ڈاکو ہی کا ہے۔عام آدمی کی اتنی جرات نہیں ہو سکتی۔وہ بھیس بدل کر ڈاکوؤں کے اس گروہ میں جا ملا،جو اس علاقے میں سرگرم تھا۔
کچھ دن ان کے ساتھ رہا۔
ان دن ڈاکوؤں میں بحث چل نکلی کہ کون کیا کارنامہ انجام دے سکتا ہے۔ہر ایک نے اپنے کمالات گنوائے،جب بادشاہ کا نمبر آیا تو انھوں نے کہا:”میرے اندر یہ کمال ہے کہ میں حکومت سے جتنا چاہوں،پیسہ منگوا لوں۔“
ساتھیوں نے کہا:”اچھا تجربہ کرواؤ۔“
بادشاہ نے ایک افسر کے نام ایک رقعہ لکھ کر ایک آدمی کو بھیج دیا کہ اتنے روپے رقعہ لانے والے کو دے دو۔
افسران تحریر کو پہچانتے تھے،اس لئے پورا روپیہ دے دیا۔اب تو ڈاکو بہت متاثر ہوئے کہ اس سے تو حکومت بھی ڈرتی ہے۔
ایک دن بادشاہ نے کہا کہ میں اپنے خرچ پر سب کی دعوت کرنا چاہتا ہوں،مگر شرط یہ ہے کہ کوئی ایک بھی شرکت سے محروم نہ رہے۔
ڈاکوؤں نے کہا:”سب تو آجائیں گے،مگر ہمارا ایک ساتھی نہیں آسکتا۔“
پوچھا:”کیوں؟“
انھوں نے بتایا:”اس نے حکومت کے ایک افسر کو قتل کر دیا تھا،اس لئے وہ پہاڑوں میں روپوش رہتا ہے۔

بادشاہ نے کہا:”نہیں نہیں اسے بھی آنا ہو گا۔دعوت کے بعد واپس چلا جائے۔“
اس پر ایک ڈاکونے کہا:”ٹھیک ہے ہم معلوم کرکے کل بتائیں گے۔“
اگلے روز بتایا کہ وہ بھی آجائیں گے،چنانچہ دعوت کی تیاری شروع ہو گئی۔
اس دوران بادشاہ نے ایک ڈاکو کو پیسہ لانے کے لئے ایک رقعہ دے کر کہا:”یہ بادشاہ کے کسی افسر کو دے دینا۔
“رقعے میں خفیہ زبان میں فوج کو ڈاکوؤں کے ٹھکانے کی نشاندہی کی گئی تھی۔
دعوت کے دن مقررہ وقت پر مفرور ڈاکو بھی آگیا۔وہ ہوبہو تصویر کے مطابق تھا،جو بادشاہ کے پاس تھی۔بادشاہ نے اسے پہچان لیا۔سب اس سے مصافحہ کرنے لگے۔جب اس نے بادشاہ سے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو بادشاہ نے فوراً اس کی کلائی پکڑ لی اور پوچھا:”تو ہے کون؟“
اس نے کہا:”میں اسی گروہ کا ساتھی ہوں اور تم کون؟“
کہا:”میں اس ملک کا بادشاہ ہوں۔“
اتنا سنتے ہی سب پر نکتہ طاری ہو گیا۔وہیں کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔اسی وقت فوج کے سپاہیوں نے ڈاکوؤں کے ٹھکانے پر حملہ کر دیا اور بادشاہ نے سب کو پکڑوا دیا۔

Browse More Moral Stories