Rubber Khoor - Article No. 2176

Rubber Khoor

ربر خور - تحریر نمبر 2176

زین کو ربر کھانے کی بہت بری عادت تھی

جمعہ 28 جنوری 2022

روبینہ ناز،کراچی
زین یہ تم کیا کھا رہے ہو اور تمہارے ہاتھوں میں کیا ہے؟عالیہ باجی نے زین سے پوچھا تو اُس نے ڈرتے ڈرتے اپنے ہاتھ اُن کے سامنے کر دئیے۔لیکن عالیہ باجی اُس وقت تک دیکھ چکی تھی کہ اُس نے اپنا ربر نیچے پھینکا اور پھر چالاکی سے اُس پر اپنا پاؤں رکھ دیا۔
عالیہ باجی گزشتہ کئی دنوں سے دیکھ رہی تھیں کہ زین چپکے سے ربر کھاتا ہے۔
اگر کوئی دیکھتا تو وہ کام کرنا شروع کر دیتا۔عالیہ باجی کو زین کی یہ عادت بری لگتی تھی لیکن پھر بھی اُنہوں نے سوچا کہ اگر زین کو سب کے سامنے ٹوکا تو اُسے شرمندگی ہو گی اور پھر سب اُس کا مذاق بھی اُڑائیں گے۔اس لئے اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک کہانی کے ذریعے زین کی اصلاح کریں گے۔”چلو بچو!اب کون سا پریڈ ہے“۔

(جاری ہے)

عالیہ باجی نے کلاس میں جاتے ہی پوچھا تو سب بچوں نے مل کر جواب دیا۔

”کہانی کا؟“آج میں جو کہانی آپ کو سنا رہی ہوں وہ ایک بہت ہی پیارے بچے عامر کی کہانی ہے جو ویسے تو بڑا پیارا تھا لیکن نہ جانے کب اور کیسے اُسے ربر کھانے کی خراب عادت لگ گئی تھی۔“
”ارے،اتنا گندا بچہ۔“حماد نے کہا۔پھر ایک بچے نے کہا:”عالیہ باجی کیا اُسے کھانا نہیں ملتا تھا جو وہ ربر کھاتا تھا“؟
یہ سن کر سب بچے زور زور سے ہنسنے لگے لیکن زین سر جھکائے خاموش بیٹھا رہا۔
عالیہ باجی بولیں:”خاموشی سے کہانی سنو ورنہ مزہ نہیں آئے گا“۔پھر اُنہوں نے دوبارہ کہانی سنانا شروع کی۔اُس کی امی اُسے روز سکول جاتے وقت ایک نیا ربر دیتی تھیں لیکن اسکول سے واپسی پر وہ ربر غائب ہوتا جب اُس کی امی پوچھتی کہ تمہارا ربر کہاں گیا تو وہ روز ایک نیا بہانہ بنا دیتا۔کبھی کہتا کھو گیا کبھی کہتا کسی بچے نے نکال لیا۔کبھی کچھ تو کبھی کچھ۔
کچھ دن تک تو یہ سلسلہ چلتا رہا پھر اُس کی امی نے طے کیا کہ میں اس کا پتا لگا کر رہوں گی کہ عامر کا ربر جاتا کہاں ہے؟
ایک روز عامر کی امی سکول پہنچیں اور ہیڈ مسٹریس سے شکایت کی کہ میرے بچے کا ربر روز کلاس میں غائب ہو جاتا ہے کہیں کوئی بچہ اُس کا ربر تو نہیں نکال لیتا؟
ہیڈ مسٹریس نے اُن سے کہا:”میں خود اس مسئلے کو حل کروں گی آپ بے فکر ہو جائیں۔
اگر کوئی بچہ ایسی حرکت کرتا ہے تو میں اُسے سخت سزا دوں گی۔“
اُسی رات عامر کے پیٹ میں شدید درد ہوا کہ وہ اپنا پیٹ پکڑ کر زور زور سے رونے لگا۔اُنہوں نے محسوس کیا کہ عامر کا پیٹ کچھ پھول گیا تھا۔یہ دیکھ کر عامر کے امی ابو پریشان ہوئے اور اُسے فوراً ہسپتال لے گئے۔جہاں ڈاکٹروں نے چیک اپ کرنے کے بعد اُس کے امی ابو کو بتایا کہ اس کے پیٹ میں بہت سے ربر موجود ہیں جس کی وجہ سے درد ہو رہا ہے۔
چونکہ ربر بناتے وقت بہت سے کیمیکل ملائے جاتے ہیں اس لئے عامر کے پیٹ میں انفیکشن ہو گیا ہے۔اتنا کہہ کر عالیہ باجی رُکیں اور بچوں سے پوچھا۔”جانتے ہو پھر کیا ہوا؟“
”کیا ہوا باجی؟“بچوں نے ایک ساتھ پوچھا۔
”عامر کے پیٹ کا آپریشن کیا گیا تو اس کے پیٹ میں سے بہت سے ربر نکالے گئے۔عامر کو تکلیف تو بہت ہوئی لیکن پھر اُس نے توبہ کر لی کہ آئندہ کبھی ربر نہیں کھاؤں گا۔

زین خاموشی سے کہانی سُن رہا تھا جب اُسے معلوم ہوا کہ ربر کھانے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے تو اُس نے تہیہ کر لیا کہ آئندہ کچھ بھی ہو ربر کو منہ نہیں لگائے گا۔اس طرح وہ ڈانٹ کھائے بغیر ہی سدھر گیا۔بچو آپ بھی اس کہانی سے سبق حاصل کر لو کہ ربر ہو یا پنسل یا چاک،مٹی وغیرہ،ان میں سے خواہ کتنی بھی خوشبو آ رہی ہو ان کو کبھی بھی اپنے منہ کے پاس نہ لاؤ ورنہ آپ کا حال بھی عامر کے جیسا ہو سکتا ہے۔

Browse More Moral Stories