Soya Huwa Ghar - Article No. 1182

Soya Huwa Ghar

سویا ہوا گھر - تحریر نمبر 1182

ہم سب جانتے ہیں کہ صرف انسان ہی سونے کے شوقین نہیں ہوتے،بلیاں بھی دھوپ میں خوب سوتی ہیں ۔بطخیں اپنا سَر پَروں میں دے لیتی ہیں اور بہت سے جانور ،جیسے کچھوے ایک وقت میں کئی مہینوں تک سوئے رہتے ہیں ،لیکن کیا کبھی آپ نے سنا ہے کہ کوئی گھر بھی سو گیا ہو

بدھ 12 ستمبر 2018

احمد عدنان طارق
ہم سب جانتے ہیں کہ صرف انسان ہی سونے کے شوقین نہیں ہوتے،بلیاں بھی دھوپ میں خوب سوتی ہیں ۔بطخیں اپنا سَر پَروں میں دے لیتی ہیں اور بہت سے جانور ،جیسے کچھوے ایک وقت میں کئی مہینوں تک سوئے رہتے ہیں ،لیکن کیا کبھی آپ نے سنا ہے کہ کوئی گھر بھی سو گیا ہو۔آئیں ،ہم آپ کو ایسے گھر کی کہانی سناتے ہیں ،جو واقعی سوگیا تھا۔

وہ گھر ایک جنگل کے کنارے پر واقع تھا ۔اس کی چھت سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی تھی اور اس کے دروازے کا رنگ سبز تھا ۔یہ بہت چھوٹا ،مگر پیارا تھا اور جو خاندان اس میں رہتا تھا ،وہ اس سے بہت پیا ر کرتا تھا ۔اس خاندان میں کل چھے افراد تھے ۔الیاس صاحب ،بیگم الیاس اور ان کے چاربچے ۔وہ بہت خوش رہنے والا گھرانہ تھا اور سب ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے ۔

(جاری ہے)

الیاس صاحب محکمہ جنگلات میں کام کرتے تھے ۔وہ اپنے سر کاری کام کے علاوہ گرے ہوئے درختوں اور شاخوں کو اُٹھا یا کرتے اور اس طرح جنگل کو صاف کرتے تھے۔ہر روز اپنے کام پر جاتے ،کیوں کہ انھیں اپنے کام سے محبت تھی ۔وہ خود کو خوش قسمت سمجھتے کہ وہ جہاں رہنا چا ہتے تھے ،وہیں رہ رہے ہیں اور جہاں کام کرنا چا ہتے تھے ،وہیں کام کررہے ہیں ۔بیگم الیاس بھی نزدیکی قصبے میں کام کرتی تھیں ۔
وہ ایک نرس تھیں ۔وہ لوگوں کے گھر جا کر معلوم کرتیں کہ لوگ اپنی صحت کا صحیح خیال رکھ رہے ہیں یا نہیں ۔وہ ہر روز قصبے سے جنگل تک بنی میڑھی سڑک پر سفر کر تیں ۔ان کے بچے بھی قصبے کے اسکول میں پڑنے جاتے ،لیکن چھٹی کے بعد بھاگم بھاگ اپنے جنگل والے گھر میں واپس آجاتے ۔سب ایک دوسرے کا خیال کرتے تھے اور ہر سال الیاس صاحب گھر کی چھت پر چڑھ جاتے اور یکھتے کہ چھت کی سرخ اینٹوں میں سے کوئی ڈھیلی تو نہیں ہو گئی ۔
بیگم الیاس نیچے کھڑے ہو کر انھیں احتیاط کرنے کی ہدایت دیتی رہتیں اور ہردوسرے سال الیاس صاحب اور بیگم الیاس دروازے کوسبز رنگ سے رنگا کرتے تھے ،تا کہ اسے بارش سے بچا سکیں ۔وہ جیسے جیسے بوڑھے ہونے لگے، بچے دروازے کو رنگنے میں ان کی مدد کرنے لگے ۔اب دروازہ رنگنے کا کام جو وہ دونوں ایک ہفتے میں ختم ہونے لگا۔ جب بچے بڑے ہو گئے اور ایک ایک کرکے گھر چھوڑ کرچلے گئے۔
کوئی پڑھائی کے لیے ،کوئی کام کے لیے اور کوئی اپنا مکان خود بنانے کے لیے ۔جلد ہی الیاس صاحب اور ان کی بیگم اس گھرمیں اکیلے رہ گئے ۔پہلے پہل بچوں کے بغیر انھیں مکان بہت بڑا لگنے لگا۔بیگم الیاس کاخیال تھا کہ وہ یہ مکان چھوڑ کر چھوٹے مکان میں رہنے نہیں جا سکتیں ،کیوں کہ جب ان کے بچے ان سے ملنے آئیں گے تو وہ انھیں کہاں ٹھیرائیں گے۔بیگم کی بات سن کر الیاس صاحب دل ہی دل میں بہت خوش ہوتے ،کیوں کہ وہ ہر صورت جنگل کے نزدیک رہنا چا ہتے تھے اور وہ اپنے پرانے گھر سے محبت بھی کرتے تھے ،جس سے ان کی بے شمار خوش گواریادیں جڑی ہوئی تھیں ۔
پھر وقت گزرتا گیا،پہلے الیاس صاحب اور پھر بیگم الیاس نوکریوں سے ریٹائر ہو گئے۔وہ اب بھی اپنے گھر سے بہت محبت کرتے تھے ،اس لیے انھوں نے اپنے گھر میں اپنی بقیہ عمر گزار نا پسند کیا،حالانکہ کہ بچے چاہتے تھے کہ وہ گھر تبدیل کرلیں ۔وہ ماں باپ کو سمجھاتے ہوئے کہتے :”آپ یہاں اکیلے ہیں ۔کیا ہو گا اگر خدا نخواستہ آپ میں سے کوئی بیمار ہو جائے اور اسے ڈاکٹر کی ضرورت ہو۔
“دونوں میاں بیوی ہنستے اور کہتے!تم جانتے ہو ہم ایک دوسرے کی مدد سے مشکل وقت گزار سکتے ہیں ،لیکن پھر بھی اب اس گھر کی مرمت اور اسے صاف ستھرارکھنا ہم دونوں کے لیے بہت مشکل ثابت ہو رہا ہے ۔حالانکہ اب نوکریوں والا بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا،لیکن اب وہ صر ف دوتھے اور بوڑھے بھی تھے تو دروازہ رنگنے میں انھیں زیادہ دن لگ جاتے تھے ۔اب انھیں کسی کوبلانا پڑتا تھا ،تاکہ وہ چھت کاجائزہ لے،کیوں کہ بیگم الیاس سمجھتی تھیں کہ الیاس صاحب اب یہ کام نہیں کرسکتے۔
کچھ اور بھی مشکلات تھیں ۔اگر چہ الیاس صاحب جنگل کے نزدیک رہنا پسند کرتے تھے،لیکن وہ ہر سال ہوتی ہوئی کئی تبدیلیوں کو دیکھتے تھے ۔اب جوکام وہ کیا کرتے تھے ،وہ مشینوں سے لیا جاتا تھا اور جولڑکے مشینیں چلاتے تھے ،ان کے دلوں میں درختوں کے لیے کوئی جذبات نہیں تھے ۔وہ کہتے،سب کچھ پہلے جیسا نہیں رہا۔میرا دل ٹوٹ جاتاہے،جب یہ درختوں کے ٹکڑے کرکے انھیں یوں اُٹھا کر لے جاتے ہیں ،جیسے کوئلوں کی بوریاں ہوں ۔
انھیں پتا ہونا چاہیے کہ درختوں میں زندگی ہوتی ہے ۔ان کی عزت کرنی چاہیے۔پھر ایک سردیوں کے موسم میں اتنی برف پڑی کہ ان کا چھوٹا ساگھر برف سے اَٹ گیا اور الیاس صاحب اپنی بیگم کے ساتھ دو ہفتے کے لیے گھر میں ہی بند ہو کررہ گئے ۔وہ اب اتنے طاقت ور تو تھے نہیں کہ راستے سے برف خود ہٹا لیں ،لہٰذا اب وہ دونوں آگ کے آمنے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے سے گزرے وقت کی باتیں کرتے رہتے ۔
بیگم الیاس نے کہا:”ہم نے اپنے اس پرانے گھر میں بہت اچھاوقت گزارا ہے لیکن اب بہتر یہی ہے کہ ہم یہ گھر چھوڑ کر شہر میں کوئی گھر لے کر رہیں ۔“الیاس صاحب نے بھی ان کی تائید کرتے ہوئے کہا:”واقعی مجھے یہ گھر چھوڑتے ہوئے بہت افسوس ہو گا لیکن ایک طرح سے اطمینان بھی ملے گا۔“لہٰذا ایک دن آخری بار انھوں نے سبز دروازے کوتالا لگایا اور اپنی ضرورت کی چیزیں اور فرنیچر لاد کر وہاں سے روانہ ہو گئے ۔
وہ نئے گھر میں بھی بہت خوش تھے اور جلد ہی انھوں نے جنگل والے گھر کو بھلا دیا۔اس گھر کے باہر ایک تختہ جس پر لکھا تھا کہ مکان کرائے کے لیے خالی ہے ،لگا دیا گیا ۔کئی افراداس گھر کو دیکھنے آئے ،لیکن یہ گھر ان کی ضرورت کے لیے چھوٹا تھا یا شہر سے بہت دور تھا ۔یہاں تنہائی تھی یا کسی کے لیے یہ بہت پرانی طرز کا تھا ۔کچھ دنوں کے بعد کرائے کا تختہ بھی تیز ہوا سے گر گیا اور دوبارہ کسی نے اسے نہیں لگایا اور پھر ایک دن یہ مکان خوب صورت جنگل کے نزدیک کھڑا کھڑا سو گیا سونے کا مطلب یہ نہیں کہ مکان نے آنکھیں بند کر لیں ،کیوں کہ گھروں کی کون سی آنکھیں ہوتی ہیں ،لیکن ان کی کھڑکیاں ہوتی ہیں ،جو آہستہ آہستہ خراب اور مٹی آلودہ ہو گئیں ۔
سبز دروازے کا رنگ اُڑگیا۔سرخ اینٹیں جن کے بارے میں الیاس صاحب اتنا فکر مندرہتے تھے ،ان میں سے کئی زمین پر گر پڑیں ۔ان میں سوراخوں سے بارش کا پانی گھر میں ٹپکنے لگا۔لیکن گھر خالی نہیں تھا،بلکہ بہت سے حشرات الارض نے اسے اپنا ٹھکانہ بنا لیا تھا ،مکڑیوں نے کونوں میں جالے بُن لیے تھے ۔ننھی چیونٹیاں اور جھینگز زمین پر دوڑتے پھر رہے تھے ۔
پتنگے کھڑکیوں کے پاس اُڑتے پھر رہے تھے ۔لہٰذا گھر سویا رہا اور درختوں کی شاخیں اس کے نزدیک تر آتی چلی گئیں اور آخر چھت کو چھونے لگیں ،جس سے کئی اور اینٹیں بھی با غیچے میں گر گئیں ۔باغ اب اُجڑچکا تھا ۔پھولوں کی بیلیں کھڑکیوں کو ڈھانپ رہی تھیں اور اگر آپ غور سے نہ دیکھیں تو مکان کے قریب سے گزرتے آپ کو وہ بالکل دکھائی نہیں دے گا ۔وہ واقعی بہت گہری نیند سو یا ہوا تھا ۔
پھر ایک دن الیا س صاحب کا سب سے بڑا بیٹا معاذ اس گھر کو دیکھنے آیا،جہاں وہ پلا بڑھا تھا ۔وہ اپنی بیوی اور دو ننھے بچوں کو ساتھ لایا تھا ۔معاذ نے کہا:”میری بڑی خواہش تھی کہ میں اسے دوبارہ دیکھوں ۔“جب وہ قصبے والی سڑک سے وہاں آیا تو اسے کچھ نہ کچھ کر یقین نہیں آیا۔اس نے سوچا، شاید گھر نہیں رہا ،لیکن اس کی بیوی کو وہ چھپا ہوا گھر نظر آگیا۔
بچے ہنس کربولے،یہ تو خفیہ گھر ہے ۔پھر انھوں نے بڑی مشکل سے شاخیں اور لمبی گھاس ہٹا کر سبز دروازہ کھولا۔جب وہ اندر گئے تو انھیں چھت گرنے کا بھی ڈر تھا اور فرش ڈھنسنے کا بھی ،بڑے چھوٹے احتیاط سے پاؤں رکھتے ہوئے وہاں گھر کو دیکھتے رہے ۔انھیں آج بھی وہ جگہ خوشی دینے والی لگ رہی تھی۔بچے باغ دیکھنے باہر دوڑے تو معاذ اور بیگم معاذ نے ایک دوسرے کی طر ف دیکھا ۔
وہ دونوں ایک ہی بات سوچ رہے تھے۔وہ دونوں ہنس کو بولے:”کوئی ہمت والاہی ہو گا،جو اتنا کام کرنے کا سوچے گا۔“بچے آئے تو وہ ان کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے ۔پھر اگلے کچھ ہفتے گھر کے اردگرد خاصی گہماگہمی رہی ۔درخت کاٹے گئے ۔شاخیں ہٹائی گئیں ۔جلدہی سبز دروازہ بغیر کسی مشکل سے کھلنے ،بند ہونے لگا لیکن اب بھی گھرسویا ہو ا تھا ۔
پھر کئی ماہ گھر میں بڑھئی مصروف رہے اور ان کی ٹھکاٹھک جاری رہی ۔مرمت اور لکڑی کی تبدیلی جاری رہی ۔چھت پر نئی اینٹیں ڈالی گئیں ۔رنگ وروغن ہوا،لیکن گھر سویا رہا۔آخر ایک دن معاذ اپنی بیوی اور دوبچوں کے ساتھ رہنے وہاں آگیا۔گھر قمقموں سے جگمگا اُٹھا ۔گھر کو گرمی محسوس ہوئی ،جو وہ کئی سال پہلے سو چکا تھا ۔اس نے چر چراہٹ سے ایک ہلکی سے انگڑائی لی اور آخر نیند سے بیدار ہو گیا ۔تبھی تو بڑے بوڑھے کہتے ہیں ،گھر بننے سے نہیں بسنے سے قائم رہتے ہیں ۔

Browse More Moral Stories