Shehzade Ki Behen - 1st Episode - Article No. 1562

Shehzade Ki Behen - 1st Episode

شہزادے کی بہن ۔پہلی قسط - تحریر نمبر 1562

شہزادہ عثمان اپنے دوستوں کے ساتھ شکار پر جانے کے لیے تیاری کر رہا تھا- اس نے شہزادوں والی پوشاک اتار کر شکاری لباس زیب تن کیا، چمچماتا تیز دھار کا دو دھاری خنجر کمر میں اڑسا

Mukhtar Ahmad مختار احمد منگل 5 نومبر 2019

شہزادہ عثمان اپنے دوستوں کے ساتھ شکار پر جانے کے لیے تیاری کر رہا تھا- اس نے شہزادوں والی پوشاک اتار کر شکاری لباس زیب تن کیا، چمچماتا تیز دھار کا دو دھاری خنجر کمر میں اڑسا، تیروں سے بھرے ترکش کا جائزہ لیتے ہوۓ کمان اٹھائی اور کمرے سے نکلنے ہی والا تھا کہ دروازے پر پڑا پردہ ہٹا اور اس کی چھوٹی بہن شہزادی ثریا کمرے میں داخل ہوئی- شہزادہ عثمان کے بڑھتے ہوۓ قدم رک گئے- وہ شہزادی ثریا کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولا- "کیا بات ہے ثریا؟"


شہزادی ثریا ٹھنک کر بولی- "بھیا آج تو میں بھی آپ کے ساتھ شکار پر چلوں گی- آپ تو ً ہر روز شکار کرنے جنگل جاتے ہیں-"

شہزادہ ہنس پڑا ، ہنستے ہوۓ بولا- "تم کہاں جنگلوں میں بھاگ دوڑ کرتی پھرو گی، بے کار میں ہلکان ہوجاؤ گی- امی حضور کے پاس جاؤ- ان کے پاس بیٹھ کر ان سے کوئی اچھی سی کہانی سن لو-"

شہزادی ثریا نے مایوسی سے سے گردن ہلاتے ہوۓ کہا- "امی حضور دن میں کہانی نہیں سناتیں، کہتی ہیں کہ دن میں کہانی سنانے سے ماموں جان راستہ بھول جاتے ہیں- میں تو آپ کے ساتھ ہی چلوں گی اور آپ کو ہرن مار کر دکھاؤں گی-"

"جیسے میں تمہیں ساتھ لے ہی جاؤں گا- کبھی لڑکیاں بھی شکار کھیلنے گئی ہیں جو میں تمہیں ساتھ لے جاؤں اور پھر میرے ساتھ میرے دوست بھی تو ہوں گے، وہ دل میں کیا کہیں گے کہ شہزادہ عثمان کی چھوٹی بہن گڑیوں سے کھیلنے کی بجاے شکار کھیلتی ہے-" شہزادہ عثمان نے قدرے جھنجلاتے ہوۓ کہا-

"میں تو آپ کے ساتھ ضرور جاؤں گی-" شہزادی ثریا نے سر ہلا کر کہا- شہزادہ عثمان اسے گھورنے لگا- یکایک شہزادی ثریا کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی-

شہزادہ عثمان گھبرا گیا- وہ اسے چپ کرانا ہی چاہتا تھا کہ بادشاہ ملکہ کے ساتھ اندر داخل ہوا- شہزادی ثریا کو روتے دیکھا تو ملکہ نے آگے بڑھ کر پوچھا- "ثریا بیٹی- کیا بات ہے؟ تم رو کیوں رہی ہو؟"

شہزادی ثریا نے کوئی جواب نہیں دیا- بادشاہ شہزادہ عثمان کو دیکھتے ہوۓ بولا- "اس نالائق نے کچھ کہا ہوگا ہماری بیٹی کو، کیوں بھئی ثریا کیا بات ہے؟"

"بات مجھ سے سنئے"- نالایق کا خطاب پا کر شہزادہ عثمان کچھ جھینپ کر بولا- "فرماتی ہیں میں بھی شکار پر چلوں گی- بہت شوق ہے نا جنگل گھومنے کا جیسے وہاں لڈو ملتے ہیں- اگر شیر کو دور ہی سے دیکھ لیا تو گھگی بندھ جائے گی-"

"جی ہاں- اور جیسے آپ تو شیر کو دیکھ کر مارے خوشی کے بغلیں بجانے لگیں گے-" بادشاہ نے اسے گھورتے ہوۓ کہا- "ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم سیر سپاٹے اور شکار میں اپنا وقت کیوں برباد کرتے پھرتے ہو- ہم بوڑھے ہونے لگے ہیں- سر کے بال تیزی سے سفید ہو رہے ہیں، اوپر کا ایک اور نیچے کے دو دانت ہلنے لگے ہیں، آخر ہم کب تک اس ملک کی باگ ڈور سنبھالے رکھیں گے- ہم نے تمہیں اس لیے تو پال پوس کر جواں نہیں کیا تھا کہ تم حکومت کے کاموں میں ہمارا بٹانے کی بجائے جنگلوں میں ڈنڈے بجاتے پھرو -"

بادشاہ کی ڈانت ڈپٹ سن کر شہزادہ عثمان نے سر جھکالیا، اس کی بے چارگی کو محسوس کر کے ملکہ بولی- "اس بالشت بھر کی لڑکی کی وجہ سے آپ میرے بیٹے کے پیچھے پڑ گئے ہیں-" پھر اس نے شہزادہ عثمان سے کہا- "بیٹے تم جاؤ، مہمان خانے میں تمھارے دوست تمہارا انتظار کر رہے ہیں، شہزادوں کا تو یہی کام ہے کہ گھومیں پھریں اور شکار کھیلیں-"

شہزادہ عثمان سر جھکا کر تیزی سے باہر نکل گیا- بادشاہ نے کہا- "اس لڑکے کو بگاڑنے میں سب سے زیادہ تمہارا ہاتھ ہے، ہمارا کیا ہے، اتنی عمر کٹ گئی ہے، بقیہ بھی گزر جائے گی- وہ خود ہی پچھتائے گا اور تم بھی سر پکڑ کر رو گی-"

پھر بھی آپ کو ڈانت ڈپٹ میں کچھ تو خیال رکھنا ہی چاہئیے- جوان لڑکا ہے اس کا ذہن باغی بھی ہوسکتا ہے اور پھر یہ عمر تو ایسی ہی ہوتی ہے کہ انسان ذمہ داریوں کو قبول کرنے سے گھبراتا ہے- اس کی شادی ہوجائے گی تو سب ٹھیک ہو جائے گا-" ملکہ نے بادشاہ کو سمجھاتے ہوۓ کہا-

"تم ایک ماں ہو کر سوچتی ہو اور ہم باپ بن کر- ہم سچ کہتے ہیں کہ اگر ہمیں شاہی دستور کا پاس نہ ہوتا تو ہم عثمان کی حرکتوں پر اسے روزانہ صبح بستر سے اٹھ کر اور رات کو سونے سے پہلے بلا ناغہ مار لگاتے، مگر ہماری بدقسمتی اور عثمان کی خوش قسمتی ہے کہ دستور میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ شہزادوں کی پٹائی نہیں لگائی جا سکتی چاہے مارنے والا ان کا باپ ہی کیوں نہ ہو-"

"اگر آپ کی سختیوں کا یہ ہی عالم رہا تو مجھے یقین ہے کہ عثمان محل چھوڑ کر کہیں چلا جائے گا- اس دن مجھ سے کہہ رہا تھا جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے ابّا حضور نے کبھی مجھ سے سیدھے منہ بات نہیں کی-" ملکہ نے خشک لہجے میں کہا-

"اچھا تو اس نالائق کو ہمارا منہ بھی ٹیڑھا لگتا ہے- آ لینے دو آج اسے-" بادشاہ گرم ہو کر بولا- "ہم اچھی طرح اس کی خبر لیں گے- سمجھ کیا رکھا ہے اس نے ہمیں-"

شہزادی ثریا نے اب رونا بند کر دیا تھا اور خاموشی سے ان کی گفتگو سن رہی تھی- بادشاہ کی بات سنکر ملکہ نے بڑے غصے سے کہا- "اگر آپ کو عثمان سے اتنی ہی نفرت ہے تو میں آج ہی اس سے کہہ دوں گی کہ وہ یہاں سے چلا جائے- اس روز کی دانتا کل کل سے تو نجات مل جائے گی-" یہ کہتے ہوۓ ملکہ کی آواز بھرا گئی اور اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے- بادشاہ چند لمحے تک تو ملکہ کو دیکھتا رہا پھر نرمی سے بولا- "پیاری ملکہ ہم اس گدھے کے دشمن تو نہیں ہیں- وہ لاپرواہ طبیعت کا لڑکا ہے- ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہماری ڈانٹ ڈپٹ سے سبق حاصل کرے، اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے، ہم اتنی بڑی حکومت اسے سونپنا چاہتے ہیں، تلوار اور خنجر چلانا مشکل بات نہیں مگر حکومت چلانا یقیناً مشکل بات ہے- اب تم ہی بتاؤ ہم یہ سب کچھ اس کے حق میں برا کر رہے ہیں یا بھلا؟"

ملکہ نے جھٹ آنسو پونچھ لیے اور مسکراتے ہوۓ بولی- "یہ سب کچھ آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا تھا- عثمان شکار سے لوٹ کر آے گا تو میں بھی اسے سمجھاؤں گی- میری بات وہ ہمیشہ مان جاتا ہے-"

ملکہ کی بات سن کر بادشاہ بھی مسکرانے لگا- اسے یقین تھا کہ اب شہزادہ عثمان ضرور حکومت کے کاموں میں دلچسپی لینے لگے گا- ملکہ بھی مسکرا رہی تھی اور بادشاہ بھی- مگر شہزادی ثریا منہ بناے کھڑی تھی- اسے اس بات کا بے حد ملال تھا کہ شہزادہ عثمان اسے اپنے ساتھ جنگل شکار کھیلنے کے لیے نہیں لے گیا تھا-
____________

جنگل میں شہزادہ عثمان کے دوستوں کے قہقہے گونج رہے تھے- وہ لوگ دوپہر کے کھانے سے فارغ ہو کر اب دریا کے شفاف پانی میں نہا رہے تھے- وہ ایک دوسرے پر پانی کے چھینٹے اڑاتے اور پھر زور زور سے قہقہے لگانے لگتے-

شہزادہ عثمان کنارے پر بیٹھا ان کی حرکتوں سے لطف اندوز ہور رہا تھا- جی تو اس کا بھی چاہ رہا تھا کہ خود بھی دریا میں کود کر خوب مزے سے نہاے مگر ملکہ نے اسے تنبیہہ کر رکھی تھی کہ وہ دریا وغیرہ میں کبھی بھی نہانے کی کوشش نہ کرے کیوں کیونکہ ایسے مواقع پر دوستوں کی شرارتوں کے سبب جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جاتے ہیں-

وہ لوگ شکار سے اکتا گئے تھے- دوپہر کے کھانے کے بعد وہ لوگ دریا کے کنارے آن بیٹھے تھے- پھر تجویز یہ ٹھہری کہ نہایا جائے- شہزادہ عثمان نے اس تجویز کی مخالفت کی اور اپنے دوستوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ حمام سے بہتر نہانے کی کوئی اور جگہ نہیں ہوتی کیونکہ وہاں ڈوبنے کا کوئی خطرہ بھی نہیں ہوتا ہے- خدانخواستہ وہاں پر پاؤں بھی پھسل جائے تو انسان کہیں جاتا نہیں ہے، وہیں فرش پر پڑا رہتا ہے، مگر دریا میں پاؤں پھسل جائے تو پھر انسان اس کی تہہ میں ہی جا کر رکتا ہے- مگر شہزادہ عثمان کی باتوں کو اس کے دوستوں نے ہنسی میں اڑا دیا اور پھر وہ سب کے سب دریا میں کود گئے- شہزادہ عثمان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ کنارے پر بیٹھ کر انھیں تکتا رہے-

تھوڑی دیر بعد اس کے دوست تیرتے ہوۓ دور نکل گئے اور شہزادہ عثمان وہاں پر تنہا رہ گیا- اس کی سوچ کا دھارا یکایک اپنے محل کی طرف مڑ گیا- اسے اپنے باپ کی باتیں ایک ایک کر کے یاد آنے لگیں- اس نے جب ان باتوں پر ٹھنڈے دل سے غور کیا تو اسے محسوس ہوا کہ وہ غلطی پر تھا- ماں باپ اپنے بچوں کی پرورش اس لیے کرتے ہیں کہ جب وہ بوڑھے ہو جائیں تو ان کی اولاد ان کا سہارا بنے- شہزادہ عثمان کو خود سے شرم آنے لگی- وہ بائیس سال کا ہوچکا تھا- اگر وہ چاہتا تو حکومت کے انتظامی معاملات میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹا سکتا تھا- اس کے باپ نے صحیح معنوں میں اپنی رعایا کی خدمت کی تھی- رعایا کی بھلائی اور بہتری کی خاطر نہ اس نے دن دیکھا تھا نہ رات، مسلسل کام کی زیادتی یقیناً صحت پر برا اثر ڈالتی ہے- اس کا باپ وقت سے پہلے ہی بوڑھا ہونے لگا تھا- شہزادہ عثمان نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اب یہاں سے سیدھا گھر جائے گا- سب سے پہلے اپنے باپ سے اپنے گزشتہ رویے اور لا پرواہیوں کی معافی مانگے گا اور پھر دل و جان سے حکومت کے کاموں میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹائے گا- ابھی وہ اپنی انہی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک اس کی نظر سامنے والی جھاڑیوں پر پڑی- وہ چونک پڑا- جھاڑیوں میں سے ایک خرگوش نکلا تھا- وہ جسامت میں تو عام خرگوشوں ہی جتنا تھا مگر اس کے جسم پر سات رنگ کی دھاریاں پڑی تھیں اور گھپے دار دم بے حد خوبصورت تھی- اس خرگوش کی آنکھیں سبز تھیں اور وہ بے حد خوبصورت دکھائی دے رہا تھا-

شہزادہ عثمان کی نظروں میں اس کی چھوٹی بہن شہزادی ثریا کا چہرہ گھوم گیا- اسے احساس تھا کی وہ اس سے بے حد ناراض ہوگی کیونکہ وہ اسے اپنے ساتھ جنگل نہیں لایا تھا- شہزادہ عثمان نے سوچا کہ اگر وہ اس عجیب و غریب خرگوش کو پکڑ کر محل لے جائے اور اسے ثریا کو دے دے تو اس کی ناراضگی ختم ہو سکتی ہے- یہ سوچ کر وہ اٹھا اور بڑی احتیاط سے خرگوش کی طرف بڑھنے لگا- خرگوش نے اسے اپنی طرف آتے دیکھ لیا تھا- اس لیے وہ شہزادہ عثمان کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی بھاگ گیا اور کچھ دور جا کر پھر رک گیا- شہزادہ عثمان چاہتا تو تیر کی مدد سے اسے زخمی کر کے بھی پکڑ سکتا تھا- مگر وہ اتنے خوبصورت خرگوش کو صیحح سلامت ہی پکڑنا چاہتا تھا-

وہ خرگوش بے حد چالاک تھا- جب وہ یہ دیکھتا کہ شہزادہ اس کے قریب آن پہنچا ہے تو زقند بھر کر اپنے اور شہزادہ عثمان کے درمیان پھر فاصلہ پیدا کرلیتا- آخر یہ بھاگ دوڑ کافی دیر تک جاری رہی- خرگوش تو ہاتھ آیا نہیں مگر شام ضرور سر پر آگئی- اس عجیب و غریب خرگوش کے پیچھے بھاگتے ہوۓ شہزادہ عثمان کو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا تھا- اب جو اس نے دیکھا کہ رات ہونے والی ہے تو وہ بے حد گھبرایا- خرگوش کے پیچھے بھاگتے بھاگتے وہ کافی دور نکل آیا تھا اور چونکہ اس کا دھیان خرگوش پکڑنے میں ہی لگا ہوا تھا، اسلئے وہ راستے کا بھی خیال نہیں رکھ سکا تھا- وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہونے لگا کہ اب وہ محل کس طرح پہنچے گا- اس کی گمشدگی سے اس کے دوست یقیناً گھبرا گئے ہونگے- غرض کہ یہ ہی کچھ سوچتے سوچتے وہ آگے بڑھا- رنگین دھاریدار خرگوش جانے کہاں جھاڑیوں میں روپوش ہوگیا تھا اور شہزادہ عثمان اس گھڑی کو کوس رہا تھا جب اس کی نظر اس منحوس خرگوش پر پڑی تھی اور اسے پکڑنے کی خواہش اس کے دل میں پیدا ہوئی تھی-

بھاگ دوڑ کرنے کی وجہ سے اب اسے بھوک کا بھی احساس ہونے لگا تھا- وہ بے بسی سے اپنے چاروں طرف دیکھنے لگا- اور پھر اچانک ہی اس کی نظریں ایک جگہ پر ٹہر گئیں- درختوں کے جھنڈ میں اسے ایک نہایت عالیشان محل کی جھلک نظر آئ تھی- وہ محل کی طرف جانے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ اچانک ایک درخت کے پیچھے سے وہ ہی دھاری دار خرگوش برامد ہوا اور شہزادہ عثمان کے پاس آکر بولا- "جناب شہزادے صاحب میری مالکن حسن آرا آپ کو یاد فرما رہی ہیں-"

شہزادہ عثمان خرگوش کو دیکھتے ہی آگ بگولا ہوگیا تھا مگر اسے انسانوں کی طرح گفتگو کرتا دیکھ کر اس کا غصّہ حیرت میں تبدیل ہوگیا- اس نے حیرانی سے پوچھا- "میں تو تمہیں ایک بدمعاش خرگوش سمجھ رہا تھا کیونکہ تم ہی مجھے اس مصبیت میں پھنسانے کے ذمہ دار ہو مگر اب تمہیں انسانوں کی طرح بولتا دیکھ کر بے حد حیران ہوں- یہ کیا ماجرا ہے، میں تمہیں کیا سمجھوں؟"

"آپ مجھے کچھ بھی سمجھیں میری صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا- میں اپنی بات پھر دوہراتا ہوں کہ آپ کو حسن آرا یاد فرما رہی ہیں- میرے پیچھے پیچھے چلے آئیے-"

شہزادہ سمجھ گیا کہ یہ سب جادو کا چکّر ہے- یہ خرگوش ضرور کوئی انسان ہے اور کسی جادوگر نے اسے خرگوش بنا دیا ہے اور حسن آرا یقیناً کوئی حسین سی شہزادی ہوگی جو جادوگر کی قید میں ہوگی- اس نے کسی سے سن رکھا تھا کہ جادوگر انسانوں کے سر میں جادو کی کیل گاڑ کر انھیں جانور اور پرندے بنا دیتے ہیں- اس نے آگے بڑھ کر جھپٹ کر خرگوش کو پکڑ لیا اور اس کے سر کو ٹٹول کر جادو کی کیل ڈھونڈنے کی کوشش کرنے لگا- خرگوش پہلے تو شہزادہ عثمان کی اس حرکت پر سٹپٹایا پھر برا مان کر بولا- "آپ ہزار کوشش کرلیں میرے سر میں آپ کو ایک جوں بھی نہیں ملے گی"- اس کی بات سن کر شہزادہ عثمان جھلا گیا- غصے میں بھر کر بولا- "تم سخت نامعقول خرگوش ہو-"

پھر اس نے خرگوش کو چھوڑ دیا اور بڑبڑاتے ہوۓ اس کے پیچھے چل دیا- محل کے نزدیک پہنچا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں- محل بہت خوبصورت تھا- اس کی دیواروں سے روشنی کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں- وہ دونوں جیسے ہی صدر دوازے سے گزرے، شہزادہ عثمان پر پھولوں کی بارش ہونے لگی- شہزادہ عثمان بے حد حیران تھا- تھوڑی دیر بعد خرگوش اسے ایک کمرے میں لے آیا- کمرہ قیمتی سامان سے آراستہ تھا اور وہاں پر ایک بہت ہی موٹی اور بد صورت عورت بیٹھی ہوئی تھی- شہزادہ عثمان کو دیکھ کر وہ خوشی سے کِھل اْٹھی-

"آؤ شہزادے عثمان- خوش آمدید-" اس موٹی اور بد صورت عورت نے کہا-

"ارے تم تو میرا نام بھی جانتی ہو شہزادی حسن آرا کی خادمہ-" شہزادہ عثمان نے حیرت سے کہا- اس کی بات سن کر وہ عورت ناگواری سے بولی- "کیسی شہزادی اور کہاں کی خادمہ- حسن آرا تو میرا ہی نام ہے- میں نے ہی یہ عجیب و غریب خرگوش تمہارے پاس بھیجا تھا تاکہ تم اس کے پیچھے پیچھے میرے محل تک آجاؤ-"

شہزادہ عثمان شرمسار سا ہو کر بولا- "معاف کرنا خالہ مجھے غلط فہمی ہو گئی تھی-"

حسن آرا بھنا کر بولی- "یہ تم نے خالہ والا کی کیا رٹ لگا رکھی ہے- میں نے تمہیں اس لیے یہاں بلایا ہے تاکہ تم سے شادی کر سکوں-"

"شادی؟" شہزادہ عثمان نے چلّا کر کہا- " بھلا تم نے یہ کیسے سمجھ لیا تھا کہ میں تم جیسی منحوس شکل کی جادوگرنی سے شادی کرنے پر راضی ہو جاؤں گا؟"

"تمہارا تو باپ بھی راضی ہوگا-" موٹی اور بدصورت جادوگرنی حسن آرا غصے سے دھاڑ کر بولی- اس کی آنکھیں شعلے برسانے لگی تھیں- کیونکہ شہزادہ عثمان کی باتوں نے اسے سخت ناراض کر دیا تھا-

"ہاں یہ ٹھیک ہے، ابّا حضور شائد راضی ہو جائیں جا کر انھیں یہاں بھیج دیتا ہوں-" شہزادہ عثمان نے بڑے اطمینان سے کہا اور دروازے کی طرف بڑھا- جادوگرنی نے جلدی سے کوئی جادو پڑھ کر اس کی طرف پھونک ماری اور شہزادہ عثمان آدھا پتھر کا بن گیا-

حسن آرا جادوگرنی قہقہہ لگا کر بولی- "تم اس وقت تک پتھر کے بنے رہو گے جب تک مجھ سے شادی پر رضامند نہ ہو جاؤ- میں نے اپنی بڑی بہن سے کہا تھا کہ میں دنیا کے سب سے زیادہ خوبصورت شہزادے سے شادی کر کے دکھاؤں گی، میری بہن شکل و صورت میں میں مجھ سے کچھ بہتر ہے اور وہ ہر وقت میرا مذاق اڑاتی رہتی ہے- میں تم سے شادی کرکے اسے نیچا دکھانے کی کوشش کروں گی- میں نے بڑی مشکلوں سے تمہارا پتہ لگایا تھا مگر اب تم ہی کہتے ہو کہ تم مجھ سے شادی نہیں کرسکتے-"

شہزادہ عثمان نفرت بھرے لہجے میں بولا- "دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے مگر میں اپنی بات پر اڑا رہونگا-"

"میں بھی دیکھوں گی کہ تم میں یہ دم خم کب تک باقی رہے گا- دو ہی دن بعد تم میرے سامنے گڑگڑانے لگو گے-" حسن آرا جادوگرنی ہنس کر بولی اور کمرے سے چلی گئی-

خرگوش ابھی تک کمرے میں موجود تھا- اسے دیکھ کر شہزادہ عثمان نے غصے سے کہا- "تم سے بڑا گدھا آج تک میری نظروں سے نہیں گزرا ہے- تم نے ہی مجھے اس مصیبت میں پھنسایا ہے-"

خرگوش کی آنکھوں میں آنسو آگئے- اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا- "شہزادہ عثمان تم نے مجھے گدھا کہہ کر مجھے میرا ماضی یاد دلا دیا ہے-"

"اچھا تو کیا تم پہلے گدھے تھے؟" شہزادہ عثمان نے حیرت سے پلکیں جھپکا کر کہا-

"خیر یہ بات تو نہیں ہے، سچ مچ کا گدھا تو الله کسی دشمن کو بھی نہ بنا ے- بات دراصل یہ ہے کہ آج سے دو ماہ پہلے میں ایک لڑکا ہی تھا- میری ماں کا انتقال بچپن ہی میں ہو گیا تھا- میرے ابّا کی شہر میں دوائیوں کی دوکان تھی- روزانہ سینکڑوں مریض ان کے پاس دوائی لینے کی غرض سے آتے تھے- میں اپنے ابّا کا ہاتھ بٹانے کے لیے دکان پر ہی بیٹھتا تھا- میں نسخہ دیکھ کر دوائیاں بنانا بھی سیکھ گیا تھا- ایک روز میرے ہاتھوں سے ایک شیشے کا مرتبان جس میں غالباً سیب کا مربہ تھا، چھوٹ کر زمین پر گر پڑا اور ٹوٹ گیا- والد صاحب قریب ہی بیٹھے تھے- پہلے تو مجھے خشمگیں نظروں سے دیکھا اور پھر نہایت سخت لہجے میں بولے- "گدھا کہیں کا-"

گدھے کے بارے میں میری رائے شروع ہی سے اچھی نہیں ہے- لہٰذا ابّا جان کے منہ سے اپنے لیے گدھے کا لفظ سن کر میرا دل غم سے اور آنکھیں آنسووں سے بھر گئیں- میں اسی وقت دکان سےاٹھا اور سسکیاں بھرتے ہوۓ ایک طرف کو چل دیا- چلتے چلتے اس جنگل میں پہنچ گیا- بھوک کے مارے میرا دم نکلا جا رہا تھا- قریب تھا کہ میں چکرا کر گر پڑتا کہ میری نظر اس محل پر پڑی- میرے بے جان قدموں میں جانے کہاں سے اتنی طاقت آ گئی کہ میں اس محل کی طرف تیزی سے بھاگنے لگا- وہیں میری ملاقات اس جادوگرنی سے ہوگئی- قصہ مختصر یہ کہ مجھے حسن آرا جادوگرنی نے کھانا دیا- مگر یہ بہت مکّار عورت ہے- کھانے کے بعد اس نے مجھے سلا دیا- صبح جب میری آنکھ کھلی تو میں خرگوش بنا بستر پر انگڑائیاں لے رہا تھا- وہ دن اور آج کا دن میں اب اسی جادوگرنی کے پاس رہ رہا ہوں- میں ہر وقت اس کی خدمت میں لگا رہتا ہوں تاکہ وہ خوش ہو کر مجھے پھر سے لڑکا بنا دے-"

اپنی کہانی سنا کر خرگوش خاموش ہوگیا- شہزادہ عثمان کچھ سوچنے لگا- پھر اس نے کہا- "اب کوئی ایسی تجویز نکالو کہ اس جادوگرنی کے چنگل سے نجات ملے-"

"میں تو اس حرافہ پر بہت سارے حربے آزما چکا ہوں- چونکہ مجھے تمام جڑی بوٹیوں سے واقفیت ہے، میں نے جنگل سے زہریلی سے زہریلی جڑی بوٹیاں مختلف کھانوں میں ملا کر اسے کھلا دی ہیں مگر اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا-"

"یہ تو خیر میں نے بھی بچپن میں کہانیوں میں سنا تھا کہ جادوگر اور جادوگرنیاں اپنی جان کسی چیز میں بند کر کے رکھتی ہیں، تاکہ انھیں کوئی مار نہ سکے- تم ہی اس کا پتہ چلاؤ کہ اس کی جان کس چیز میں بند ہے-" شہزادہ عثمان خرگوش سے بولا-

"میں نے تو بہت کوشش کر ڈالی ہیں مگر سواے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں لگا-" خرگوش نے بڑی اداسی سے کہا- شہزادہ عثمان کا چہرہ بجھ سا گیا- "تو کیا پھر ہم ساری زندگی اس منحوس جادوگرنی کے پاس گزار دیں گے؟" اس نے کہا-

"میں تو خود تمھاری طرح بے بس ہوں-" خرگوش نے بے چارگی سے جواب دیا-

"میرے اچانک غائب ہوجانے سے محل میں کہرام مچ گیا ہوگا- میری امی حضور اور ابّا حضور کو کیا پتہ کہ میں یہاں کس مصیبت میں گرفتار ہوں- ابّا حضور تو خیر یہ ہی سمجھ رہے ہوں گے کہ میں کہیں گھومنے پھرنے نکل گیا ہوں اس لیے وہ پریشان کم اور ناراض زیادہ ہو رہے ہونگے مگر میری امی حضور کا دل بہت چھوٹا ہے- انھیں تو ہول پر ہول آ رہے ہوں گے- اور میری چھوٹی بہن ثریا نے تو رو رو کر آنکھیں سجا لی ہونگی- حالانکہ وہ مجھ سے روٹھ گئی تھی مگر میں جانتا ہوں کہ وہ مجھ سے کس قدر محبّت کرتی ہے-"

"میں تمھاری اتنی مدد تو کرسکتا ہوں کہ محل جا کر اس حادثے کی خبر تمھارے گھر والوں کو دے دوں-" خرگوش جو کہ اصل میں ایک لڑکا تھا اور جس کا نام فرید تھا، شہزادہ عثمان سے بولا-

شہزادہ عثمان کے چہرے پر سوچ کی لکیریں ابھر آئیں- اس نے تھوڑی دیر بعد کہا- "نہیں بھئی یہ مناسب نہیں ہوگا کہ میری اس مصیبت کا حال میری امی حضور اور ابّا حضور کو پتہ چلے- تم اتنی مہربانی کرو کہ یہ سب واقعات میری بہن ثریا کو بتا دو- اس سے یہ بھی کہہ دینا کہ وہ میرے دوست احسن کے پاس جائے اور اسے میری مدد کے لیے آمادہ کرے-"

فرید نے اپنا ننھا منا سر ہلا کر اس بات پر رضامندی کا اظہار کر دیا- تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ان کے کانوں میں جادوگرنی کے قدموں کی چاپ سنائ دی- خرگوش فرید بھاگ کر مسہری کے نیچے گھس کر سوتا بن گیا تاکہ حسن آرا جادوگرنی ان پر شک نہ کر سکے کہ وہ اس کے خلاف کوئی سازش کر رہے ہیں-

حسن آرا جادوگرنی کمرے میں داخل ہوئی، اس نے کمرے میں ادھر ادھر نظر دوڑائی- خرگوش فرید کی تھوڑی سی دم نظر آ رہی تھی- جادوگرنی نے اس کی دم پکڑ کر اسے باہر گھسیٹ لیا اور اس سے بولی- "بس- تم نے بہت عیش کر لیے- میری بڑی بہن جو کہ پرستان میں رہائش پذیر ہے- کل اس کے چھوٹے بچے کی سالگرہ منائی جا رہی ہے- میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تم جیسا عجیب و غریب خرگوش اپنے بھانجے کو تحفے میں دوں- میری بہن کی خادمہ مجھے سالگرہ کی دعوت دینے آئ ہے"-

یہ کہہ کر حسن آرا جادوگرنی نے فرید کو اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیا اور کمرے سے باہر نکل گئی- فرید کے یوں یکا یک جانے سے شہزادہ عثمان پریشان ہو گیا- اب ساری زندگی کسی کو پتا نہیں چل سکتا تھا کہ وہ کہاں ہے-

(اس کہانی کا بقیہ حصہ دوسری قسط میں پڑھیے)

Browse More Moral Stories