Tabdele Agaia - Article No. 1318

Tabdele Agaia

تبدیلی آگئی - تحریر نمبر 1318

عمیراور حمزہ دونوں بھائی بہت شریر تھے ۔اسکول سے لے کر محلے تک ہر جگہ سے ان کی شکایتیں آتی رہتی تھیں۔والدین اور اساتذہ سے ڈانٹ کھانے کے باوجود وہ آئے دن نِت نئی شرارتوں کی ترکیبیں سوچنے لگتے

جمعرات 14 مارچ 2019

تمثیلہ زاہد
عمیراور حمزہ دونوں بھائی بہت شریر تھے ۔اسکول سے لے کر محلے تک ہر جگہ سے ان کی شکایتیں آتی رہتی تھیں۔والدین اور اساتذہ سے ڈانٹ کھانے کے باوجود وہ آئے دن نِت نئی شرارتوں کی ترکیبیں سوچنے لگتے ۔آج بھی یہ دونوں کوئی نئی شرارت کرنا چاہ رہے تھے۔دو پہر کو کھانے کے بعد ہر طرف سناٹا تھا۔چند گھر چھوڑ کر ایک گھر میں پچھلے ماہ نئے کرائے دار آئے تھے ۔

ان کے گھر میں جامن کا ایک درخت بھی تھا،جس میں پکے ہوئے جامن لگے ہوئے تھے۔
دونوں نے اردگرد کا جائزہ لیا۔گھر کے باہر محمود صدیقی کا نام لکھا ہوا تھا۔حمزہ کی نظر جامن کے پیڑ پر تھی۔جامن کے گچھے دیوار سے باہر تک نظر آرہے تھے ۔وہ للچائی نظر سے جامن کے اس اونچے درخت پر چڑھنے کی ترکیب سوچ رہے تھے ۔حمزہ نے عمیر سے کہا:”تمھارا قد لمبا ہے ۔

(جاری ہے)

تم درخت پر چڑھ جانا اور میں قریب کھڑا ہو کر نظر رکھوں گا۔“
”ٹھیک ہے ۔“عمیر نے سر ہلایا اور پھر دیوار سے ہوتا ہو ا درخت پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا،جس میں وہ کامیاب بھی ہو گیا۔
اب انھوں نے سکون سے اپنا کام شروع کیا۔باغ میں جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے برقی قمقمے بھی لگے ہوئے تھے۔آس پاس کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔عمیر نے پتھروں کی تھیلی نکال کر جامن کے ایک گچھے کا نشانہ لیا،پتھر جامن کے ایک حصے کو چھو کر گزر گیا اور کچھ پتے اِدھر اُدھر گرگئے۔
اب کی بار عمیر نے پوری قوت سے جامن کے گچھے کی طرف پتھر پھینکا ،لیکن پتھر جامن کے گچھے کولگنے کے بجائے برقی قمقمے پر لگا۔
شیشہ ٹوٹنے کی آوا زسے دونوں گھبرا گئے۔شیشے کے ٹکڑے دروازے کے آگے سیڑھیوں پر بکھر گئے ۔اسی وقت چھے سات سال کی ایک بچی دروازہ کھول کر باہر نکلی۔اس کا پیر شیشے کے ٹکڑے پر پڑا تو وہ ہڑ بڑا کر مڑی اور سیڑھیوں پر ہی گر گئی۔

یہ دیکھ کر دونوں دیوار سے اُتر کر گھر کی طرف دوڑے ۔گھر والے اب بھی گہری نیند میں ڈوبے ہوئے تھے ۔دونوں خوف کے مارے کمرے میں دبک کر لیٹ گئے ۔بھاگ کر آتے ہوئے ان دونوں کو کسی نے نہیں دیکھا تھا۔شام کو صحن میں حسب معمول چائے پینے کے لیے سب جمع تھے۔ابو اخبار کھولے چائے کی سسکیاں لے رہے تھے کہ پڑوس سے چچا عنایت آگئے۔
”بھئی آپ کو کچھ خبر ہے،محمود صاحب کی بیٹی شدید زخمی ہو گئی ہے اور اسپتال میں ہے ۔
میں اسی طرف جارہا ہوں ۔آپ چاہیں تو میرے ساتھ چلیے۔“
”خیریت ہے؟کیا ہوا بچی کو ؟“ابو نے پریشانی سے پوچھا اور اخبار لپیٹ کر رکھ دیا۔
”دوپہر کو نہ جانے کیسے محمود صاحب کے باغ کا برقی قمقمہ ٹوٹ گیا۔بچی کانچ کے ٹکڑوں سے پھسل کر اچانک گر گئی۔“
ابو،عنایت انکل کے ساتھ اسپتال چلے گئے۔امی جان اور دادی جان اسی بچی کے متعلق افسوس کے ساتھ باتیں کرنے لگیں ۔
عمیر اور حمزہ نے شرمندگی سے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔ابو نے رات کو کھانے پر بتایا کہ بچی گھر آچکی ہے اور گہری چوٹوں سے محفوظ ہے ۔دونوں نے سن کر دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا۔
اگلے دن دونوں محمود انکل کے گھر پہنچے اور انھیں سب کچھ سچ سچ بتا دیا۔انکل نے ان دونوں کے سر ندامت سے جھکے دیکھ کر ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:”تمھاری غلط حرکت پر غصے سے زیادہ تمھاری ندامت پر مجھے خوشی ہوئی ہے ۔
جو ہوا سو ہوا ۔“
انکل کے شفقت بھرے لہجے سے دونوں کے دل میں آئندہ شرارت نہ کرنے کا ارادہ پختہ ہو گیا۔دونوں نے ایک بار پھر انکل سے معذرت کی اور امی ابو کونہ بتانے کا بھی وعدہ لیا۔انکل نے بہ خوشی وعدہ کیا۔وہ مسکراتے ہوئے بولے:”آیندہ جامن کھانے ہوں تو دیوار سے نہیں ،دروازے سے گھر آنا۔“
سب ہی حیران تھے کہ اب دونوں کا شمار با ادب اور مہذب بچوں میں ہونے لگا۔ہر کسی کی خدمت کے لیے یہ دونوں سب سے آگے ہوتے ۔عمیر اور حمزہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ تبدیلی کیسے آئی۔

Browse More Moral Stories