Motapa - Article No. 2667

Motapa

موٹاپا - تحریر نمبر 2667

کہتے ہیں موٹا ورزش نہیں کرتا حالانکہ اس کا تو ہر کام ورزش ہوتا ہے۔جتنا وزن وہ اٹھتے بیٹھے اٹھائے ہوتا ہے کوئی اور اٹھا کر تو دکھائے

یونس بٹ ہفتہ 9 مارچ 2024

ڈاکٹر محمد یونس بٹ
موٹاپا سے مراد پاموٹا ہونا نہیں‘کیونکہ اس کا تعلق پاؤں کے وزن سے ہوتا تو پھر یہ محاورتاً خالص زنانہ صفت ہوتی‘حالانکہ یہ تو وہ صفت ہے جو مرد کو عورت سے علیحدہ نہیں کرتی‘پاس پاس کرتی ہے۔اسی لئے دو موٹے مرد عورت اتنے ہی فاصلے پر بیٹھے ہوں جتنے فاصلے پر پتلے مرد عورت بیٹھتے ہوں تو موٹے ایک دوسرے کے زیادہ پاس پاس ہوتے ہیں۔
پھر یہی وہ صفت ہے جو انسان کو جانور سے ممتاز کرتی ہے۔جانور موٹا نہیں ہو سکتا اور جو موٹا ہو سکتا ہے وہ جانور نہیں ہو سکتا‘کیونکہ جانور کو خدا نے یہ صلاحیت نہیں دی کہ اس کا پیٹ بھرا ہو تو پھر بھی کھا سکے۔ہاں یہ ہے کہ عورت ذرا مرد سے جلدی موٹی ہو جاتی ہے‘جس کا کریڈٹ بھی مرد کو جاتا ہے‘کیونکہ عورت تو مرد سے ہی بنی ہے اور مرد بے چارا مٹی سے۔

(جاری ہے)


موٹاپے میں مرد سیب لگنے لگتا ہے اور عورت ناشپاتی‘کیونکہ مرد کی کمر اس قدر مضبوط ہوتی ہے کہ سارے موٹاپے کا وزن کمر پر اٹھائے ہوتا ہے جبکہ عورت کمر سے لٹکائے ہوتی ہے۔
پتلے بہت سخت ہوتے ہیں‘جب کہ موٹے افسر اور خاوند ہی نہیں‘موٹی بیوی تک بہت نرم ہوتی ہے۔یقین نہ آئے تو چھو کر دیکھ لیں۔اسپینی کہاوت ہے عورت‘تربوز اور پنیر کو وزن سے منتخب کرنا چاہیے۔
وزن تو مصرعوں میں نہ ہو تو وہ شعر نہیں بنتے۔پتلا اور نحیف تو اردو ادب میں صرف عاشق ہی ملتا ہے۔اس کی حالت اس قدر پتلی ہوتی ہے کہ اس کی تو بات تک میں وزن نہیں ہوتا۔پھر عاشق کا یہ کہنا کہ مجھے ہر طرف محبوب ہی محبوب نظر آتا ہے دراصل محبوب کے موٹے ہونے کی تعریف کرنا ہی ہے۔اسی لئے تو عاشق کہتا ہے محبوب آ جائے تو لگتا ہے کل کائنات آ گئی اور وہ منہ موڑ جائے تو اسے لگتا ہے پوری دنیا منہ موڑ گئی ہے۔
کمزور اور پتلے محبوب کا عارض بھی عارضہ بلکہ عارضی لگتا ہے۔
کہتے ہیں موٹا تو کسی کے ساتھ بھاگ بھی نہیں سکتا۔اس لحاظ سے تو شادی ہمیشہ موٹی عورت سے ہی کرنا چاہیے اور تو اور جب تک عورت موٹی نہ ہو ہمارے ہاں تو وہ فلمی ہیروئن نہیں بن سکتی۔صرف موٹی ہیروئن ہی سر فخر سے بلند کر کے کہہ سکتی ہے کہ میں فلم انڈسٹری کی ”بڑی“ ہیروئن ہوں‘جو عورت پوری زندگی موٹی نہیں ہوئی وہ پوری عورت ہی نہیں ہوئی۔
جب تک وہ موٹی نہ ہو گی اس کے پاؤں تلے جنت نہ آئے گی۔
پتلا اپنے کپڑوں میں چھپ جاتا ہے اور موٹے کے جسم پر کپڑے چھپ جاتے ہیں‘کیونکہ موٹاپا تو خود لباس ہے شاید اسی لئے عورتیں سلم ہونے میں لگی رہتی ہیں۔پتلا ہونے سے تو بے پردگی ہوتی ہے‘جسم کا ہر حصہ یوں ظاہر ہو جاتا ہے کہ بچہ تک پسلیوں پر گنتی سیکھ سکتا ہے۔مہاتما بدھ کہتا ہے دنیا دکھوں کا گھر ہے۔
اس کی کیا وجہ ہے‘مہاتما بدھ کی تصویر دیکھ لو تو لگتا ہے اس کی وجہ اس کا موٹا نہ ہونا تھا۔
خوبصورت وہ نہیں ہوتا جسے آپ توجہ دیتے ہیں بلکہ وہ ہوتا ہے جو آپ کو متوجہ کرتا ہے اور موٹا کسے متوجہ نہیں کرتا؟اسے تو دور سے دیکھو تو پاس نظر آتا ہے اور پتلا اگر زیادہ سے زیادہ کسی کو متوجہ کر سکتا ہے تو وہ یقینا ڈاکٹر ہو گا۔
”ف“ کہتا ہے ”جو موٹا ہوتا ہے اسے فکر رہتی ہے“ حالانکہ جسے فکر رہتی ہے وہ موٹا ہو ہی نہیں سکتا۔
پندرہ سولہ سالوں میں جا کر کہیں بندہ جوان ہوتا ہے مگر دنوں میں بوڑھا ہو جاتا ہے۔ایسے ہی موٹا ہونے کے لئے کئی سال چاہئیں پتلا تو بندہ دنوں میں ہو جاتا ہے۔ہر شہر میں موٹاپے کی اہمیت بتانے کے لئے سلمنگ سینٹرز موجود ہیں۔”ف“ کہتا ہے ”یہ تو موٹاپا ختم کرنے کے لئے ہیں“ بالکل غلط‘اگر موٹاپا ختم ہوا تو سب سے پہلے یہ سلمنگ سینٹرز ختم ہوں گے۔

کہتے ہیں جو موٹے ہوتے ہیں وہ زیادہ کھاتے ہیں‘حالانکہ جو زیادہ کھاتے ہیں وہ موٹے ہوتے ہیں۔موٹاپا مسئلے پیدا نہیں کرتا بلکہ کئی مسائل کا حل ہے۔بے روزگاری کا مسئلہ موٹاپے نے بڑی حد تک حل کر دیا ہے۔بازاروں میں بیشتر دکانیں لوگوں کو کھلا کھلا کر موٹا کرنے کے لئے اور باقی سمارٹ بنانے کے لئے ہیں۔”ف“ کہتا ہے”موٹا جلد ڈر جاتا ہے‘کل ہی تمہارے سامنے خواجہ صاحب قرض خواہ سے ڈر کر کرسی کے پیچھے چھپ گئے تھے۔
“حالانکہ وہ بالکل غلط کہتا ہے خواجہ صاحب کرسی کے پیچھے کہاں چھپے تھے‘کرسی ان کے آگے چھپی ہوئی تھی۔
کہتے ہیں موٹا ورزش نہیں کرتا حالانکہ اس کا تو ہر کام ورزش ہوتا ہے۔جتنا وزن وہ اٹھتے بیٹھے اٹھائے ہوتا ہے کوئی اور اٹھا کر تو دکھائے۔اس کی تو شلوار کا گھیرا اتنا ہوتا ہے کہ پیدل آدمی اس میں آزار بند نہیں ڈال سکتا۔”ف“ کی بچپن میں صحت ایسی تھی کہ اس کے ساتھ والے مکان میں ڈاکٹر نے کلینک بنا لیا تھا۔
اب اپنے باپ کی طرح بہت کھاتا ہے۔کہتا ہے یہ میں موٹا ہونے کے لئے نہیں کرتا‘بلکہ اس لئے کھاتا ہوں کہ سر اٹھا کر کہہ سکوں کہ میں بڑے کھاتے پیتے گھرانے کا فرد ہوں۔سنا ہے موٹا صرف اپنا پیٹ بھرنے میں لگا رہتا ہے‘جو غلط ہے۔وہ اتنا اپنا پیٹ نہیں بھرتا جتنا ڈاکٹر کے بیوی بچوں کا بھرتا ہے۔
موٹاپا کسی قوم کے عروج کو ظاہر کرتا ہے۔موٹاپا ختم کرنا دراصل اس سے اقتدار اور آرام و آسائش چھین کر اسے مزدوری پر لگانا ہے کیونکہ جہاں آرام ہو گا وہاں موٹاپا ہو گا۔
یوں کسی ملک کے باشندوں کے آرام و آسائش کا اندازہ لگانا ہو تو وہاں کے موٹوں کی تعداد معلوم کریں۔یہی نہیں جس کا اپنا گھر نہ ہو‘وہ کبھی موٹا نہیں ہو سکتا۔اسی لئے آپ نے کبھی بنجاروں کے کسی فرد کو موٹا نہ دیکھا ہو گا۔
جو مولوی اور تھانیدار موٹا نہ ہو‘سمجھ لیں اسے اپنے پیشے میں دلچسپی نہیں۔تھانیدار جس سے کھاتے ہیں اس کے کھاتے صاف رکھتے ہیں‘جبکہ دو ملاؤں میں مرغی حرام اور دو مرغوں میں مرغی حلال ہو جاتی ہے۔
مرغ میں ملا میں گہرا رشتہ ہے کہ دونوں اذان دیتے ہیں اور مرغی پسند کرتے ہیں۔
تیس سال کے بعد ہر دوسری عورت موٹی ہو جاتی ہے پہلی عورت تو پہلے ہی موٹی ہوتی ہے۔پچاس سال کے بعد تمام عورتیں موٹی ہوتی ہیں جس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پچاس سال کی ہوتی ہی وہ ہیں جو موٹی ہوتی ہیں۔
سنا ہے موٹے بے حساب کھاتے ہیں‘حالانکہ وہی تو کھانے کا حساب رکھتے ہیں‘ناپ تول کر نہ کھائیں گے تو کھا کر ناپ تول لیں گے۔
کھانا کھانا تو جادو کا عمل ہے۔میں نے خود مٹھائی اور کھٹائی کے ڈھیر کو عورت کا روپ دھارتے ہوئے دیکھا ہے۔لیکن موٹاپے کا کھانے سے کم ہی تعلق ہے کیونکہ موٹے تو افریقہ کے وہ قبائل بھی نہیں ہوتے جن کے لئے پلے بوائے بھی کھانے کے اشتہاروں کا رسالہ ہے۔
”ف“ کہتا ہے”چاند پر جا کر وزن زمین سے کئی گنا کم ہو جاتا ہے۔“شاید اسی لئے ہر محبوبہ کہتی ہے”مجھے چاند پر لے چلو۔
“ویسے وزن کم کرنے کے لئے چاند پر جانے کی کیا ضرورت ہے؟یہ کام تو بہت آسان ہے۔جب بھی وزن کرنے والی مشین پر چڑھیں‘پہلے اس کی سوئی حسب منشا بائیں طرف کر لیں اور اگر اتنی سی محنت بھی نہیں کر سکتے تو پھر سر کو ایک بار دائیں ہلائیں‘ایک بار بائیں‘دن میں صرف اس وقت جب کھانے کو کہا جائے۔
یہ سچ ہے کہ جو موٹے ہوتے ہیں ان پر بڑھاپے میں کئی بیماریوں کا حملہ ہو سکتا ہے۔
یہ حملہ پتلوں پر بھی ہو سکتا ہے بشرطیکہ وہ بڑھاپے تک پہنچیں۔موٹوں کو زیادہ کھانے کی وجہ سے بعد میں جن مشکلات کا سامنا ہوتا ہے‘کم کھانے کی وجہ سے پتلوں کو پہلے ان مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔
مجھے موٹے لوگ اچھے لگتے ہیں‘جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ ہوتے ہی اچھے ہیں‘بلکہ اچھے خاصے ہوتے ہیں۔”ف“ کہتا ہے”مجھے موٹاپا ایک آنکھ نہیں بھاتا“ واقعی ٹھیک ہے جو ایک آنکھ میں آ گیا وہ موٹاپا کیا ہوا؟“
ہمارے ہاں عورتیں عرض ہی کرتی رہتی ہیں‘اس لئے ان کا طول اتنا نہیں ہوتا جتنا عرض۔
”ف“ کہتا ہے”تاریخ میں موٹاپے کا کہیں ذکر نہیں“اسے کون سمجھائے موٹاپے کا تعلق تاریخ سے نہیں جغرافیے سے ہے۔
کہتے ہیں موٹاپے سے عمر کم ہوتی ہے‘حالانکہ موٹاپے سے تو عمر زیادہ ہوتی ہے۔آپ تیس سال کے موٹے کو دیکھ لیں‘چالیس سال کا لگے گا۔موٹا ہونا پیدائشی صفت ہے۔آپ کچھ بھی نہ کریں تو بھی موٹے ہو سکتے ہیں بلکہ کچھ نہ کریں تو ہی موٹے ہو سکتے ہیں۔

Browse More Urdu Adab