Motorcycle Ke Piche Baithna - Article No. 2665

Motorcycle Ke Piche Baithna

موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھنا - تحریر نمبر 2665

اگر موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھی خاتون کی بجائے چلانے والا شرما رہا ہو تو سمجھ لیں وہ اس کی ”اہل خانہ“ ہے اور اگر وہ اس طرح بیٹھے ہوں کہ دیکھنے والے شرما رہے ہوں تو سمجھ لیں وہ ”اہل کھانا“ ہے۔

یونس بٹ جمعرات 29 فروری 2024

ڈاکٹر محمد یونس بٹ
بس میں بے بس مسافروں کو دیکھ کر یہی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح انہیں یہاں سے زندہ سلامت رہا کروا دیا جائے‘کیونکہ بسوں میں صرف ٹکٹ ہی ناقابل انتقال ہوتے ہیں‘جب کہ ویگنیں تو بنی ہی عذاب قبر کی ریہرسل کے لئے ہیں اور ٹرین وہ تو دیکھنے میں ہی یوں لگتی ہے جیسے قبروں کی ایک لمبی قطار مارچ پاسٹ کرتی گزر رہی ہو۔
ایسے میں جب کسی کو موٹر سائیکل کی لگامیں تھامے‘اسے سرپٹ دوڑاتا دیکھتا ہوں تو میرا سارا خون اس منظر کو دیکھنے کے لئے چہرے کے چبوترے پر اکٹھا ہو جاتا ہے۔موٹر سائیکل بھی جوانی کی طرح ہے‘یعنی اس کے آنے کا پتا چلتا ہے نہ جانے کا۔کہتے ہیں جو موٹر سائیکل پر بیٹھ کر بھی شرارت نہ کرے‘یقین کر لیں وہ بیمار ہے یا شادی شدہ۔

(جاری ہے)


موٹر سائیکل کا چال چلن سیاست دانہ ہے‘یعنی آپ آنکھیں بند کر کے اس پر بے اعتباری کر سکتے ہیں‘مگر موٹر سائیکل میں ایک ایسی خوبی ہے جس کی خاطر اس کی ہر خامی خام خیالی خیال کی جا سکتی ہے۔

وہ ہے اس پر پیچھے بیٹھنے کے لئے ایک سیٹ!بلکہ موٹر سائیکل بنایا ہی پچھلی سیٹ کے لئے گیا ہے اور اس پر بیٹھنے والا شخص اتنا اہم ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ کسی اور کا بیٹھنا خلاف قانون ہے۔اسی لئے تو حکومت نے ہر چوک میں با وردی سپاہی کھڑا کر دیا ہے جو ایسی گستاخی کرنے پر فی الفور چالان کر سکے۔
مجھے موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھا شخص کوئی مہاپرش لگتا ہے جو اس مشینی ہاتھی پر بیٹھ کر درش دینے نکلا ہو‘جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے عمارتیں برسوں سے سڑکوں کے کنارے اکڑوں بیٹھی ہوں۔
بعض تو اسے دور سے آتا دیکھنے کے لئے ایک دوسرے کے کاندھے پر چڑھی بیٹھی ہوتی ہیں‘جب کہ موٹر سائیکل چلانے والا وہ مہاوت ہے جو آگے با ادب‘با ملاحظہ‘ہوشیار بیٹھا ڈیوٹی دے رہا ہوتا ہے۔وہ دوسرے ڈرائیوروں سے اس لحاظ سے مختلف ہوتا ہے کہ دوسروں کو بیٹھنے والا قیمت دیتا ہے مگر موٹر سائیکل چلانے والے کو پیچھے بیٹھنے والا قیمتی بنا دیتا ہے۔
بلکہ موٹر سائیکل کی قدر و قیمت کا اندازہ پیچھے بیٹھنے والے پر ہی ہوتا ہے‘اسی لئے سب یہی دیکھتے ہیں کہ پیچھے کون ہے؟
کار کی سیٹ پر بیٹھتے ہی لیٹنے اور بس کی سیٹ پر سونے کو دل چاہتا ہے‘لیکن موٹر سائیکل کا گدی نشین وہ چلہ کاٹ رہا ہوتا ہے جس میں ذرا سی بے تو جہگی اسے موٹر سائیکل کی پیٹھ سے زمین کے پیٹ میں پہنچا سکتی ہے۔بلکہ میرے دوست ”ف“ کے خیال میں موٹر سائیکل‘سائیکل سے اسی لحاظ سے افضل ہے کہ سائیکل سے گرنے والے کو تو کوئی انسان بھی اٹھانے کو آگے نہیں بڑھتا‘اسے خود ہی اٹھنا پڑتا ہے جبکہ موٹر سائیکل سے گرنے والے کو اُٹھانے کے لئے تو فرشتے تک آ جاتے ہیں۔
اسی لئے جب سے اس کی شادی ہوئی ہے وہ موٹر سائیکل چلانے لگا ہے۔
میرا دوست ”ف“ کہتا ہے‘محبت بڑا بے زبان جذبہ ہے یعنی اظہار کے لئے زبان کا محتاج نہیں۔کہتا ہے ”میں تو موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھنے والے کے انداز سے اس کے چلانے والے کے ساتھ رشتے کا اندازہ لگا سکتا ہوں۔اگر موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھی خاتون کی بجائے چلانے والا شرما رہا ہو تو سمجھ لیں وہ اس کی ”اہل خانہ“ ہے اور اگر وہ اس طرح بیٹھے ہوں کہ دیکھنے والے شرما رہے ہوں تو سمجھ لیں وہ ”اہل کھانا“ ہے۔

موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھنا بھی ایک فن ہے۔خواتین منہ ایک طرف کر کے یوں بیٹھتی ہیں جیسے ابھی اترنے لگی ہوں‘بلکہ بعض اوقات بیٹھی ہوئی نہیں‘بٹھائی ہوئی لگتی ہیں۔کچھ خواتین تو خوفزدہ مرغی کی طرح پروں میں کئی بچے چھپائے ہوتی ہیں‘لگتا ہے سفر نہیں Suffer کر رہی ہیں۔چند یوں بیٹھی ہوتی ہیں جیسے چلانے والے کی کمر کی اوٹ میں نماز پڑھ رہی ہوں۔
بعض تو دور سے کپڑوں کی ایک ڈھیری سی لگتی ہیں جب تک یہ ڈھیری اتر کر چلنے نہ لگے‘پتہ نہیں چلتا اس کا منہ کس طرف ہے؟نئی نویلی دلہن نے خاوند کو پیچھے سے یوں مضبوطی سے پکڑ رکھا ہوتا ہے جیسے ابھی تک اس پر اعتبار نہ ہو‘جبکہ بوڑھی عورتوں کی گرفت بتاتی ہے کہ انہیں خود پر اعتبار نہیں۔بچے موٹر سائیکل چلانے والے کے ساتھ اسٹکر کی طرح لگے ہوتے ہیں۔
مرد ٹانگوں پر ہاتھ دھرے یوں بیٹھے ہوتے ہیں جیسے کسی فوٹوگرافر نے انہیں ”ریڈی“ کہہ رکھا ہو۔کبھی موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ کسی کے موٹاپے سے لبالب بھری ہوتی ہے تو کبھی اس پر کوئی ہڈیوں کی پوٹلی کی طرح پڑا ہوتا ہے۔
موٹر سائیکل بڑی جہاندیدہ سواری ہے‘اگر اس پر کوئی بزرگ بیٹھا ہو تو سڑک کو یوں تفصیل سے دیکھے گی جیسے آخری بار دیکھ رہی ہو۔
اگر چلانے والا نوجوان ہے تو کسی گرلز کالج کے سامنے جا کر اس میں کچرا پھنس جائے گا۔اگر کسی پروفیسر کی ہے تو چوک میں جا کر سوچنے لگے گی کہ کدھر جانا ہے؟اور سوچتی رہ جائے گی۔کچھ اس پر اپنی پوری ”دنیا“ بٹھائے پھرتے ہیں اور بعض اس پر اپنی ”دنیا“ ڈھونڈنے نکلے ہوتے ہیں۔
موٹر سائیکل وہ مشینی سواری ہے جس پر بیٹھ کر بھی انسان کا اپنی مٹی سے براہ راست رابطہ رہتا ہے۔
شہروں میں تو انسان نے اس مٹی کو سڑک‘فرش اور قالینوں تلے دفن کر دیا ہے مگر کسی گاؤں کے سائے میں گرد کی بکل مارے لیٹا کوئی راستہ موٹر سائیکل کو آتا دیکھ لے تو وہ اٹھ اٹھ کر سوار سے گلے ملنے لگتا ہے‘یہاں تک کہ سوار کسی اور سے گلے ملنے کے قابل نہیں رہتا۔
آج کا ایٹمی دور بھی تو ایک موٹر سائیکل ہی ہے جس کے بریک فیل اور رفتار تیز ہوتی جا رہی ہے۔
اس کی پچھلی سیٹ پر حضرت انسان بیٹھا ہے اور اسے پتہ بھی نہیں کہ یہ موٹر سائیکل کدھر جا رہی ہے؟اس نے اس مسئلے کا یہ حل ڈھونڈا ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے مسائل دریافت اور ایجاد کرتا ہے‘پھر ان کے حل میں مصروف ہو جاتا ہے تاکہ اس کا دھیان اصل مسئلے کی طرف نہ جائے۔
میرا دوست ”ف“ کہتا ہے ”جب آدمی کو گزری باتیں یاد آنے لگیں تو سمجھ لیں وہ بوڑھا ہو گیا ہے“ شاید اسی لئے وہ قرض لے کر یاد نہیں رکھتا۔
وہ ہر وقت کم باتیں کرنے کی حمایت میں بولتا رہتا ہے۔کہتا ہے ”اتنی باتیں عورتیں نہیں کرتیں‘جتنی ان کے بارے میں کی جاتیں ہیں۔“یہ درست نہ بھی ہو‘ پھر بھی یہ حقیقت ہے کہ باتیں کرنا وہ کام ہے جو آج کل دنیا میں سب سے زیادہ ہو رہا ہے۔مگر موٹر سائیکل وہ جگہ ہے جہاں یہ کام سب سے کم ہوتا ہے بلکہ یہ واحد سواری ہے جس پر بندہ بیوی اور شاعر کے ساتھ بھی بلاخوف و خطر سفر کر سکتا ہے۔

موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھنے والے میں تمام اچھے خاوندوں والی خوبیاں ہوتی ہیں بلکہ شادی تو ڈرائیونگ سیٹ سے اٹھ کر موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کا عمل ہے۔یعنی شادی سے قبل جو زندگی موٹر سائیکل کی بے فکری سے من چاہے رستوں پر چلاتا ہے اب پیچھے بیٹھا بیوی کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔پھر بیوی خاوند کی مونس نہیں مونث ہے۔اس کا دل چاہے تو وہ اس موٹر سائیکل کا رخ سسرالی سڑک کی طرف کر دے یا میکے کی جانب۔

جب میں کسی شخص کو سائیکل کے پیچھے بیٹھا دیکھتا ہوں جس نے اپنے جیسا انسان سائیکل میں جوت رکھا ہوتا ہے تو میرے منہ سے بددعا نکلتی ہے وہ مجھے ایک جابر بادشاہ لگتا ہے۔مگر جب میں کسی کو موٹر سائیکل کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چلانے والے پر اعتماد کیے بیٹھا دیکھتا ہوں تو میرے منہ سے اس کے لئے دعا نکلتی ہے کیونکہ اس سیٹ پر مجھے اپنی پوری قوم بیٹھی نظر آ رہی ہوتی ہے۔

Browse More Urdu Adab