Kuch Khana Khane Ke Bare Mein - Article No. 2666

Kuch Khana Khane Ke Bare Mein

کچھ کھانا کھانے کے بارے میں - تحریر نمبر 2666

دنیا کی سب سے لازوال محبت کھانے کی محبت ہے

یونس بٹ پیر 4 مارچ 2024

ڈاکٹر محمد یونس بٹ
شادی وہ معاہدہ ہے جس میں دو مل کر پوری زندگی دن رات محبت دریافت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور اسی کوشش میں ان کی جان نکل جاتی ہے‘ مگر لگتا ہے میرے دوست ”ف“ کی شادی ہوتے ہی بیوی نے اس کی جان نکال لی ہے۔اسی لئے آج کل وہ اسے ”میری جان“ کہہ کر بلاتا ہے۔
کل مجھے ملنے آیا تو بڑا خوش تھا‘ اس نے خلاف معمول ”بھوک لگی ہے“ کی بجائے ”رومینٹک ہو رہا ہوں“ کہہ کر مجھے خوش کر دیا اور پھر بولا ”دنیا کی وہ کون سی محبت ہے جس کے سامنے سب محبتیں ہیچ ہیں؟“ میں نے کہا ”اگر بیوی سامنے ہو تو بیوی کی محبت!“ فرمایا ”میں سب سے ہیچ محبت کا نہیں پوچھ رہا‘ وہ محبت جس کے سامنے سب محبتیں ہیچ ہوں‘ یہاں تک کہ خدا کی محبت بھی۔

(جاری ہے)

“میں چپ ہو گیا کیونکہ احمق اور عقل مند میں اس وقت کوئی فرق نہیں ہوتا جب تک وہ چپ ہوں‘ مگر ”ف“ چپ نہ رہ سکا اور بولا ”دنیا کی سب سے لازوال محبت کھانے کی محبت ہے‘اور جلدی کرو میں اس وقت شدید رومینٹک موڈ میں ہوں“ اور مجھے کھانے والی نظروں سے دیکھنے لگا۔
سچ ہے کہ دنیا میں انسان جس چیز کے بارے میں سب سے زیادہ باقاعدہ سوچتا ہے وہ کھانا ہی تو ہے۔
یہ دنیا کا واحد کام ہے جو انسان ساری زندگی کرتا رہتا ہے مگر پھر بھی نہیں اکتاتا۔اگر وہ اس کام سے اکتا جائے تو یقین کر لیں وہ بیمار ہے یا عاشق‘یعنی اس کی طبیعت خراب ہے یا نیت۔
کھانے کی وجہ سے تو خدا نے حضرت آدم علیہ اسلام کو جنت سے نکال کر زمین پر بھیجا اور کھانے ہی نے یہ زمین جنت بنا رکھی ہے۔اگر انسان نہ کھاتا تو وہ انسان ہی نہ ہوتا‘فرشتہ ہوتا۔
خدا نے تو انسان کو بنایا ہی کھانے کے لئے ہے‘اسی لئے تو اس کے بازوؤں پر کھانے کے کانٹے (Forks) لگا دیئے ہیں۔دنیا میں کھانا جمع کرنے کا سب سے بڑا برتن پیٹ ہی تو ہے۔کھانا اتنا اہم ہے کہ اللہ نے جنت میں بھی جن چیزوں کو دینے کی پبلسٹی کی ہے‘ان کے ذکر سے ہی ہر قسم کی بھوک مچل اٹھتی ہے۔
پودے وہ جاندار ہیں جو پاؤں سے کھاتے ہیں اور جہاں سے کھائیں ساری عمر دھوپ میں وہاں سایہ کرتے ہیں‘جبکہ انسان جس سے کھا لے اس کا فوراً احسان اتارنا چاہتا ہے۔
اسی لئے دوسرے کو فوراً اس قابل بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کا احسان اتار سکے۔
منہ بچے کی پہلی جیب ہوتا ہے‘یہی نہیں وہ ہر چیز منہ میں ڈال کر اس کے ذائقے سے دوست دشمن کا پتا چلاتا ہے۔امریکی اتنے بچے ہیں کہ وہ بھی ہر جگہ دوست دشمن کا ایسے ہی پتا چلا رہے ہوتے ہیں۔
جانور اور انسان میں یہ فرق ہے کہ انسان پکا کر کھاتا ہے‘جس دن انسان نے معدے کا کام ہانڈی اور پریشر ککروں سے لینا شروع کیا‘وہ جانور سے انسان بنا۔

کھانا ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو کمزور ہو۔کمزوری کا دوسرا نام کھانا ہے۔کھانا سب کی کمزوری ہے اور کمزور سب کا کھانا۔خالی پیٹ ہو تو بھرے پیٹ والے یاد آتے ہیں‘پیٹ بھرا ہو تو خالی پیٹ والے کبھی یاد نہیں آتے۔جس کا کھانا دوسرے کھا جائیں اسے بھوکا نہیں کہتے بلکہ جو دوسرے کا کھانا کھائے اسے بھوکا کہتے ہیں۔خالی پیٹ سوچتا اور بھرا پیٹ سوتا ہے۔

کہتے ہیں موسیقی روح کی غذا ہے اور اس غذا کے ذائقے کا اندازہ لگانے والے کے لمحہ لمحہ بگڑتے ہوئے منہ سے لگایا جا سکتا ہے۔
مزیدار کھانا وہ ہوتا ہے جو مزید نہ ہو۔کھانا پکانے کے لئے عقل کے بجائے پریشر ککر استعمال ہوتا ہے‘البتہ کھانے کے لئے عقل چاہیے۔اسی لئے برا کھانا پکایا تو جا سکتا ہے‘کھایا نہیں جا سکتا۔سنا ہے اچھا کھانا برے خیالات پیدا کرتا ہے‘اسی لئے ہندو پروہت نوجوان بیواؤں کو وہ کھانا نہیں دیتے جو خود کھاتے ہیں۔

میرا دوست ”ف“ کہتا ہے جب ”دل“ میں ایک لکیر کھنچ جائے تو ”دال“ بنتی ہے ”اور وہ گھر میں دال یوں کھاتا ہے جیسے دعوت ولیمہ میں مرغ یعنی تھوڑی سی کھائی باقی کھائی میں پھینک دی۔کہتا ہے کسی قوم یا فیملی کے کھانے کے آداب سے ان کے رہن سہن کا پتا چلتا ہے‘اسی لئے کسی قوم یا فیملی کے بارے میں غلط رائے دینے سے پہلے ان کے ہاں کھانا ضرور کھا لیتا ہے۔
لیکن کہتا ہے ”میں نے کبھی کسی کے گھر سے نمک نہیں کھایا“ اسی لئے دوسرے اسے نمک خوار کے بجائے صرف ”خوار“ ہی سمجھتے ہیں۔
انسانوں میں جسے دوسرے کھلائیں‘وہ بڑا آدمی کہلاتا ہے اور جانوروں میں جسے جب تک دوسرے کھلائیں بچہ کہلاتا ہے۔انسان دنیا آنکھوں سے نہیں معدے سے دیکھتا ہے۔معدہ خالی ہو تو دنیا میں کہیں کچھ نظر نہیں آتا۔جب عمر غم کھا کھا کے تھک جائے تو پھر غم عمر کو کھانے لگتا ہے۔
یوں بھی ہفتوں اور مہینوں کے لقمے بنا بنا کر موت زندگی کو کھاتی رہتی ہے۔
ہماری شاعری دراصل شاعر کا مینیو ہی تو ہے‘جس میں محبوب اور رقیب سے ڈانٹ ”حسد“ غصہ اور غم کھانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ان کی شاعری تاریخ کی بجائے محبوب کا جغرافیہ ہی ہوتی ہے۔اس میں اگر تاریخ ہو بھی تو اسے انگریزی میں زیادہ سے زیادہ ”ڈیٹ“ ہی کہہ سکتے ہیں۔

کہتے ہیں جو چربی آپ کھاتے ہیں دراصل وہ چربی آپ پہنتے ہیں۔یوں کھانا جسم کا لباس بنتا ہے۔شاید اسی لئے عورتیں ڈائٹنگ پسند کرتی ہیں۔
بوفے میرا پسندیدہ کھیل ہے۔میرا دوست ”ف“ کہتا ہے”بوفے کھیل نہیں‘یہ تو کھانا کھانا ہے‘حالانکہ اسے کون بتائے‘یہ کھانا کھانے کا نہیں اکٹھا کرنے کا نام ہے۔
کھانا کھانا بھی ایک ورزش ہے‘ یقین نہ آئے تو ”ف“ کو کھانا کھاتے دیکھ لیں۔
بیاہ شادیوں پر تو کھانا کھانے کے ٹورنا منٹ بھی ہوتے ہیں۔کہتے ہیں مولوی اور پروہت کھانا یوں کھاتے ہیں جیسے آخری بار کھا رہے ہوں‘ حالانکہ یہ درست نہیں۔وہ کھانا یوں کھاتے ہیں جیسے پہلی بار کھا رہے ہوں‘ بلکہ وہ تو صرف اس چیز کو حرام کہتے ہیں جسے کھا نہ سکیں۔
اکیلے کھانا کھانا دراصل خود کلامی کرنا ہے۔چھری کانٹوں سے کھانا ایسے ہی ہے جیسے بندے نے گفتگو کے لئے ترجمان رکھا ہو۔
کسی کے ساتھ کھانا دراصل اس سے محبت کرنا ہے‘ اسی لئے بندہ ہر کسی کے ساتھ ہم کلام تو ہو سکتا ہے ہم طعام کسی کسی کے ساتھ ہوتا ہے۔سر بڑھ جائیں تو دماغ کم ہو جاتے ہیں‘ محبوب بڑھ جائیں تو محبت کم ہو جاتی ہے۔رفتار بڑھ جائے تو عمر کم ہو جاتی ہے اور کھانے بڑھ جائیں تو بھوک کم ہو جاتی ہے۔غریب کے لئے دوا بھی غذا ہے اور امیر کے لئے غذا بھی دوا ہے۔دنیا میں بدقسمت شخص وہ ہوتا ہے جس کے پاس بھوک میں کھانا نہ ہو‘ اور اس سے بڑا بد قسمت وہ ہوتا ہے جس کے پاس کھانا ہو اور بھوک نہ ہو۔

Browse More Urdu Adab