Chacha Chakkan Ne Sab Ke Liye Kele Kharide - Article No. 2652

Chacha Chakkan Ne Sab Ke Liye Kele Kharide

چچا چھکن نے سب کے لئے کیلے خریدے - تحریر نمبر 2652

چچا نے کیلوں کو دبا دبا کر دیکھا،ان کی چتیوں کا مطالعہ کیا اور درجن بھر کیلے علیحدہ کر لیے۔کیلے والا باقی کیلے لے کر بڑبڑاتا ہوا رخصت ہو گیا۔

پیر 2 مئی 2022

سید امتیاز علی تاج
ایک بات میں شروع ہی میں عرض کر دوں،اس واقعے کے بیان کرنے سے حاشا وکلا میری عرض یہ نہیں کہ اس سے چچا چھکن کی فطرت کے جس پہلو پر روشنی پڑتی ہے،اُس کے متعلق آپ کوئی مستقل رائے قائم کر لیں،سچ تو یہ ہے کہ چچا چھکن کا اس نوع کا واقعہ مجھے صرف یہی ایک معلوم ہے،نہ اس سے پہلے کوئی ایسا واقعہ میری نظر سے گزرا اور نہ بعد میں بلکہ ایمان کی پوچھیے تو اس کے برعکس واقعات بہت کثرت سے میرے دیکھنے میں آ چکے ہیں۔
بارہا میں دیکھ چکا ہوں۔کہ شام کے وقت چچا چھکن بازار سے کچوریاں یا گنڈیریاں یا چلغوزے اور مونگ پھلیاں ایک بڑے سے رومال میں باندھ کر گھر بھر کے لئے لے آئے ہیں اور پھر کیا بڑا اور کیا چھوٹا،ہر ایک میں برابر برابر تقسیم کرکے کھاتے کھلاتے رہے ہیں۔

(جاری ہے)

پر اس روز اللہ جانے کیا بات ہوئی کہ․․․․مگر اسی کی تفصیل تو مجھے بیان کرنی ہے۔
اس روز سہ پہر کے وقت اتفاق سے چچا چھکن اور بُندو کے سوا کوئی گھر پر موجود نہ تھا۔

میر منشی صاحب کی بیوی کو پرسوت کا بخار آ رہا تھا،چچی دوپہر کے کھانے سے فراغت پا کر اُن کے ہاں عیادت کے لئے چلی گئی تھیں،بنو کو گھر چھوڑے جا رہی تھیں کہ چچا نے فرمایا۔”عیادت کو جا رہی ہو تو شام سے پہلے بھلا کیا لوٹنا ہو گا،بچی پیچھے گھبرائے گی،ساتھ لے جاتیں،وہاں بچوں میں کھیل کر بہلی رہے گی۔“چچی بڑبڑاتی ہوئی بنو کو ساتھ لے گئیں۔
امامی چچی کو میر منشی صاحب کے گھر تک پہنچانے جا رہا تھا مگر بنو ساتھ کر دی گئی تو بچی کے خیال سے اسے بھی وہیں ٹھہرانا پڑا۔
للو کے مدرسے کا ڈی،اے،دی سکول سے کرکٹ کا میچ تھا،وہ صبح سے اُدھر گیا ہوا تھا۔مُودے کی رائے میں للّو اپنی ٹیم کا بہترین کھلاڑی ہے،اپنی اس رائے کی بدولت اسے کرکٹ کے اکثر میچوں کا تماشائی بننے کا موقع مل جاتا ہے چنانچہ حسب معمول آج بھی وہ للّو کی اردل میں تھا۔

دو بجے سے سینما کی میٹنی شو تھی،ودو چچا سے اجازت لے کر تماشا دیکھنے جا رہا تھا،چھٹن کو جو پتہ لگا کہ ودو تماشے میں جا رہا ہے تو عین وقت پر وہ مچل گیا۔اور ساتھ لے جانے کی ضد کرنے لگا۔چچا نے اس کی تربیت کے پہلوؤں پر چچی کا حوالہ دے کر ایک مختصر مگر پر مغز تبصرہ کرتے ہوئے اُسے بھی اجازت دے دی،اصل واقعہ یہ ہے کہ چچی کہیں ملاقات کو گئی ہوں تو باقی لوگوں کو باہر جانے کے لئے چچا سے اجازت لے لینا دشوار نہیں ہوتا۔
ایسے نادر موقعوں میں چچا مکمل تنہائی کو زیادہ پسند کرتے ہیں،دوسری مصروفیات نے جن اُمور کی طرف چچی کو عرصے سے توجہ کرنے کی اجازت نہیں دی ہوتی ایسے وقت چچا ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی طرف توجہ کرتے ہیں،اس سے چچی کو یہ احساس دلانا مقصود ہوتا ہے کہ گھر کی مشین میں اُن کی ہستی ایک بے کار پرزے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی اور یہ چچا ہی کی ذات والا صفات کا ظہور ہے کہ چشم بینا کو گھر میں سلیقے اور سگھڑاپے کے کوئی آثار نظر آتے ہیں۔

آج آپ کے شغل آفریں دماغ نے چچی کو غیر حاضری میں گھر کے تمام ایسے برتن جو پیتل کے تھے صحن میں جمع کر لیے تھے،بُندو کو بازار بھیج کر دو پیسے کی املی منگائی تھی،صحن میں مونڈھا ڈال کر بیٹھ گئے تھے،پاؤں مُونڈھے کے اُوپر رکھے ہوئے تھے،حقے کی نے منہ سے لگی تھی،ذاتی نگرانی میں پیتل کے برتنوں کی صفائی اہتمام ہو رہا تھا۔
”ارے احمق!اب دوسرا برتن کیا ہو گا،جو برتن صاف کرنے ہیں،اُن ہی میں سے کسی ایک میں املی بھگو ڈال،اور کیا․․․․․یوں․․بس یہی پیتل کا لوٹا کام دے جائے گا،صاف تو اسے کرنا ہی ہے۔
ایک دوسرا برتن لا کر اسے خراب کرنے سے حاصل؟ایسی باتیں تم لوگوں کو خود کیوں نہیں سوجھ جایا کرتیں؟“
بُندو نے تعمیل ارشاد میں کچھ کہے بغیر املی لوٹے میں ڈال بھگو دی،چچا نے فخر سے اطمینان کا اظہار کیا۔”کیسی بتائی ترکیب؟ضرورت بھی پوری ہو گئی اور اپنا․․․․․یعنی کام بھی ایک حد تک ہو گیا۔لے اب باورچی خانے جا کر برتن مانجھنے کو تھوڑی سی راکھ لے آ،کس برتن میں لئے گا بھلا؟“
بُندو نے بڑی ذہانت سے تمام برتنوں پر نظر ڈالی اور ان میں سے ایک سینی اُٹھا کر چچا کی طرف دیکھنے لگا،چچا بھی اس غرض کے لئے شاید سینی پر ہی تجویز کرنا چاہتے تھے،ہدایت دینے کا افتخار نہ مل سکا تو پوچھنے لگے،”کیوں بھلا؟“
بُندو بولا،”چولہے سے اُٹھا کر اس میں آسانی سے راکھ رکھ لوں گا۔

”احمق کہیں کا۔علاوہ ازیں راکھ کھلے برتن میں ہو گی تو اُٹھا اُٹھا کر برتن مانجھنے میں آسانی ہو گی؟“
بُندو ابھی باورچی خانے سے راکھ لانے نہ پایا تھا کہ دروازے پر ایک پھل والے نے صدا لگائی۔کلکتیا کیلے بیچنے لایا تھا۔اس کی صدا سن کر کچھ دیر چچا خاموش بیٹھے حقہ پیتے رہے،کش البتہ جلدی جلدی لگا رہے تھے،معلوم ہوتا تھا،دماغ میں کسی قسم کی کشمکش جاری ہے۔
جب آواز سے معلوم ہوا کہ پھل والا واپس جا رہا ہے تو جیسے بے بس ہو گئے،بُندو کو آواز دی۔”ذرا جا کر دیکھیو تو کیلے کس حساب دیتا ہے۔“
بُندو نے واپس آ کر بتایا۔”چھ آنے درجن۔“
”چھ آنے درجن۔تو کیا مطلب ہوا؟کہ چوبیس پیسے کے بارہ۔بارہ دُونی چوبیس۔یعنی دو دو پیسے کا ایک،اُوں ہُوں،مہنگے ہیں،جا کر کہہ۔تین تین پیسے کے دو دیتا ہے۔تو دے جائے۔

دو منٹ بعد بُندو نے آ کر کہا۔”کہ مان گیا۔کتنے کیلے لینے ہیں؟“
پھل والا اس آسانی سے رضا مند ہو گیا تو چچا کی نیت میں فتور آیا۔
”یعنی تین تین پیسے کے دو؟کیا خیال ہے،مہنگے نہیں اس بھاؤ پر؟“
بُندو بولا۔”اب تو اس سے بھاؤ کا فیصلہ ہو گیا۔“
”تو کسی عدالت کا فیصلہ ہے کہ اتنے ہی بھاؤ پر کیلے لیے جائیں،ہم تو تین آنے درجن لیں گے،دتیا ہے دے،نہیں دیتا نہ دے۔
وہ اپنے گھر خوش ہم اپنے گھر خوش۔“
بُندو پس و پیش کے عالم میں کھڑا ہوا تھا،”ابے تُو جا کر کہہ تو سہی،مان جائے گا۔“
بُندو جانے سے کترا رہا تھا۔”آپ خود کہہ دیجیے۔“
چچا نے جواب میں آنکھیں پھاڑ کر بُندو کو گھورا،وہ غریب ڈر گیا،مگر اب بھی وہیں کھڑا رہا،چچا کو اس کا پس و پیش شاید کسی قدر جائز معلوم ہوا،اسے دلیل کا راستہ سمجھانے لگے۔
”تُو جا کر یوں کہہ،میاں نے تو تین آنے درجن کہے تھے،میں نے آ کر غلط بھاؤ کہہ دیا،تین آنے درجن دینے ہوں تو دے جائے۔“
بُندو دل کڑا کرکے باہر چلا گیا،چچا جانتے تھے،بھاؤ ٹھہرا کر اس سے پھر جانے پر کیلے والا غل مچائے گا،باہر نکلنا قرین مصلحت نہ معلوم ہوتا تھا،دبے پاؤں اندر گئے،اور کمرے کی جو کھڑکی ڈیوڑھی میں کھلتی تھی اُس کا پٹ ذرا سا کھول کر باہر جھانکنے لگے۔
پھل والا گرم ہو رہا تھا۔”آپ ہی تو ایک بھاؤ ٹھہرایا اور اب آپ ہی زبان سے پھر گئے۔بہانہ نوکر کی بھول کا،جیسے ہم کچھ سمجھ نہیں سکتے،یا بے ایمانی تیرا ہی آسرا۔“
بُندو غریب چُپکا کھڑا تھا،پھل والا بکتا جھکتا خوانچہ اُٹھا چلنے لگا،بُندو بھی اندر جانے کو مُڑ گیا،دروازے تک پہنچنے نہ پایا تھا کہ پھل والا رُک گیا۔خوانچہ اُتار کر بولا۔
”کتنے لینے ہیں؟“
بُندو اندر آیا تو چچا مونڈھے پر بیٹھے جیسے کسی خیال کی محویت میں حقہ پی رہے تھے،چونک کر بولے۔”مان گیا؟ہم نہ کہتے تھے مان جائے گا،ہم تو ان لوگوں کی رگ رگ سے واقف ہیں،تو کے کیلے لینے مناسب ہوں گے؟چچا نے انگلیوں کے پوروں پر گن گن کر حساب لگایا۔”ہم آپ،چھٹن کی اماں،للّو ودو،بنو اور چھٹن گویا چھ،چھ دُونی کیا ہوا؟خدا تیرا بھلا کرے بارہ،یعنی ایک درجن،فی آدمی دو کیلے بہت ہوں گے؟پھل سے پیٹ تو بھرا نہیں جاتا منہ کا ذائقہ بدلا جاتا ہے،پر دیکھیو دو تین کچھے اندر لے کر آنا،ہم آپ ان میں سے اچھے اچھے کیلے چھانٹ لیں گے۔

پھل والے نے صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے کیلوں کے گچھے اندر بھیج دیے،چچا نے کیلوں کو دبا دبا کر دیکھا،ان کی چتیوں کا مطالعہ کیا اور درجن بھر کیلے علیحدہ کر لیے۔کیلے والا باقی کیلے لے کر بڑبڑاتا ہوا رخصت ہو گیا۔چچا نے بُندو کی طرف توجہ کی۔“لے انہیں کھانے کی ڈولی میں حفاظت سے رکھ دے،رات کے کھانے پر لا کر رکھنا،اور جلدی سے آ کر برتن مانجھنے کے لئے راکھ لا،بڑا وقت اس قصے میں ضائع ہو گیا۔

بُندو کیلے اندر رکھ آیا اور باورچی خانے سے راکھ لا کر برتن مانجھنے لگا۔”یوں․․․․․ذرا زور سے ہاتھ،تاکہ برتن پر رگڑ پڑے،اس طرح!پیتل کے برتن صاف کرنے کے لئے ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ املی کے استعمال سے قبل اُنہیں ایک بار خوب اچھی طرح مانجھ کر صاف کر لیا جائے،ایسے سب برتنوں کی صفائی کے لئے املی نہایت لاجواب نسخہ ہے،گرہ میں باندھ رکھ۔
کسی روز کام آئے گا۔اور ایک پیتل ہی کا کیا ذکر،دھات کی جملہ اشیاء املی سے دمک اُٹھتی ہیں۔ابھی ابھی تو آپ دیکھیو کہ ان کالے کالے برتنوں کی صورت کیا نکل آتی ہے۔ہاں اور وہ میں نے کہا،کیلے احتیاط سے رکھ دیئے ہیں نا؟ڈولی میں؟ہوں اچھے بھاؤ مل گئے،ایک ایک کے لئے دو دو ٹھیک رہیں گے؟․․․․یوں بس سمجھ گیا۔اب رگڑ اس پر املی،اس طرح،دیکھا میل کس طرح کٹتا ہے،کسی چمک آتی جا رہی ہے،یہ املی فی الواقع بڑی بے نظیر شے ہے۔
مگر میں نے کہا،بُندو میرا بھائی ذرا اُٹھیو تو،ان کیلوں میں سے دو جو ہمارے حصے کے ہیں ہمیں لا دیجیو،ہم ابھی کھائے لیتے ہیں،باقی لوگ جب آئیں گے،اپنا حصہ کھاتے رہیں گے۔“
بُندو نے اُٹھ کر دو کیلے چچا کو لا دئیے،چچا نے مونڈھے پر اُکڑوں بیٹھے بیٹھے پینترا بدلا اور کیلوں کو تھوڑا تھوڑا چھیلنا اور تکلف سے نوش فرمانا شروع کیا۔”تو کیے جا اپنا کام،ذرا جھپاک سے،ہاں،دیکھنا اب ذرا دیر میں ان برتنوں کی شکل کیا نکل آتی ہے․․․․اچھے ہیں کیلے․․․․․بس یوں ہی ذرا زور سے ہاتھ․․․․اس طرح․․․․․چھٹن کی اماں دیکھیں گی،تو سمجھیں گی،آج ہی نئے برتن خرید کیے ہیں،اور پھر لطف یہ کہ خرچ کچھ بھی نہیں۔
ہرا لگے نہ پھٹکری اور رنگت چوکھی آئے۔آخر کتنے کی آ گئی املی!نہ نہ خود ہی کہو،کتنے کی آئی املی؟دو پیسے کی نا؟تو آپ خرید کر لایا تھا،اور پھر جو کچھ کیا تُو نے اپنے ہاتھ سے کیا ہے،یہ تو ہوا نہیں کہ تجھ سے آنکھ بچا کر ہم نے بیچ میں کچھ ملا دیا ہو بس یہ جتنی بھی کرامات ہیں سب املی کی ہے،محض املی کی۔اور وہ میں نے کہا،اب کے کیلے باقی رہ گئے ہیں؟دس؟ہوں۔
خوب شے ہے نا املی؟ایک ٹکے کے خرچ میں چیزوں کی کایا پلٹ ہو جاتی ہے،مگر بندو،ان دس کیلوں کا حساب اب بیٹھے گا کس طرح؟یعنی ہم شریک نہ ہوں۔جب تو ہر ایک کو دو دو کیلے مل رہیں۔لیکن ہماری شرکت کے بغیر شاید دوسروں کا جی بھی کھانے کو نہ چاہے،کیوں؟چھٹن کی اماں تو ہمارے بغیر نظر اُٹھا کر بھی نہ دیکھنا چاہیں گی،تو نے خود دیکھا ہو گا،کئی بار ایسا ہو چکا ہے۔
اور بچوں میں بھی دوسرے ہزار عیب ہوں،پر اتنی خوبی ضرور ہے کہ ندیدے اور خود غرض نہیں ہیں سب نے مل کر شریک ہونے کے لئے ہم سے اصرار شروع کر دیا تو بڑی دقت ہو گی،برابر برابر تقسیم کرنے کو کیلے کاٹنے پڑیں گے۔اور کلکتیا کیلے کی بساط کیا ہوتی ہے؟کاٹنے میں سب کی مٹی پلید ہو گی،کے کیلے بتائے تھے تو نے؟دس؟دس کیلے اور چھ آدمی ٹیڑھی بات ہے۔مگر ہم کہتے ہیں۔
مثلاً فی آدمی ایک ایک کا حساب رکھ دیا جائے تو؟دو دو نہ سہی۔ایک ہی ہو۔مل کر کھائیں تو سب ہنسی خوشی مل جل کر،ٹھیک ہے نا؟گویا چھ رکھ چھوڑنے ضروری ہیں۔تو اس صورت میں کے کیلے ضرورت سے زیادہ ہوئے؟چارنا؟تو میرے خیال میں وہ چاروں زائد کیلے لے آتا،باقی کے چھ تو اپنا ٹھیک حساب کے مطابق تقسیم ہو جائیں گے۔“
بُندو اُٹھ کر چار کیلے لے آیا،چچا نے اطمینان سے انہیں باری باری نوش فرمانا شروع کر دیا۔

”ہاں تو تُو قائل بھی ہوا املی کی کرامات کا؟بے شمار فوائد کی شے ہے مگر کیا کیجئے۔اس زمانے میں دیس کی چیزوں کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا۔یہی املی اگر ولایت سے ڈبوں میں بند ہو کر آتی تو جناب لوگ اس پر ٹوٹ کر گرتے،ہر گھر میں اس کا ایک ڈبا موجود رہتا مگر چونکہ پنساری کی دُکان سے دستیاب ہو جاتی ہے،کوئی خاطر میں نہیں لاتا،اور پھر ایک برتنوں کی صفائی کا کیا ذکر،اس کے اور بھی تو بہتیرے فوائد ہیں۔
یعنی دوران سر کی شکایت کے لئے اس سے بہتر شے سننے میں نہیں آئی،اور پھر یہ بھی نہیں کہ کڑوی کسیلی ہو،یا بدمزہ بُودار ہو،شربت بنائیے،کھٹا میٹھا،ایسا لذیذ ہوتا ہے کہ کیا کہیے․․․․․کیلے بھی نہایت ہی لذیذ ہیں۔زیادہ نہ لے لیے تُو نے․․․․املی کا شربت تو شاید تُو نے بھی پیا ہو،کیا خوش ذائقہ ہوتا ہے،گرمیوں میں تو نعمت ہے۔اور پھر لطف یہ کہ مفید بھی بے حد،ہم خُرما وہم ثواب،امتلا کو یہ روکتا ہے،امتلا نہیں جانتا؟ارے احمق متلی کی شکایت ۔
اس کے علاوہ صفرا کے لئے بھی یہ مفید ہے۔صفرا بھی ایک چیز ہوتی ہے پھر کبھی سمجھائیں گے۔تو وہ کیلے تو اب چھ ہی باقی رہ گئے ہیں نا؟کچھ نہیں،بس ٹھیک ہے،سب کے حصے میں ایک ایک آ جائے گا،ہمیں ہمارے حصے کا مل جائے گا،دوسروں کو اپنے اپنے حصے کا،کاٹ چھانٹ کا جھگڑا تو ختم ہوا،اپنے اپنے حصے کا کیلا لیں اور جو جی چاہے کریں۔جی چاہے آج کھائیں،آج جی نہ چاہے کل کھا لیں،اور کیا،ہونا بھی یوں ہی چاہیے،رغبت کے بغیر کوئی چیز کھائی جائے تو جزو بدن نہیں بننے پاتی۔
یعنی اکارت چلی جاتی ہے۔کوئی چیز آدمی کھائے اُسی وقت جب اُس کے کھانے کو جی چاہے،چھٹن کی اماں کی ہمیشہ سے یہی کیفیت ہے،جی چاہے تو چیز کھاتی ہیں نہ چاہے تو کبھی ہاتھ نہیں لگاتیں۔ہمارا اپنا یہی حال ہے،یہ متفرق چیزیں کھانے کو کبھی کبھار ہی جی چاہتا ہے،ہونا بھی ایسا ہی چاہیے۔اب یہی کیلے ہیں،بیسیویں مرتبہ دُکانوں پر رکھے دیکھے،کبھی رغبت نہ ہوئی،آج جی چاہا تو کھانے بیٹھ گئے،اب پھر نہ جانے شام کو جب تک سب آئیں رغبت رہے یا نہ رہے،یقین سے کیا کہا جا سکتا ہے،دل ہی تو ہے،ممکن ہے اس وقت کیلے کے نام سے طبیعت نفور ہو،تو ایسی صورت میں ہم جانیں،ہم تو بقیہ چھ کیلوں میں سے اپنے حصے کا ایک کیلا ابھی کھا لیتے،کیوں؟اور کیا،اپنی اپنی طبیعت ہے اپنی اپنی بھوک،جب جس کا جی چاہے کھائے،اس میں تکلف کیا،ایسے معاملوں میں تو بے تکلفی ہی اچھی۔

اے ذوق تکلف میں ہے تکلیف سراسر،
آرام سے وہ ہیں جو تکلف نہیں کرتے
تو ذرا اُٹھیو میرا بھائی،بس میرے ہی حصے کا کیلا لانا،باقی کے سب وہیں احتیاط سے رکھے رہیں۔
حسب الارشاد بُندو نے کیلا چچا کو دلا دیا،چچا چھیل کر نوش فرمانے لگے۔
”دیکھا کیا صورت نکل آئی برتنوں کی،سبحان اللہ یہ املی کا نسخہ موٴثر ہی ایسا ہے،اب انہیں دیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ پرانے برتن ہیں؟جو دیکھے گا،یہی سمجھے گا،ابھی ابھی بازار سے منگوا کر رکھے ہیں،دوسروں کا کیا ذکر ہماری غیر حاضری میں یوں صاف کیے گئے ہوتے تو واپس آ کر ہم خود نہ پہچان سکتے۔
چھٹن کی اماں بھی دیکھیں گی تو ایک بار تو ضرور چونک پڑیں گی،تجھ سے پوچھیں تو کہہ دیجیو میاں ساری دوپہر بیٹھ کر صاف کراتے رہے ہیں،پر ایک بات،املی کا ذکر نہ آنے پائے،ہاں۔ایسی بات بتا دو تو کام کی وقعت کھو جاتی ہے،سمجھ لیا نا؟بس اب یہ املی کی بات آگے نکلنے پائے،جو پوچھے یہی کہیو،میاں نے ایک نسخہ بنا کر اس سے صاف کرائے ہیں۔بچوں سے بھی ذکر نہ کیجیو۔
ورنہ نکل جائے گی بات۔کب تک آئیں گے بچے؟للّو کا میچ تو شاید شام سے پہلے ختم نہ ہو،اس کے کھانے چائے کا انتظام ٹیم والوں ہی نے کر دیا ہو گا ورنہ خالی پیٹ کرکٹ کس سے کھیلا جاتا ہے کوئی انتظام نہ ہوتا تو مُودے کو بھیج کر کھانا منگوا سکتا تھا،خوب تر لقمے اُڑائے ہوں گے آج۔میوے مٹھائی سے ٹھسا ٹھس پیٹ بھر لیا ہو گا۔چلو کیا مضائقہ ہے،یہی عمر کھانے پینے کی ہے اور پھر گھر کے دوسرے لوگ نعمتیں کھائیں تو وہ غریب کیوں پیچھے رہے؟ودّو اور چھٹن تو ٹکٹ کے دام کے ساتھ کھانے پینے کے لئے بھی پیسے لے کر گئے ہیں،اور کیا؟وہیں کسی دُکان پر میوہ مٹھائی اُڑا رہے ہوں گے،خدا خیر کرے،ثقیل چیزیں کھا کھا کر بدہضمی نہ کر لائیں،ساتھ کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں ہے۔
تردد ہوتا ہے۔بنو تو یہ ہے کہ ماں کے ساتھ ہے،وہ خیال رکھے گی کہ کہیں زیادہ نہ کھا جائے مگر میں کہتا ہوں کیلے ہم نے آج بڑے بے موقع لیے،اس وقت تو خیال ہی نہ آیا کہ آج تو یہ سب بڑی بڑی نعمتیں اُڑا رہے ہوں گے کیلوں کو کیوں خاطر میں لانے لگے۔اور تُو نے بھی یاد نہ دلایا ورنہ کیوں لیتے اتنے بہت سے کیلے،بے کار ضائع جائیں گے ان پر رات گزر گئی تو خاک بھی باقی نہ رہے گی،سوکھ کر سیاہ پڑ جائیں گے مگر خود کردہ راعلاجے نیست۔اب خرید جولیے،کیا کیا جائے،کسی نہ کسی طرح تو نیگ لگانا ہی پڑے گا،پھینکے تو جا نہیں سکتے،پھر لے آتا یہیں،مجبوری کو میں ہی اُنہیں ختم کر ڈالوں۔“

Browse More Urdu Adab