Chacha Chakkan Nouchandi Dekhne Chalay - Article No. 2645

Chacha Chakkan Nouchandi Dekhne Chalay

چچا چھکن نوچندی دیکھنے چلے - تحریر نمبر 2645

خدا نہ کرے جو چچا چھکن کو کہیں کا سفر درپیش ہو

جمعرات 17 فروری 2022

سید امتیاز علی تاج
خدا نہ کرے جو چچا چھکن کو کہیں کا سفر درپیش ہو۔وہ آفت مچاتے اور دھُومک دھیا کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ!بڑے شکر کا مقام تو یہ ہے کہ خود سفر سے کتراتے ہیں چھُنّو آپا کی شادی ہوئی چچی بیچاری جانا جانا کرتی رہ گئیں۔پر چچا نے لکھ بھیجا۔ننھی کو گئے دنوں پسلی ہو گئی تھی۔حکیم جی ابھی سفر کی اجازت نہیں دیتے۔
بنّو آپا کے ہاں پہلو ننھی کا لڑکا ہوا چچی غریب نے بچے کے لئے کچھ نہیں تو درجن بھر جوڑے تیار کیے ہوں گے۔خود لے کر جانا چاہتی تھیں۔پر چچا نے عین وقت پر ارادہ فسخ کر دیا۔پارسل کے ساتھ خط میں لکھ بھیجا۔”چھُٹن کی باری ابھی نہیں ٹلی۔مجبور ہوں۔کہ ابھی نہیں آ سکتا۔“
چچی غریب کا کہنا تو باآسانی ٹل جاتا ہے۔

(جاری ہے)

پر جہاں کہیں یاروں دوستوں نے کسی میلے یا عرس پر جانے کی تیاریاں کیں۔

چچا سے ساتھ چلنے پر اصرار کیا۔ذرا وہاں کی رونق اور گہما گہمی بیان کر دی۔ساتھ ہی طعنہ دیا۔”اماں جا چکے تم۔گھر سے اجازت ہی نہیں ملنے کی۔ڈانٹ دیں گی بیگم صاحبہ۔“بس تڑپ اُٹھے چچا۔”واہ!وہ نیک بخت تو خود مجھ سے کہتی رہتی ہے کہ کبھی گھر سے نکلا بھی کرو۔اور اگر نہ بھی کہتی ہو تو میں کسی کا بندھا غلام ہوں کہ جی چاہے اور نہ جاؤں بھئی تمہیں ہماری ہی قسم جواب جانے کا ارادہ ملتوی کرو۔

یہ صورت حالات ہو تو اللہ ہی نے کہا ہے کہ اس قسم کے ہر سفر پر چچا اور چچی میں کھٹ پٹ ہو جائے۔
ابھی پچھلی ہی نوچندی پر منے مرزا اور نوشہ میاں نے میرٹھ چلنے کی ٹھانی۔چچا سے ٹھہری ان کی دانت کاٹی روٹی۔دو چار فقرے جو کسے۔تو چچا چلنے پر آمادہ ہو گئے۔شام کو روانگی کا ارادہ تھا۔صبح ناشتے کے وقت باتوں باتوں میں چچی اماں سے اُس کا ذکر کیا۔

”وہ منے اور نوشاہ جا رہے تھے نوچندی میں۔کہو تو ہم بھی ہو آئیں؟“
چچی اماں بھڑک اُٹھیں۔”اللہ سمجھے اُس منے اور نوشاہ سے۔خدائی خوار کہیں کے۔کبھی کوئی نیک راہ نہ دکھائی۔میں کہتی ہوں یہ تو تمہاری عمر۔بال کھچڑی ہو گئے۔خیر سے کئی بچوں کے باپ بن چکے۔ابھی میلے ٹھیلے کا شوق نہیں گیا؟مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کہو تو ہم بھی ہو آئیں۔جیسے میرے ہی کہے میں تو ہیں۔
کنبے میں شادی غمی کے بیسیوں موقعے گزر گئے۔کہتی رہ گئی کہ وقت گزر جاتا ہے۔بات رہ جاتی ہے۔بس ایک دو روز کے لئے مجھے لے چلتے۔ٹلا ٹلا دیا غضب خدا کا سفید بال ہوتے۔جھوٹے بہانے لکھ لکھ کر بھیج دیئے۔کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ چھوڑا۔آج نوچندی کے لئے مجھ سے پوچھنے آئے ہیں۔کہ کہو تو ہم بھی ہو آئیں جاؤ شوق سے جاؤ۔میں نے پیروں میں بیڑیاں ڈال رکھی ہیں۔
میرا کیا ہے۔دنیا کہے گی۔بوڑھے منہ مہا سے لوگ آئے تماشے باسی کڑھی کا اُبال۔پڑی کہے۔مجھے تو جب خیال ہوتا جو میرے کہے ہوتے۔“
ایسے موقعوں پر بچے غریب ضرور کوئی خطا کر بیٹھتے ہیں چھُٹن دُکھیا صحن میں بیٹھا مرغی کے بچوں کو دانہ کھلا رہا تھا۔چچا کی نظر پڑ گئی۔”یہ کیا ہو رہا ہے چھٹن؟بس صبح ہوئی نہیں اور تیرا مرغی کے بچوں کا کھیل شروع ہو گیا۔
تختی لکھ لی؟آموختہ دُہرایا؟نالائق کہیں کا۔سال بھر ہو گیا مولوی صاحب سے پڑھتے۔ابھی تک لکھنا نہیں سیکھا۔جب دیکھو مرغی کے بچوں کا کھیل۔جب دیکھو مرغی کے بچوں کا کھیل۔یہ ہوتے ہیں اشرافوں کے بچوں کے لچھن؟مرغ باز بننا ہے تجھے؟اُٹھ یہاں سے چل اپنی کتاب پڑھ۔“
اس کے بعد چچا امامی کو حقہ تازہ کرنے کا حکم دے کر دیوان خانے میں چپ چاپ جا بیٹھے۔

گھنٹے بھر کے بعد چچی نے اُدھر سے گزرتے گزرتے دیوان خانے کا کواڑ کھول کر پوچھا۔”وہ کیا اسباب جائے گا ساتھ؟بتا دیتے تو بندھ جاتا۔“
چچا نے بیٹھے بیٹھے کڑک کر جواب دیا۔”میں نہیں جا رہا۔“
چچی اندر چلی گئیں بولیں۔”یہ بگڑ کس بات پر بیٹھے؟اے بس اتنی یہ بات میرے منہ سے نکل گئی نا کہ کنبے میں سے بلاوے آئے تو ٹال ٹال گئے۔اور نوچندی جانے کی جھٹ پٹ تیاری کر لی۔
تمہیں کہو کچھ جھوٹ کہا تھا میں نے؟“
چچا نے بگڑ کر کہا۔”بس کان نہ کھاؤ میرے کہہ جو دیا میں نہیں جا رہا۔“
چچی کو بھی غصہ آ گیا۔نہیں جاتے نہ جاؤ۔میری بلا سے رانی روٹھیں گی اپنا سہاگ لیں گی․․․اور نہیں تو۔“
یہ کہہ چچی زور سے کواڑ بند کرکے اندر چلی آئیں۔
ذرا سی دیر بعد منے اور نوشاہ آ پہنچے۔دروازے کی چق اُٹھا کر باہر ہی کھڑے کھڑے بولے۔
”بس بس بیٹھیں گے نہیں اس وقت۔پوچھنے آئے تھے کہ تیار ہونا۔کہیں عین وقت پر بہانے بنانے بیٹھ جاؤ۔ساڑھے چار چھوٹ جاتی ہے گاڑی۔ذرا اس کا خیال رہے۔“
دوپہر تک چچا دیوان خانے ہی میں بیٹھے رہے۔دے حقے پر حقہ اور پان پر پان۔دوپہر کا کھانا بھی وہیں منگوایا۔امامی جھوٹے برتن اُٹھا کر چلنے لگا تو اُس سے کہا۔”دیکھ بیوی سے جا کر کہہ دے۔اسباب بندھ جائے گا۔
آپ بس ناشتے کا انتظام کر دیجئے۔“
پیغام بھیج کر چچا کان کواڑ سے لگائے سنتے رہے کہ کیا جواب ملتا ہے،چچی سن کر چپ ہو رہیں۔تو آپ کواڑ کھول اندر آ گئے۔دو ایک مرتبہ زنان خانے سے مردانے میں اور مردانے سے زنان خانے میں آئے گئے۔کبھی رستے میں تھم گئے۔مڑنا چاہا نہ مڑے۔بڑھے چلے گئے پھر یکلخت مڑ گئے۔کھڑے ہو کر داڑھی کے بالوں میں سے تھوڑی کھجائی پھر سیدھا اپنے کمرے کا رستہ لیا۔
ذرا سی دیر کے بعد کُرتے کے اندر ہاتھ ڈال کر سینہ کھجلاتے ہوئے باہر نکل آئے۔کچھ دیر چبوترے پر کھڑے رہے۔پھر غڑاپ سے اندر آواز آئی۔”او امامی!یہاں آئیو!“
گھر بھر کے کان کھڑے ہوئے کہ ہوئیں سفر کی تیاریاں شروع۔
”ذرا جائیو تو بھاگ کر اللہ بخش درزی کے ہاں۔کہنا میاں آج نوچندی میں جا رہے ہیں۔انگرکھا سِل گیا ہو تو دے دے۔اور نہ سلا ہو تو یاد کرکے کہہ دیجیو۔
میاں کہتے تھے سلائی نہیں ملنے کی۔سمجھ گیا؟“
اُدھر امامی رخصت ہوا۔ادھر مُودے کی باری آئی۔”مودے!ارے او مُودے!یہاں آئیو!جانا ذرا ماتا دین کے ہاں،پرسوں اُس نے وعدہ کیا تھا کہ آج ہمارے کپڑے دھو کر دے دے گا۔اُس سے کہیو،میاں آج نوچندی میں جا رہے ہیں۔کپڑے دُھل گئے ہوں تو دے دے۔سمجھ گیا؟جائیو تو جھپاک سے۔اور ہاں سننا دو جوڑے ہیں ہمارے۔
ایک میں غرارہ ہے۔اور ساتھ ایک انگرکھا ہے․․․․
ہئی ہے وہ امامی چلا گیا درزی کے ہاں؟اب کیا کروں؟یہ بُندو کہاں گیا؟او بُندو!ارے بُندو!جانا تو بھاگ کے امامی کے پیچھے اللہ بخش درزی کے ہاں۔اور اس سے کہیو کہ ایک انگرکھا جو نمونے کا دے رکھا ہے وہ بھی دے دے۔میاں نوچندی میں جا رہے ہیں،نیا انگرکھا سلا ہو یا نہ سلا ہو۔نمونے کا انگرکھا لے لینا۔
سمجھ گیا؟دوڑ کر جا․․․ہاں تو کہیو ماتا دین سے کہ میاں نوچندی میں جا رہے ہیں،سمجھ گیا۔دو جوڑے ایک انگرکھا،ایک رومال،ایک بنیان،ایک ازار بند،سب چیزیں گن کر لیجیو،اور دیکھنا راستے میں کچھ گرا نہ دینا دیکھوں تو کتنی جلدی آتا ہے۔
ملازم کام پر روانہ ہو گئے تو اب گھر کے لوگوں کی باری آئی۔”ارے بھئی کہاں چھپ کر بیٹھ رہے تم سب لوگ؟کام نظر آیا۔
اور بس روح ہوئی فنا۔یوں نہیں کہ مل ملا کر ختم کر دیں قصہ۔ارے بھئی یہاں آؤ۔تم میرا بستر اُٹھا کر لاؤ للو،بنو بیٹی!جاؤ تم غسل خانے میں سے ہماری صابن دانی،منجن کی ڈبیا اور تولیا لے آؤ،چھُٹن!ارے چھُٹن!جانا اپنی اماں کے کمرے میں۔وہاں سے ہمارا آئینہ،کنگھا اور تیل کی شیشی اُٹھا لاؤ۔سب چیزیں لا کر یہاں فرش پر رکھ دو۔اور یہ تم کہاں چلے ودّو؟ارے بھئی کہا جو ہے کہ ٹھہرے رہو تھوڑی دیر یہیں۔
جانتے ہو شام کی گاڑی سے نوچندی دیکھنے جا رہا ہوں۔کام کی یہ کثرت ہے اور سرک چلے!جاؤ میرا بکس اُٹھا لاؤ۔اور پھر اپنی چچی اماں سے جا کر کہنا۔پچھلی دھلائی آئی تھی تو ہمارے دو رومال آپ کے کپڑوں میں چلے گئے تھے۔وہ نکال دیں․․․․بنو بیٹی لے آئیں سب چیزیں؟شاباش شاباش۔یہاں رکھ دو۔پر یہ کیا اُٹھا لائیں تم؟یہ میری منجن دانی ہے۔سامنے رکھی ہوئی چیز نہیں دکھائی دیتی۔
ارے چھٹن کون سا آئینہ اُٹھا لا رہا ہے بھئی بڑا پریشان کیا ہے ان لوگوں نے۔ارے احمق ہمارا آئینہ ہمارا آئینہ!“
گھنٹے بھر کی تُو تُو میں میں کے بعد کہیں سب چیزیں کمرے میں جمع ہوئیں۔اور چچا نے اُنہیں بکس میں رکھنا شروع کیا۔تمام نوکر اور بچے اردل میں موجود۔چیزیں زیادہ بکس میں جگہ کم۔چچا ایڑی چوٹی کا زور لگا کر انہیں ٹھونس رہے ہیں۔پر کسی طرح نہیں سماتیں۔
زور لگا لگا کر منہ لال ہو رہا ہے۔پیشانی سے پسینے کی بوندیں ٹپک رہی ہیں۔ایسے موقع پر کسی کو ہنسی آ جانا بڑا خطرناک ہوتا ہے۔چچا چونک کر مڑتے ہیں۔”کون تھا یہ؟نالائق بدتمیز کہیں کے۔ہنسی کی کیا بات تھی؟کوئی تماشہ ہو رہا ہے یہاں؟ریل کا وقت سر پر آ گیا ہے۔اور انہیں ہنسی سوجھ رہی ہے۔نکلو یہاں سے باہر جا کر ہنسو۔“
ادھر کمرے میں سے قافلہ نکلتا ہے۔
ادھر آوازیں آتی ہے۔”ارے کم بختو،کہاں جا کر مر رہے سب کے سب؟او امامی!ارے او بُندو!سانپ سونگھ لیا کیا؟یہاں آ کر بکس کا ڈھکنا بند کراؤ۔بیٹھو اس کے اُوپر چڑھ کر۔“
بکس بند ہو چکا تو اب بستر کی باری آئی۔”ابے یوں نہیں یوں۔اس طرح موڑ۔اندھے ادھر دیکھ۔میں کیا کر رہا ہوں۔اب لپیٹ اچھی طرح دبا کر۔جان بھی ہے ہاتھوں میں؟کھانا کھا کر سانڈ تو بن گیا ہے۔
اور بستر نہیں لپیٹ سکتا؟ابے اس طرح۔یوں بس اب بیٹھا رہنا اوپر ہٹیو مت۔میں نکالتا ہوں رسی نیچے سے!ہا گدھے!ساری کی کرائی پر پانی پھیر دیا۔“
یہاں بستر ہی سے کشتی ہو رہی تھی۔اُدھر منے مرزا اور نوشاہ میاں تیار ہو کر آن بھی پہنچے۔آوازیں آنی شروع ہو گئیں۔”اماں چلو۔اب کیا ہو رہا ہے اندر؟آدھ گھنٹہ رہ گیا ہے ریل کے چھوٹنے میں۔ارے بھئی کون سا مہینوں کا سفر ہے کہ رخصت ہونے میں گھنٹے صرف ہو گئے؟اب نکل بھی چُکو گھر میں سے۔
سامان تو بھجوا دو کہ تانگے میں رکھ دیا جائے۔“
ادھر اندر چچا بستر باندھ رہے ہیں۔ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں اور پکار پکار کر احکام سنا رہے ہیں۔”اماں للّو!دیکھنا وہ ناشتہ بھی بندھ گیا۔اپنی اماں سے کہنا ایک لوٹا اور ایلومینیم کا گلاس بھی نکال دیں۔ارے بھئی ودّو!کسی سے کہو اسباب باہر پہنچانا شروع کرے۔ہئی ہئی وقت تو بہت ہی تھوڑا رہ گیا۔
ارے بھئی کہہ دو باہر کہ بس ابھی آیا۔ذرا میری اچکن اور ٹوپی کھونٹی پر سے اُتار دینا۔اور اپنی چچی سے کہنا کچھ روپے بھی سفر خرچ کے لئے نکال دیں۔اماں آ رہا ہوں منے آ رہا ہوں۔تم تو ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو گئے،اسباب باندھ رہا تھا،بس آیا۔“
اتنے میں چچی کمرے میں آ گئیں۔بولیں”اور یہ نئی وصلی کی جوتی ساتھ نہ لیتے گئے؟“
چچا پاگلوں کی طرح مڑ کر دیکھتے ہیں تو جوتی بندھنے سے رہ گئی ہے۔
”اب کیا کروں؟ریل کا تو وقت ہو گیا۔اماں ٹھونس بھی دو بستر میں کہیں۔نہ نہ یوں تو گر پڑے گی۔تم کھول لو بستر۔ارے بھئی جلدی کرو ریل کا تو وقت ہو گیا۔اماں آ رہا ہوں نوشے!چھٹن بیٹے باہر جا کر کہنا اسباب باندھ رہے ہیں۔ابھی آئے،اماں کھول بھی چکو بستر۔لاحول ولا۔ارے بھئی کاٹ بھی دو رسیوں کو۔ذرا سا تو وقت رہ گیا ہے۔“
بستر کھلا پڑا تھا کہ چچی پوچھ بیٹھیں۔
”کوئی موزوں کی جوڑی بھی رکھ دی صندوق میں؟“
چچا بستر چھوڑ چچی کا منہ تکنے لگے۔”موزے؟رکھ ہی لیے ہوں گے کہ اللہ جانے رہ گئے!کچھ یاد نہیں آتا۔ارے بھئی کھولنا جلدی سے صندوق۔تم بستر باندھو للّو۔یہ رہی چابی صندوق کی کھولتا ہوں۔ریل کا تو وقت ہو گیا۔ارے اماں ودّو!جا کر کہنا باہر کہ بس میں آیا کہ آیا۔بنو بیٹی دیکھنا تو ذرا صندوق میں موزے،ارے بھائی بستر نہیں بندھا اب تک؟اب کہیں باندھ بھی چکو۔
اُس کونے میں دیکھیو۔موزے ہوں گے تو اُدھر ہی ہوں گے۔یہ رکھے تو ہیں۔خواہ مخواہ وقت ضائع کرواتی ہیں۔دوسرے کو تو نرا احمق سمجھ رکھا ہے۔ارے بھئی بس بند کرو صندوق۔یہ نفاستیں رہنے دو۔چیزیں جیسی ہیں۔اب پڑی رہیں۔خدا کے لئے تالا لگاؤ تم۔کہاں گیا تالا؟ارے بھائی کون لے گیا؟کس نے اُٹھا لیا تالا؟“
لیجیے تالے کی ڈھنڈیا پڑ گئی،جسے دیکھیے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر فرش پر تالا تلاش کر رہا ہے۔
اتنے میں معلوم ہوا کہ چچا جان کے ہاتھ ہی میں تھا۔
چچا شیروانی کی آستینوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے زنان خانے سے نکلے تو انتظار کر کر کے منے مرزا اور نوشاہ میاں اسٹیشن پر جا چکے تھے۔
”ارے امامی لپک کر کوئی اِکا تو پکڑ۔ذرا آگے بڑھ کر دیکھ پیسے ٹھیک کر لیجو۔تم عدد گنو للو۔اور ہمارے ساتھ کون جائے گا؟ودّو تم چلنا۔اور تو امامی۔اے لو وہ آگیا اِکا۔
اسباب لادو۔تم سوار ہو جاؤ ودّو۔تو بھی بیٹھ جا امامی۔پیسے ٹھہرا لیے نا اِکے والے سے؟لے میرا بھائی۔اب ہوا کی طرح چل۔نوچندی پر جا رہے ہیں ہم۔ریل کا وقت ہو گیا ہے اُر کر چل۔رہ نہ جائیں گاڑی سے۔عدد گن لیے تھے ودّو؟اور وہ پانوں کی ڈبیا؟ہئی ہے خیال ہی نہ رہا۔چلو نوشے کے پاس ہوں گے پان۔ارے بھئی ذرا چال دکھا جانور کی․․․․ایسے نکمے لوگ ہیں کہ خدا کی پناہ!بس ذرا کام ہو بوکھلا جاتے ہیں۔
یوں نہیں آرام آرام سے مزے مزے سے فارغ ہو جائیں۔گھنٹوں پہلے تیاری شروع کرو۔وقت پر وہی جھینکنا۔عاجز آ گیا ہوں میں تو۔“
خدا خدا کرکے کہیں اسٹیشن پر پہنچنا ہوا۔وہاں قلیوں سے بات نہ ٹھہر سکی۔اچھی خاصی ردّو قدح کے بعد بکس اور بستر امامی کے سر پر رکھ کر پل کا رُخ کیا۔وہاں بابو سے معلوم ہوا کہ ٹکٹ کے بغیر ریل کے سفر کی کوشش جرم ہے۔“
چچا لاحول پڑھتے ہوئے ٹکٹ گھر کی طرف دوڑے۔بابو سے میرٹھ کا ٹکٹ مانگا تو معلوم ہوا کہ کل صبح سے پہلے کوئی گاڑی میرٹھ روانہ نہ ہو گی۔

Browse More Urdu Adab