Chori Karna - Article No. 2662

Chori Karna

چوری کرنا - تحریر نمبر 2662

ہر چور جانتا ہے کہ اگر وہ سامنے آ گیا تو چور کے رتبے سے گر کر ڈاکو اور لٹیرا بن جائے گا

یونس بٹ بدھ 21 فروری 2024

ڈاکٹر محمد یونس بٹ
میرا دوست ”ف“ کہتا ہے مجھ سے قسم لے لیں جو میں نے کوئی دوسرا چور جیسا شریف شخص اپنی پوری زندگی میں دیکھا ہو۔وہ ٹھیک کہتا ہے کیونکہ اس نے آج تک کوئی دوسرا چور دیکھا ہی نہیں۔ویسے بھی چور آج کل شرافت کا نمونہ ہیں۔یعنی جس طرح آج کل شرافت کا ملنا مشکل ہے ایسے ہی چور بھی مشکل ہی سے ملتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا‘جب چور چاند کے ساتھ نکلتے بلکہ ہر رات کئی نئے چاند چڑھاتے‘مگر اب تو وہ خود عید کا چاند ہو گئے ہیں۔
جب میں بچہ تھا‘ان دنوں میرا گاؤں نہر کے کنارے یوں پڑا ہوتا جیسے کوئی ہریالے حاشیئے والا بہت بڑا عید کارڈ یہاں رکھ کر بھول گیا ہے۔جس پر کسی نوآموز نے کچی پنسل سے گھر بنانے کی مشق کی ہو۔

(جاری ہے)

ان دنوں رات آ کر گاؤں کی جان ہی قبض کر لیتی۔

صرف عبادت گزار اور چور ہی اس کے بدن میں دھڑک رہے ہوتے۔عبادت گزار کے سامنے اس کا مصلیٰ ہوتا اور چور کے سامنے اس کا مسئلہ۔عبادت گزار اندر کے سفر پر روانہ ہوتا اور چور باہر کے سفر پر نکل پڑتا۔وہ اپنے جوتے اتار کر بڑا باادب ہو کر مختلف گھروں میں یوں داخل ہوتا جیسے کسی مقدس مقام کی زیارت کو آیا ہو۔اگر اس کی آہٹ سے خلق خدا کی نیند میں خلل پڑتا تو وہ شرم کے مارے منہ چھپا کر بھاگ اٹھتا‘کیونکہ ہر چور جانتا ہے کہ اگر وہ سامنے آ گیا تو چور کے رتبے سے گر کر ڈاکو اور لٹیرا بن جائے گا۔
اسی لئے تو جس گاؤں میں چور کا چکر لگ جائے وہاں کے سیانے اس کے پاؤں کے نشان سنبھال سنبھال کر رکھتے ہیں۔چور اتنا وضعدار اور رکھ رکھاؤ والا ہوتا ہے کہ کچھ مل جائے تو ٹھیک ورنہ چپ چاپ الٹے پاؤں لوٹ جائے گا۔ظاہر ہے وہ رشتہ دار تو ہے نہیں کہ کہے اگر تمہارے پاس دینے کو کچھ نہیں تو کسی سے قرض لے دو۔
لیکن اب وہ چوری چھپے کا زمانہ کہاں! اب تو بچہ کسی سے چیز چھین کر لے آئے تو والدین پریشان نہیں ہوتے‘لیکن چرا کر لے آئے تو گھبرا جاتے ہیں کہ یہ ترقی نہیں کر سکتا۔
حالانکہ انسانی تہذیب نے ترقی کی طرف پہلا قدم اٹھایا ہی اسی دن تھا جب اس دنیا پر پہلے شخص نے دوسرے کو مار کر اس کی خوراک اور اشیائے ضرورت چھیننے کے بجائے چپکے سے چرا لیں‘کیونکہ چوری کرنا امن پسندوں کا کام ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ان کی ہمیشہ عزت ہوئی۔انگریز برصغیر میں اتنے سال صرف اس لئے حکومت کر گئے کہ وہ حملہ آور بن کر نہیں چوروں کی طرح چپکے چپکے آئے تھے۔

آج بھی کسی علاقے میں چور آ جائے تو آوازیں آنے لگتی ہیں ”باملاحظہ‘ہوشیار‘آنکھیں کھولیں چور آیا ہے“بچے‘بوڑھے اور عورتیں اپنی نیندیں چھوڑ کر اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے گھروں سے طلوع ہونے لگتے ہیں‘مگر کوئی ڈاکو آ جائے تو سب اپنے گھروں کے دروازے اندر سے بند کر لیتے ہیں‘کوئی اسے دیکھنا پسند نہیں کرتا۔
سب سے پہلی چوری عورت نے کی۔
جنت میں پھل چرایا۔ہماری پوری اردو شاعری چوروں کی مدح سرائی ہی تو ہے۔محبوب پہلے شاعر کا دل چراتا ہے پھر دن کا چین اور رات کی نیند۔ظاہر ہے اور شاعر کے پاس ہوتا کیا ہے جسے چرایا جا سکے۔آخر میں محبوب آنکھیں چراتا ہے۔اردو شاعری محبوب کی ان چوریوں کے خلاف لکھی ہوئی رپٹ ہی تو ہے۔اسی لئے محبوب نے کبھی ان تحریروں کو پسند نہیں کیا۔اسے آج بھی وہی تحریریں اچھی لگتی ہیں جو عاشق چیک بک پر لکھتا ہے۔

لڑکے ایک نظر میں لڑکی کا ماضی جان لیتے ہیں اور لڑکی ایک نظر میں لڑکے کا مستقبل پڑھ لیتی ہے۔پہلے لڑکے لڑکیوں کے دل چرایا کرتے تھے‘اب پرس چراتے ہیں‘کیونکہ دل تو ہر کوئی چرا سکتا ہے‘البتہ پرس چرانے کے لئے پڑھا لکھا اور ایک عدد موٹر سائیکل یا سکوٹر کا مالک ہونا ضروری ہے۔
ڈاکو پکڑے بھی جائیں تو پولیس کے ساتھ تصویریں یوں چھپتی ہیں جیسے وہ ان سے پرائز وصول کر رہے ہوں۔
چور اس دور میں بھی پبلسٹی کا قائل نہیں۔وہ چپ چاپ اتنی بلند دیواریں پھلانگ جاتا ہے کہ کوئی اور ہوتا تو اخباروں میں اس کی رنگین تصویریں چھپتیں۔مگر اسے نام سے نہیں کام سے غرض ہے۔اسے تو اخبار کے لئے مجبوراً تصویر کھنچوانا پڑتی ہے‘وہ بھی اس حال میں کہ منہ کپڑے میں چھپا ہوتا ہے اور دیکھنے والا سمجھتا ہے سپاہی کپڑوں کی گٹھڑی بغل میں لئے کھڑا ہے۔
میرا دوست ”ف“ کہتا ہے یہ چور کی بزدلی ہے جو وہ اپنے کارنامے دوسروں کو نہیں بتاتا‘حالانکہ اسے یہ نہیں پتا کہ یہی تو اس کی بہادری ہے کہ وہ کسی سے داد کی بھیک نہیں مانگتا۔
ہمارے ہاں جو چوری کرتے پکڑا جائے یعنی چوری کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے اس کو تھانے لے جایا جاتا ہے‘جہاں اسے مار پڑتی ہے۔مجھے بھی سکول میں فیل ہونے پر مار پڑتی‘پھر میرے گھر والے آ کر یقین دلاتے کہ پھر ایسا نہیں ہو گا یعنی آئندہ ناکام نہیں ہو گا تو میری جان بچتی۔
یہی اصول تھانوں کا بھی ہے‘کیونکہ یہ بھی تو چوروں کے سکول ہیں․․․․․حوالات‘ہوسٹل اور جیل چوروں کی یونیورسٹی ہے۔
چور خوشگوار ازدواجی زندگی کا باعث ہے‘جس علاقے میں چوری چکاری کا جتنا زیادہ ڈر ہو گا وہاں کے مرد شام کو اتنی ہی جلدی گھر آئیں گے۔یہی نہیں سخت سردی ہے‘آپ کو کوئی گرم شے نہیں مل رہی تو چور کی ایک جھلک ہی آپ کو پسینہ پسینہ کر دے گی۔
سائنس نے بڑی ترقی کی ہے۔جاگنے والی گولیاں بنائی ہیں‘جنہیں کھا کر میں سوتا ہوں‘مگر چور وہ دوائی ہے جس کا نام ہی لے لیا جائے تو ساری رات نیند نہیں آتی۔شاید اسی لئے ہمارے ہاں ہر محکمے میں ایسے لوگ بھرے پڑے ہیں تاکہ ہم غفلت کی نیند نہ سو سکیں۔یہی نہیں اس دور میں ہر شخص بیدار اور ہوشیار رہنا چاہتا ہے‘شاید اسی لئے آج کل ہر کسی کے دل میں چور ہے۔

Browse More Urdu Adab