Dhobi - Article No. 606

دھوبی - تحریر نمبر 606

شہناز مزمل

علی گڑھ میں نوکر کو آقا ہی نہیں ” آقائے نامدار “ بھی کہتے ہیں اور وہ لوگ کہتے ہیں جو آج کل خود آقا کہلاتے ہیں بمعنی طلبہ ! اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ نوکر کا کیا درجہ ہے ۔ پھر ایسے آقا کا کیا کہنا ” جو سپید پوش “ واقع ہو ۔ سپید پوش کا ایک لطیفہ بھی سن لیجئے ۔ اب سے دور اور میری آپ کی جان سے بھی دور ایک زمانے میں پولیس کا بڑا دور دورہ تھا اسی زمانہ میں پولیس نے ایک شخص کا بدمعاشی میں چالان کر دیا کلکٹر صاحب کے یہاں مقدمہ پیش ہوا ملزم حاضر ہوا تو کلکٹر صاحب دنگ رہ گئے ۔
نہایت صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے صورت شکل سے مرد معقول بات چیت نہایت نستعلیق کلکٹر صاحب نے تعجب سے پیش کار سے دریافت کیا کہ اس شخص کا بدمعاشی میں کسیے چالان کیا گیا دیکھنے میں تو یہ بالکل بدمعاش نہیں معلوم ہوتا ! پیشکار نے جواب دیا حضور ! تامل نہ فرمائیں یہ سفید پوش بدمعاش ہے ! “ ۔

(جاری ہے)

لیکن میں نے یہاں سفید پوش کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ میں نے آج تک کسی دھوبی کو میلے کپڑے پہنے نہیں دیکھا ۔

اور نہ اس کو خود اپنے کپڑے پہنے دیکھا ۔ البتہ اپنا کپڑا پہنے ہوئے اکثر دیکھا ہے بعضوں کو اس پر غصہ آیا ہوگا کہ ان کا کپڑا دھوبی پہنے ہو ۔ کچھ اس پر بھی جزبز ہو ئے ہوں گے کہ خود ان کو دھوبی کے کپڑے پہننے کا موقع نہ ملا میں اپنے کپڑے دھوبی کو پہنے دیکھ کر بہت متاثر ہوا ہوں ۔ کہ دیکھئے زمانہ ایسا آگیا کہ یہ غریب میرے کپڑے پہننے پر اتر آیا گو اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ اپنی قیمص دھوبی کو پہنے دیکھ کر میں نے دل ہی دل میں افتخار بھی محسوس کیا ہے ۔
اپنی طرف سے نہیں تو قمیص کی طرف سے ۔ اس لیے میرے دل میں یہ وسوسہ ہے کہ اس قمیص کو پہنے دیکھ کر مجھے در پردہ کسی نے اچھی نظر سے نہ دیکھا ہو گا ۔ ممکن ہے خود قمیص نے بھی اچھی نظر سے نہ دیکھا ہو ۔ دھوبیوں سے حافظ اور اقبال بھی کچھ بہت زیادہ مطمئن نہ تھے۔ مجھے اشعار یاد نہیں رہتے اور جویاد آتے ہیں وہ شعر نہیں رہ جاتے سہل ممتنع بن جاتے ہیں کبھی سہل زیادہ اور ممتنع کم اور اکثر ممتنع زیادہ اور سہل بالکل نہیں اقبال نے میرے خیال میں ( جس میں اس وقت دھوبی بسا ہوا ہے ) شاید کبھی کہا تھا ۔
آہ بیچاروں کے اعصاب پہ دھوبی ہے سوار! یا حافظ نے کہا ہو فغان کین گاذران شوخ و قابل دار و شہر آشوب ان دونوں کاسابقہ دھوبیوں سے یقیناً رہا تھا لیکن میں دھوبیوں کے ساتھ ناانصافی نہ کروں گا ۔ حافظ اور اقبال کو تو میں نے تصوف اور قومیات کی وجہ سے کچھ نہیں کہا لیکن میں نے بہت سے ایسے شعرا دیکھے ہیں جن کے کپڑے کبھی اس قابل نہیں ہوتے کہ دنیا کوئی دھبی سواہندوستان کے دھوبی کے دھونے کے لیے قبول کر لے ۔
اگر ان کپڑوں کو کوئی جگہ مل سکتی ہے تو صرف ان شعراء کے جسم پر میں سمجھتا ہوں کہ لڑائی کے بعد جب ہر چیز کی دروبست نئے سرے کی جائے گی اس وقت عام لوگوں کا یہ حق بین الاقوامی پولیس مانے اور منوائے گی کہ جس شاعر کے کپڑے کوئی دھوبی دھوتا ہو بشرطیکہ دھوبی خود شاعر نہ ہواس پر کپڑے دھلانے والوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ دھلائی کا نرخ کم کرا لیں یہ شعراء اور ان کے بعض قدر دان بھی دھوبی کے سپرد اپنے کپڑے اس وقت کرتے ہیں جب ان میں اور کپڑے میں کوڑ اور کوڑا گاڑی کا رشتہ پیدا ہو جاتا ہے ۔
دھوبی کپڑے چراتے ہیں بیچتے ہیں کرایے پر چلاتے ہیں گم کرتے ہیں ، کپڑے کی شکل مسخ کر دیتے ہیں پھاڑ ڈالتے ہیں یہ سب میں مانتا ہوں اور آپ بھی مانتے ہوں گے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ ہمارے آپ کے کپڑے اکثر ایسی حالت میں اترتے ہیں کہ دھوبی کیا کوئی دیوتا بھی دھوئے تو ان کو کپڑے کی ہیت و حیثیت میں واپس نہیں کرسکتا مثلاً غریب دھوبی نے ہمارے آپ کے ان کپڑوں کو پانی میں ڈالا ہو میل پانی میں مل گیا اللہ اللہ خیر سلا جیسے خاک کا پتلا خاک میں مل جاتا ہے خاک خاک میں آگ آگ میں پانی پانی میں اور ہوا ہوا میں البتہ ان کپڑے پہننے والوں کا یہ کمال ہے کہ انہوں نے کپڑے کو تو اپنی شخصیت میں جذب کر لیا اور شخصیت کو کثافت میں منتقل کر دیا مثلا لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی ! اور یہ کثافت ہم دنیاداروں کو قمیص پگڑی اور شلوار میں نظر آتی ہو یہ بات میں نے کچھ یوں ہی نہیں کہہ دی ہے اونچے قسم کے فلسفے میں آیا ہے کہ عرض بغیر جوہر کے قائم رہ سکتا ہے اور نہ بھی آیا ہو تو فلسفیوں کو دیھکتے یہ بات کبھی نہ کبھی ماننی پڑے گی ۔
دھوبی کے ساتھ ذہن میں اور بہت سی باتیں آتی ہیں مثلاً گدھا ، رسی ، ڈنڈا ، دھوبی کا کتا ، دھوبن میری مراد پرند سے ہے ) استری ( اس سے بھی میری مراد وہ نہیں ہے جو آپ سمجھتے ہیں) میلے ثابت پھٹے پرانے کپڑے وغیرہ ممکن ہے آپ کی جیب میں بھولے سے کوئی ایسا خط رہ گیا ہو جس کو آپ سینے سے لگا رکھتے ہوں لیکن کسی شریف آدمی کو نہ دکھا سکتے ہوں اور دھوبی نے اسے دھو پچھاڑ کر آپ کا آنسو خشک کرنے کے لئے بلاٹنگ پیپر بنا دیا ہو یا کوئی یونانی نسخہ آپ جیب میں رکھ کر بھول گئے ہوں اور دھوبی اسے بالکل ’ صاف نمودہ ‘ کرکے لایا ہو ۔
لڑائی کے زمانے میں جہاں اور بہت سی دشواریاں ہیں وہاں یہ آفت بھی کم نہیں کہ بچے کپڑے پھاڑتے ہیں عورتیں کپڑے سمیٹتی ہیں دھوبی کپڑے چراتے ہیں دوکاندار قیمتیں بڑھاتے ہیں اور ہم سب کے دام بھگتے ہیں لڑائی کے بعد زندگی کی از سر نو تنظیم ہو یا نہ ہو کوئی تدبیر ایسی نکالنی پڑے گی کہ کپڑے اور دھوبی کی مصیبتوں سے نوع انسانی کو کلیتہ نجات نہ بھی ملے تو بہت کچھ سہولت میسر آجائے ۔
کپڑے کا مصرف پھاڑنے کے علاوہ حفاظت ، نمائش اور ستر پوشی ہے میرا خیال ہے کہ یہ باتیں اتنی حقیقی نہیں ہیں جتنی ذہنی یا رسمی ۔ سردی سے بچنے کی ترکیب تو یونانی اطبا اور ہندوستانی سادھو جانتے ہیں ایک کشتہ کھاتا ہے دوسرا جسم پر مل لیتا ہے نمائش میں ستر پوشی اور ستر نمائی دونوں شامل ہیں میرا خیال ہے کہ اگر ستر کے رقبہ پر کنٹرول عائد کر دیا جائے تو کپڑا یقیناً کم خرچ ہو گا اور دیکھ بھال میں بھی سہولت ہو گی جنگ کے دوران میں یہ مراحل طے ہو جاتے تو صلح کا زمانہ عافیت سے گزرتا ۔
لیکن اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر دنیا کی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ تمام سائنس دانوں اور کاریگروں کو جمع کر کے قوم کی اس مصیبت کو ان کے سامنے پیش کریں کہ آئندہ سے لباس کے بجائے ” انٹی دھوبی ٹینک“ کیوں کر بنائے اور اوڑھے پہنے جا سکتے ہیں ۔ اگر یہ ناممکن ہے اور دھوبیوں کے پھاڑ نے پچھاڑنے اور چرانے کے پیدائش حقوق مجروح ہونے کا اندیشہ ہو جس کو دنیا کی خدا ترس حکومتیں گوارا نہیں کر سکتیں یا بعض بین الاقوامی پیچیدگیوں کے پیش آنے کا اندیشہ ہے تو پھر رائے عامہ کو ایسی تربیت دی جائے کہ لباس پہننا ہی یک قلم موقوف کر دیا جائے اور تمام دھوبیوں کو کپڑا دھونے کے بجائے بین الاقوامی معاہدوں اور ہندوستان کی تاریخوں کو دھونے پچھاڑنے اور پھاڑنے پر مامور کر دیا جائے ۔
بفرض محال ستر پوشی پر کنٹرول ناممکن ہو یا ترک لباس کی اسکیم پر بزرگان قوم جامے سے باہر ہو جائیں اور دھوبی ایجی ٹیشن کی نوبت آئے تو پھر ملک کے طول و عرض میں ” بھارت بھبھوت بھنڈار “ کھول دیئے جائیں ۔ اس وقت ہم سب سر جوڑ کر اور ایک دوسرے کے کان پکڑ کر ایسے بھبھوت ایجاد کر نے کی کوشش کریں گے جن میں چائے کے خواص ہوں گے یعنی گرمی میں ٹھنڈک اور سردی میں گرمی پیدا کریں گے ۔
ستر پوشی سے چشم پوشی کرنا پڑے گی اگر ہم اتنی تری نہیں کر سکتے ہیں اور قوم و ملک کی نازک اور ناگفتہ بہ حالت دیکھتے ہوئے بھی ستر کو قربان نہیں کر سکتے تو بھارت بھبھوت بھنڈار کے ذریعہ ایسے انجینئر اور آرٹسٹ پیدا کئے جائیں گے جو ستر کو کچھ کاکچھ کردکھائیں جیسے آج کل لڑنے والی حکومتیں دشمن کو دھوکا دینے کے لیے دھوکے کی ٹٹی قائم کر دیا کرتے ہیں جس کو انگریزی میں (Smoke Screen) کہتے ہیں اور جس کے تصرف سے دیوار و دردرودیوار نظر آنے لگتے ہیں ۔
میں تفصیل میں نہیں پڑنا چاہتا ۔ صرف اتنا عرض کر دینا کافی سمجھتا ہوں کہ اس بھبھوتیائی آرٹ کے ذریعہ ہم کسی حصہ جسم کو یا ان میں سے ہر ایک کو اس طرح مسخ یا مزین کر سکیں گے کہ وہ کچھ کا کچھ نظر آئے بقول ایک شاعر کے جو اس آرٹ کے رمز سے غالباً واقف تھے یعنی # وحشت میں ہر ایک نقشہ الٹا نظر آتا ہے مجنوں نظر آتی ہے لیلی نظر آتا ہے شعراء نے ہمارے آپ کے اعضاء وجوارح کے بارے میں تشبیہ استعارہ یا جنون میں جو کچھ کہا ہے بھارت بھبھوت کے آرٹسٹ اسی قسم کی چیز ہمارے آپ کے جسم پر بنا کر غزل کو نظم معرا کر دکھائیں گے اس وقت آرٹ برائے آرٹ اور آرٹ برائے زندگی کا تنازعہ بھی ختم ہو جائے گا بہت ممکن ہے بھبھوت بھنڈرا میں ایسے سرمے بھی تیار کیے جا سکیں جن کی ایک سلائی پھیرنے سے چھوٹی چیزیں بڑی اور بڑی چھوٹی نظر آنے لگیں یا دور کی چیز قریب اور قریب کی دور نظر آئے اس طور پر شعرا آرٹ اور تصوف کو ایک دوسرے سے مربوط کر سکیں گے دوسری طرف ستر دوستوں یا ستر دشمنوں کی بھی اشک شوئی ہو جائے گی اس وقت دھوبیوں کو معلوم ہو گا کہ ڈکٹیٹر کا انجام کیا ہوتا ہے ۔
علی گڑھ میں میرے زمانہ طالب علمی کے ایک دھوبی کا حال سنئے جواب بہت معمر ہوگیا ہے وہ اپنے گاؤں میں بہت معزز مانا جاتا ہے دو منزلہ وسیع پختہ مکان میں رہتا ہے کاشتکاری کا کاروبار بھی اچھے پیمانہ پر پھیلا ہوا ہے گاؤں میں کالج کے قصے اس طور بیان کرتا ہے جیسے پرانے زمانے میں سور ماؤں کی بہادری و فیاضی اور حسن و عشق کے افسانے اور نظمیں بھاٹ سنایا کرتے تھے ۔
کہنے لگا میاں وہ بھی کیا دن تھے اور کیسے کیسے اشراف کالج میں آیا کرتے تھے ۔ قیمتی خوبصورت نرم و نازک کپڑے پہنتے تھے جلد اتارتے تھے دیر میں منگاتے تھے ہر مہینہ دو چار کپڑے ادھر ادھر کر دیئے وہاں خبر بھی نہ ہوئی یہاں مالا مال ہوگئے ۔ ان کے اتارے کپڑوں میں بھی میرے بچے اور رشتہ دار ایسے معلوم ہوتے تھے جیسے علی گڑھ کی نمائش آج کل جیسے کپڑے نہیں ہوتے تھے گویا بوری اور چھولداری لٹکائے پھر رہے تھے ایک کپڑا دھونا پچاس ہاتھ مگدر ہلانے کی طاقت لیتا ہے ۔
کیسا ہی دھوؤ بناؤ آب نہیں چڑھتا ۔ اس پر یہ کہ آج لے جاؤ کل دے جاؤ کوئی کپڑا بھول چوک میں آجائے تو عمر بھر کی آبرو خاک میں ملاد یں ۔ میاں ان ریئسوں کے کپڑے دھونے میں بھی مزہ آتا تھا جیسے دودھ ملائی کا کاروبار دھونے میں مزا ، استری کرنے میں مزا ، دیکھنے میں مزا ، دکھانے میں مزا ، کنوئیں کے پاس کپڑے دھوتے تھے کہ کوتوالی کرتے تھے ۔ پاس پڑوس دور سے کھڑے تماشادیکھتے پولیس کا سپاہی بھی سلام ہی کرکے گزرتا مجال تھی جو کوئی پاس آ جائے برادری میں رشتہ ناتا اونچا لگتا کہ سید صاحب کے کالج کا دھوبی ہے ۔
پنچایت چکانے دور دور سے بلاوا آتا ۔ ایسے ایسے کپڑے پہن کر جاتا کہ گاؤں کے مکھیا اور پٹواری دیکھنے آتے جو بات کہتا سب ہاتھ جوڑ کر مانتے کوئی چین چپڑ کر تا تو کہہ دیتا بچا ہیکڑی دکھائی تو سید صاحب کے ہاں لے چل کر وہ گت بنوائی ہو کہ چھٹی کا دودھ یاد آجائے گا پھر کوئی نہ منگتا ! شہر میں کہیں شادی بیاہ ہوتا تو مجھے سب سے پہلے بلایا جاتا لڑکی لڑکے کا بزرگ کہتا بھیا انگنولڑکی کی شادی ہے عزت کا معاملہ ہے برادری کا سامنا ہے مدد کا وقت ہے میں کہتا ہوں پخنت رہو ۔
تمہاری نہیں میری بیٹی کالج پھلے پھولے فکر مت کرو پر ماتما کا دیا سب کچھ موجود ہے ۔ میاں مانو کالجی آتا لڑکوں سے کہتا حضور لڑکی کی شادی ہے اب کے جمعہ کو کپڑے نہ آئیں گے سب کہتے انکو کچھ پروا نہیں ہم کو بھی بلانا جو چیز چاہو لے جاؤ دب کے کام نہ کرنا ، میاں پھر کیا تھا گزبھر کی چھاتی ہو جاتی ! ایک باری کے کپڑے ، دری ، فرش ، چاندنی ، تولئے ، دستر خوان سب دے دیتا محفل چما چم ہو جاتی ایسا معلوم ہوتا جیسے کالج کا کوئی جلسہ ہے براتی دنگ رہ جاتے میاں اس ہیرا پھیری اور ہڑگم میں ایک آدھ گم ہو جاتا کچھ رکھ لیتا یا ادھر ادھر دے ڈالتا ۔
دوسرے تیسرے جمعہ کو کالج آتا ہر لڑکا بجائے اس کے کہ کپڑے پر ٹوٹ پڑتا دور ہی سے پکارتا کیوں انکو اکیلے اکیلے لڑکی کی شادی کر ڈالی ہم کو نہیں بلایا سب کو سلام کرتا کہتا میاں تمہارا لکھنے پڑھنے کا ہرج ہوتا کہاں جاتے تمہارے اقبال سے سب کام ٹھیک ہو گیا ۔ میاں لوگ نواب تھے کہتے انکو ہم کو فرصت نہیں میلے کپڑے لے لینا دھلے کپڑے بکس میں رکھ دینا چابی تکیے کے نیچے ہوگی بکس بند کرکے مجھے دے جانا ۔
ان کو کیا خبر کون سے کپڑے لے گیا تھا کیا واپس کر گیا ۔ کچھ یاد آگیا تو پوچھ بیٹھے انکو فلاں کپڑا نظر نہیں آیا میں کہہ دیتا سرکار وہ لڑکی کی شادی نہ تھی ۔ کہتے ہاں ہاں ٹھیک کہا یاد نہیں رہا اور کیوں تم نے ہم کو نہیں بلایا ۔ میرا یہ بہانہ اور ان کا یہ کہنا چلتا رہتا اور پھر ختم ہو جاتا ۔ کالج میں کرکٹ کی بڑی دھوم تھی ایک دفعہ کپتان صاحب نے گھاٹ پر سے بلوا بھیجا کہنے لگے انکو دلی سے کچھ کھیلنے والے آگئے ہیں ہم لوگو ں کو کھیلنے کی فرصت نہیں لیکن ان کو بغیر میچ کھلائے واپس بھی نہیں کیا جا سکتا چنانچہ یہ میچ کالج کے بیر ے رکھ لیں گے ۔
تم ممتاز کے یہاں چلے جاؤ وہ بتلائے گا کہ کتنے کوٹ پتلون اور قمیص مفلر وغیرہ درکار ہوں گے ۔ بیروں کی پوری ٹیم کو کرکٹ کا یونیفارم مہیا کر دو کل گیارہ بجے دن کو میں سب چیزیں ٹھیک دیکھو ں میاں کپتان صاحب کا یہ جنریلی آڈر پورا کیا گیا ٹیم کھیلی اور جیت گئی کپتان صاحب نے سب کو دعوت دی اور بھرے مجمع میں کہا انکو کا شکریہ ! اکثر سوچتا ہوں کہ دھوبی اور لیڈر میں اتنی مماثلت کیوں ہے۔
دھوبی لیڈر کی ترقی یافتہ صورت ہے یا لیڈر دھوبی کی ! دونوں دھوتے پچھاڑتے ہیں ۔ دھوبی گندے چیکٹ کپڑے علیحدہ لے جا کر دھوتا ہے اور صاف اور سجل کرکے دوبارہ پہننے کے قابل بنا دیتا ہے ۔ لیڈر برسر عام گندے کپڑے دھوتا ہے اور گندگی اچھالتا ہے (Dirty Linen in Public Washing)کا یہی تو مفہوم ہے ۔ لیڈر کا مقصد نجاست کو دور گھاٹ مقررہیں لیڈر کے لیے پلیٹ فارم حاضر ہیں ۔
اس میں شک نہیں دھوبی کپڑے پھاڑتا ہے غائب کر دیتا ہے اور ان کا آب و رنگ بگاڑ دیتا ہے لیکن لیڈر کی طرح وہ گندگی کو پائیدار یا رنگین نہیں بناتا یہ متعدی کرتا ہے ۔ ہمارے معلم بھی دھوبی سے کم نہیں وہ شاگردکو اسی طرح دھوتے پچھاڑتے مروڑتے اور اس پر استری کرتے ہیں جیسے دھوبی کرتا ہے ۔ آپ نے بعض دھوبیوں کو دیکھا ہو گا جو دھلائی کی زحمت سے بچنے اور مالک کو دھوکا دینے کے لیے سفید کپڑے پر نیل کا ہلکا سا رنگ دے دیتے ہیں ۔
دھوبی کو اس کی مطلق پروا نہیں کہ سر پر سے گھما گھما کر کپڑے کو پتھر پر ٹپکنا اینٹھنا اور نچوڑنا اور اس کا لحاظ نہ کرنا کہ کپڑے کے تارو پود کا رنگ کا کیا حشر ہو گا بٹن کہاں جائیں گے لباس کی وضع قطع کیا سے کیا ہو جائے گی استری ٹھیک گرم ہے یانہیں ٹھنڈی استری کرنا چاہیے یا گرم بالکل اسی طرح معلم کو اس کی پروا نہیں کہ طالب علم کس قماش کا ہے اس پر کیا رنگ چڑھا ہوا ہے ۔
اور اس کے دل و دماغ کا کیا عالم ہے وہ اسے دے دے مارتا ہے اور بھرکس نکال دیتا ہے وہ طالب علم کی استعداد اس کے میلانات اور اس کی الجھنوں کو سمھجنے کی کوشش نہیں کرتا ، صرف اپنا رنگ چڑھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے چنانچہ گاذری کے سارے مراحل طے کرنے کے بعد جب طالب علم دنیا کے بازار یا گاہک کے ہاتھ میں آتا ہے تو اس کا جسم ذہن و دماغ سب جواب دے چکے ہوتے ہیں ۔
اس پر رنگ بھی ناپائیدار ہوتا ہے ۔ کلف دے کر اس پر جو بے تکی اور بے تکان استری کی ہوتی ہے وہ حوارث روزگار کے ایک ہی چھینٹے یا جھونکے سے بدرنگ اور کاواک ہو جاتی ہے دھوبی کی یہ روایات معلمی میں پورے طور پر سرایت کر چکی ہیں ۔ ہندوستانی دھوبی کے بارے میں آپ نے ایک مشہور ستم ظریف کا فقرہ سنا ہوگا جس نے اس کو کپڑے پچھاڑتے دیکھ کر کہا تھا کہ دنیامیں عقیدہ بھی کیا چیز ہے ، اس شخص کو دیکھئے کپڑے سے پتھر توڑ ڈالنے کے درپے ہے ۔
اگر ستم ظریف نے ہندوستانی شعراء یا عشاق کا مطالعہ کیا ہوتا جو ننگ سجدہ سے محبوب کا سنگ آستاں گھس کر غائب کر دیتے ہیں تو اس پر معلوم نہیں کیا گزر جاتی ۔ یہ تو پرانے شعراء کا وطیرہ تھا حال کے شعراء کا رنگ کچھ اور ہے انہو ں نے سوسائٹی کے میلے گندے شارع عام پر دھونے پچھاڑنے کا نیا فن ایجاد کیا ہے اس قبیل کے شعرا ء سوسائٹی کی خرابیوں کو دور کرنے کے اتنے قائل اور شاید قابل بھی نہیں رہے جتنا ان خرابیوں کا شکار ہو چکے ہیں یا اس کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ ان خرابیوں کی نمائش کرنے اور اس کو ایک فن کا درجہ دینے کے درپے ہیں کمزور یوں کو تسلیم کرنا اور ان کو دور کرنے کی کوشش کرنا مستحسن آثار ہیں کاروبار برانہیں لیکن دھوبی اور دھوبی کے گدھے میں تو فرق کرنا ہی پڑے گا ! میرا یک دھوبی سے سابقہ رہا ہے جسے بہانے تراشنے میں وہ مہارت حاصل ہے جو اردو اخبارات و رسائل کے ایڈیٹر کو بھی نصیب نہیں پرچہ کے توقف سے شائع ہونے پر یا بالکل نہ شائع ہونے پر یہ ایڈیٹر جس جس طرح کے عذر پیش کرتے ہیں اور عاشقانہ شعر پڑھتے ہیں اور فلمی گانے سناتے ہیں وہ ایک مستقل داستان ہیا ور فن بھی لیکن میرا دھوبی اور اس کی بیوی جس قسم کے حیلے تراشتے ہیں وہ انہیں کا حصہ ہے ۔
مثلاً موسم خراب ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ دھوپ نہیں ہوئی کہ کپڑے سوکھتے یا گردو غبار کا یہ عالم تھا کہ دھلے کپڑے بن دھلے ہو گئے یا دھوپ اتنی سخت تھی کہ دھونے کیلئے کپڑے کا تر کرنا محال ہو گیا صحت خراب ہے یعنی دھوبی یا دھوبن یا اس کے لڑکے بالے یا اس کے دور ونزدیک کے رشتہ دار ہر طرح کی بیماریوں میں مبتلا رہے قسمت خراب ہے یعنی ان میں سے ایک ورنہ ہر ایک مر گیا ۔
زمانہ خراب ہے ، یعنی چوری ہو گئی فوجداری ہو گئی یا گدھا کا نجی ہاؤس بھیج دیا گیا کپڑا خراب ہے یعنی پھٹ گیا بد رنگ ہو گیا یا گم ہو گیا ۔ عاقبت خراب ہے یعنی ریڈیو پر طرح طرح کی خبریں آتی ہیں اور مٹی خراب ہے یعنی وہ میرے کپڑے دھوتا ہے ۔ میرے خلاف اور غالباً ناظرین میں سے بھی بعض حضرات کے خلاف دھوبیوں کو یہ شکایت ہے کہ میں کپڑے اتارنے اور دھوبی کے سپرد کرنے میں زیادہ دیر لگاتا ہوں یہی نہیں بلکہ دھوبی کے حوالہ کرنے سے پہلے وہ لوگ جو دھوبی نہیں ہیں یا دھوبی سے بھی گئے گزرے ہیں میرے اترے ہوئے کپڑوں میں میل دور کرنے کی اپنے اپنے طور پر کوشش اور تجربے کرتے ہیں کوئی چونا رگڑ کر کوئی کتھا ، پیالی پلیٹ اور دیگچی پونچھ کر کوئی جھاڑو کا کام لے کر کوئی آلو ٹماٹر اور کوئی لنگوٹ باندھ کر اور جب یہ تمام تجربے یا مراحل طے ہو لیتے ہیں تو وہ کپڑے دھوبی کے حوالہ کئے جاتے ہیں ۔
دنیا کو رنگ برنگ کے خطروں سے سابقہ رہا ہے ۔ مثلاً لال خطرہ پیلا خطرہ سفید خطرہ کالا خطرہ ان سے کسی نہ کسی طرح اور کسی نہ کسی حد تک گلو خلاصی ہوتی رہتی ہے لیکن یہ دھوبی خطرہ زندگی میں اس طرح خارش بن کر سمایا گیا ہے کہ نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی مصیبت و مایوسی میں انسان تو ہم پرست ہو جاتا ہے اور ٹونے ٹوٹکے اور فال و تعویز پر اتر آتا ہے میں نے دھوبی کو ذہن میں تو ل کر غالب سے رجوع کیا تو فال میں یہ مصرعہ نکلا۔
تیرے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہربان کیوں ہو گھبرا گیا لیکن چونکہ غالب یہ بھی کہہ چکے تھے کہ اگلے زمانہ میں کوئی میر بھی تھا اس لئے میر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا وہاں سے یہ جواب ملا # ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے اسی دھوبی کے سب امیر ہوئے بایں ہمہ دھوبی جس دن دھلے کپڑے لاتا ہے اور میلے کپڑے لے جاتا ہے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے گھر میں برکتیں آئیں اور بلائیں دور ہوئیں چاندنی ، چادریں ، غلاف ، پردے ، دستر خوان ، میز پوش سب بدل گئے نہا دھو کر چھوٹے بڑوں نے صاف ستھرے کپڑے پہنے طبیعت شگفتہ ہوئی اور کچھ نہیں تو تھوڑی دیر کے لیے یہ محسوس ہونے لگا کہ زندگی بہر حال اتنی پر محن نہیں ہے جتنی کہ بتائی جاتی ہے ۔

Browse More Urdu Adab