Gum Hona - Article No. 2664

Gum Hona

گم ہونا - تحریر نمبر 2664

گم ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی قدر و قیمت کیا ہے

یونس بٹ منگل 27 فروری 2024

ڈاکٹر محمد یونس بٹ
وکیل چاہے وکالت چھوڑ دے اور سچ بولنے لگے پھر بھی لوگ اسے وکیل ہی کہتے ہیں۔ایسے ہی بچہ چاہے باپ بھی بن جائے‘باپ کے لئے وہ بچہ ہی رہتا ہے۔اگرچہ بچوں کے بارے میں میری بھی وہی رائے ہے جو بزرگ میرے بارے میں رکھتے ہیں‘پھر بھی مجھے بچوں سے اس قدر لگاؤ ہے کہ میں تو بڑوں کو بھی بچہ سمجھتا ہوں۔
لیکن کل کے واقعہ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انسان کا اپنی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ہوا یوں کہ میری بھانجی جسے دنیا میں آئے پانچ برس اور ہمارے گھر آئے پانچ منٹ ہوئے تھے‘گم ہو گئی۔یوں تو ہمارا دروازہ انصاف کے در کی طرح ہمیشہ بند رہتا ہے‘مگر کل کسی طرح کھلا رہ گیا اور دروازے کے باہر بیٹھی گلی گڑیا کو ساتھ لے جا کر بہتی سڑک میں دھکا دے آئی۔

(جاری ہے)


ہمارے چہرے پر لکھی گڑیا کے گم ہونے کی خبر گلی کے ہر شخص نے پڑھ لی۔وہ گڑیا جسے کسی نے کبھی بات نہ کرنے دی تھی اب ہر کوئی اس کی بات کر رہا تھا۔برسوں کی خوش اخلاقی کے باوجود مجھے محلے میں وہی لوگ جانتے ہیں جنہیں کوئی نہیں جانتا۔مگر گڑیا گم کیا ہوئی یکدم اس کا قد اتنا بڑھ گیا جیسے اس نے کھلونے پھینک کر پورے محلے کو مٹھی میں لے لیا ہو۔
جب ملی تو وہ روتے روتے آنسو بن گئی تھی۔میں نے پوچھا”گڑیا!تو کہاں گم ہو گئی تھی؟“وہ بولی”انکل میں تو گم نہیں ہوئی تھی‘گھر گم ہو گیا تھا۔“
آج میں اس واقعے سے ایک دن کے فاصلے پر ہوں مگر ابھی تک سوچوں میں گم ہوں کیونکہ کمسن بچی ہو یا کوئی قوم‘جب اس کا گھر گم ہو جائے تو ہر راہ‘راہزن بن جاتی ہے۔یاد رہے یہاں راہزن سے مراد وہ زن نہیں جو راہ میں ملے۔

میرے دوست ”ف“ کے خیال میں خوش دامن اسے کہتے ہیں جو آپ کے چہرے سے خوشیاں چن چن کر اپنے دامن میں ڈال لے۔شاید اسی لئے شادی کے بعد وہ کم ہی خوش نظر آیا۔لیکن آج وہ ایسے ہی خوش تھا جیسے باپ بننے پر ہوا تھا‘یعنی اسے اپنے آپ پر یقین نہیں آ رہا تھا۔وجہ یہ تھی کہ گزشتہ دنوں بارش میں ان کی جو سڑک گم ہو گئی تھی وہ اسے بڑی دوڑ دھوپ سے کمیٹی کی فائلوں میں مل گئی۔
اس کی خوشی کا باعث سڑک کا ملنا نہیں بلکہ اس کا گم ہونا تھا کہ وہ گم ہی نہ ہوتی تو اسے ملتا کیا؟
کچھ عرصہ قبل میرے ایک دوست کو محبت ہو گئی۔لڑکی کی آنکھیں اتنی بڑی تھیں کہ ان میں بیک وقت کئی عاشق سما سکتے تھے۔موصوف ہر وقت اس سے آنکھیں چار کرنے کا چارہ کرتے۔فرماتے ”موصوفہ کا خاندان اتنا اچھا ہے کہ وہ بچپن میں یتیم ہوئی اور یقین کرو ابھی تک یتیم ہے“ گم سم رہنے والے میرے دوست کو جب سے وجہ گم گشتگی ملی ہے وہ غمگین رہنے لگا ہے‘کیونکہ اس کی محبوبہ گم ہو کر “بیگم“ بن گئی ہے جسے وہ غم سے ”بے غم“ کہتا ہے۔

زمین کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک روز ایک سیارہ راستہ گم کر کے ہماری کائنات میں آ نکلا۔ہماری زمین اس کی بے راہ روی کا نتیجہ ہے اور لاوارث بچے کی طرح فضا میں چکر کھا رہی ہے۔اس کا تین چوتھائی چہرہ ہر دم آنسوؤں میں ڈوبا رہتا ہے۔سورج کبھی کبھی اس کے قریب آ کر آنسو پونچھنے کی کوشش کرتا ہے مگر روسیاہ بادل اس کے راستے کی دیوار بن جاتے ہیں۔
سورج تو ان کے خوف سے روپوش ہو جاتا ہے مگر بادل نفرت سے زمین کے منہ پر اتنا تھوکتے ہیں کہ جل تھل ہو جاتا ہے۔لیکن ایک دن سورج اس کے سارے آنسو پونچھ کر اسے بانہوں میں لے لے گا۔اس روز یہ تابنے سا سرخ عروسی جوڑا پہن کر سورج کے سنگ چلی جائے گی۔گویا ایک سیارے کے گم ہونے سے جو دنیا بنی وہ زمین کے سورج کی بانہوں میں گم ہونے سے گم گشتہ ہو جائے گی۔

گم وہ ہوتا ہے جو کچھ نہیں جانتا یا سب کچھ جانتا ہے۔اسی لئے بچہ گم ہوتا یا بوڑھا۔میرا دوست ”ف“ کہتا ہے”گم وہ ہوتا ہے جو اپنے علاقے سے باہر جاتا ہے‘اس لئے میں تو شہر سے کبھی باہر نہیں گیا“ حالانکہ اس کے بچوں کی تعداد سے تو لگتا ہے وہ کبھی گھر سے باہر بھی نہیں گیا۔
گم ہونے کے لئے صحیح راستے پر چلنا ضروری ہے‘کیونکہ صراط غیر مستقیم پر چلنے والے گم نہیں گمراہ ہوتے ہیں۔
گم ہونے والے کی ذات میں ساری کائنات سمٹ آتی ہے۔جب قطرہ سمندر میں گم ہوتا ہے تو سمندر بن جاتا ہے۔جب گانے والی گانے میں گم ہوتی ہے تو پھر وہ نظر نہیں آتی‘گانا نظر آتا ہے۔کوئی یوگی ہو یا جوگی‘عالم ہو یا عامل‘جب تک ذات میں غوطہ لگا کر گم نہیں ہو جاتا مراد کے موتی اس کے ہاتھ نہیں لگتے۔اسی لئے جسے دوران نماز بھی جوتے گم ہونے کا خیال رہے جب وہ مسجد سے باہر آتا ہے تو اسے صرف جوتے ہی ملتے ہیں۔

گم ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی قدر و قیمت کیا ہے؟کبھی تو لوگ دعا کرتے ہیں کہ گمشدہ جہاں کہیں بھی ہو خوش رہے اور اس کے بدلے خدا ہمیں بھی خوشی نصیب کرے‘اور کبھی گھر والے ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود ہی گم ہو جاتے ہیں۔گم ہونے والے کی بولی بھی لگائی جاتی ہے بعض دفعہ پیسے اتنے کم ہوتے ہیں کہ گم ہونے والا خود شرم سے واپس نہیں لوٹتا۔کئی مرتبہ رقم اتنی ہوتی ہے کہ اگر یہ گم ہونے والے کو دے دی جائے تو وہ خود کو پکڑ کر آپ کے سامنے پیش کر دے۔

گم ہونا وہ لمحہ ہے جس میں انسان اپنے آپ کو پاتا ہے۔ایسے ہی جیسے بیج گم ہو کر اپنے اندر کے شجر کو دریافت کرتا ہے۔یہاں تک کہ جب قومیں گم ہو جائیں تو ان کی جھولیاں بڑے بڑے رہنماؤں سے بھر جاتی ہیں اور جب کسی ویران ٹیلے کی اوٹ میں گم ہونے والا کولمبس لوٹتا ہے تو اس کی پوٹلی میں امریکہ ہوتا ہے۔

Browse More Urdu Adab