Khudkushi Karna - Article No. 2663

Khudkushi Karna

خودکشی کرنا - تحریر نمبر 2663

یہ ہر ایرے غیرے کا کام نہیں‘بڑے حساس اور بہادر لوگ ہی ایسا کام کر سکتے ہیں

یونس بٹ ہفتہ 24 فروری 2024

ڈاکٹر محمد یونس بٹ
میرے ایک صحافی دوست نے پوچھا ”تم کیسے مرنا پسند کرو گے؟“ میں نے کہا ”میں تو اپنی مرضی سے مرنا چاہوں گا۔“ اور اس نے اخبار میں لکھ دیا کہ میں خودکشی کرنا چاہتا ہوں! حالانکہ خودکشی کرنے والا بیچارہ اپنی مرضی سے کہاں مرتا ہے؟ وہ تو یہ سب دوسروں کی مرضی سے کرتا ہے۔
خودکشی تو وہ قتل ہے جو ہم سب مل کر کرتے ہیں اور اس قتل کا الزام ہمیشہ مقتول پر ہی لگتا ہے۔
کہتے ہیں جو کچھ نہیں کر سکتا وہ خودکشی کر لیتا ہے۔حالانکہ جو اپنی زندگی ختم کر سکتا ہے وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔یہ ہر ایرے غیرے کا کام نہیں‘بڑے حساس اور بہادر لوگ ہی ایسا کام کر سکتے ہیں۔یقین نہ آئے تو کر کے دیکھ لیں۔یہ واحد جرم ہے جس کی صرف اس کو سزا ملتی ہے جو ناکام ہو جائے۔

(جاری ہے)

کامیاب کی تو اخبارات میں مختلف پوزوں میں تصویریں چھپتی ہیں۔
خودکشی کرنے میں اگر کوئی برائی ہے تو وہ یہ کہ سب کچھ خود کرنا پڑتا ہے۔ورنہ مرنے سے کون ڈرتا ہے؟ہمارے ہاں تو ہر مرد عورت جہاں موقع ملے ایک دوسرے پر مرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔محبوبہ سے یہی وعدہ کیا جاتا ہے کہ میں تمہاری خاطر جان قربان کر دوں گا! ”ف“ نے بھی یہی وعدہ کیا مگر محبوبہ چھوڑ گئی کہ آخر کب تک تمہارا وعدہ پورا ہونے کا انتظار کروں گی؟ یوں بھی موت محبت کی دریافت ہے۔
اگر قابیل کو محبت نہ ہوتی تو وہ ہابیل کو نہ مارتا اور یوں دنیا کو موت کا پتہ ہی نہ چلتا۔انسان کو اشرف المخلوقات بنانے والی یہی موت ہے کہ انسان وہ اکیلا جاندار ہے جسے پتہ ہے اسے موت آنی ہے۔موت نہ ہوتی تو یہ دنیا کتنی عجیب ہوتی۔دو ہزار سالوں کی بچی اپنی دادی سے کہانی سننے کی ضد کر رہی ہوتی۔ہر باپ کا علیحدہ سکول ہوتا جہاں وہ اپنے بیٹوں کو ان کے بھائیوں کے نام یاد کراتا۔
سوہنی مہینوال‘ہیر رانجھا اور مرزا صاحباں وغیرہ کی شادیاں اور طلاقیں ہو چکی ہوتیں۔
جنگ موت کی جوانی اور امن اس کے بڑھاپے کا نام ہے‘اسی لئے جنگ میں بوڑھے اپنے جوانوں کو دفناتے ہیں اور امن میں جوان اپنے بوڑھوں کو۔خودکشی اور موت میں یہ فرق ہے کہ خودکشی میں زندگی‘زندگی کو ختم کرتی ہے۔خودکشی بندہ اس لئے نہیں کرتا کہ وہ دنیا میں رہنے کے قابل نہیں رہا‘اس لئے کرتا ہے کہ دنیا اس کے رہنے کے قابل نہیں رہتی۔

ہمارے ہاں زندہ اور مردہ میں یہ فرق ہے کہ جس کی ہم صرف خوبیاں بیان کریں وہ مردہ ہے۔اس لحاظ سے تو آج کل ہر ادیب و شاعر یہی چاہتا ہے کہ خدا کے لئے مجھے مردہ سمجھیں۔ویسے مردے کو یہ فائدہ ضرور ہے کہ آپ اسے پاسپورٹ کے بغیر جس ملک میں چاہیں لے جا سکتے ہیں۔میرا دوست ”ف“ کہتا ہے ”صرف خوبیاں تو فرشتوں میں ہی ہو سکتی ہیں اور فرشتہ بننا کونسا مشکل کام ہے‘میں تو کتے کو دیکھتے ہی فرشتہ بن جاتا ہوں یعنی اس گھر میں نہیں جاتا جہاں کتا ہو۔

زمانہ قدیم سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ پیدا ہونا اور مرنا دو ایسے کام ہیں جو انسان کے بس میں نہیں‘لیکن انسان نے محکمہ منصوبہ بندی بنا کر اور خودکشی متعارف کرا کر ثابت کیا کہ یہ دو کام بھی انسان اور جاپان کے بس میں ہیں۔دنیا میں کسی کو پتہ نہیں ہوتا اس نے کس دن کتنے بجے مرنا ہے سوائے اللہ کے برگزیدہ بندوں اور خودکشی کرنے والوں کے۔وہ تو اپنے چہلم کی تاریخ اور مینیو تک مقرر کر سکتے ہیں۔
کہتے ہیں خودکشی کرنے والا اچھا آدمی نہیں ہوتا۔اگر یہ بھی مان لیں کہ وہ بہت برا آدمی ہے‘پھر بھی اس نے اچھا کام کیا کہ ایک برے آدمی کو ختم کیا۔
موت کے بعد آدمی زمین میں دفن ہوتا ہے۔مقتول تھانوں اور عدالتوں کی فائلوں میں‘ جبکہ قاتل کی قبر اس کا اپنا وجود ہوتا ہے مگر خودکشی کرنے والا سارے معاشرے کو دفن کر دیتا ہے اور خود ننگا ہو جاتا ہے۔
اس کی نماز جنازہ نہیں ہوتی‘ظاہر ہے نماز جنازہ تو مردوں کی ہوتی ہے۔کہتے ہیں خودکشی کرنے والا دراصل خود کو کسی جرم کی سزا دیتا ہے۔تو اس سے بڑا آدمی کون ہے جو خود کو اپنے جرم کی سزا دیتا ہے۔خودکشی کو جرم شاید اسی لئے رکھا گیا ہے کہ یہ ہونے لگا تو پھر عدالتوں کا کیا کام رہے گا؟ تھانوں والوں کے بیوی بچے کہاں سے کھائیں گے؟
سگریٹ وہ واحد ٹھوس شے ہے جو ہم پیتے ہیں۔
سائنسدان کہتے ہیں سگریٹ پینا دراصل خودکشی کرنا ہے۔اس لحاظ سے تو ”ف“ سارا دن لوگوں کو خودکشی سے بچاتا رہتا ہے کہ جونہی اس نے کسی کے ہاتھ میں سگریٹ دیکھی فوراً اسے بچانے کے لئے اچک لی۔یوں بھی آج کل شہروں میں اتنا دھواں ہے کہ ان کی فضا میں ایک دن سانس لینے سے بندہ اتنا دھواں اندر لے جاتا ہے جتنا ایک ڈبی سگریٹ پینے سے۔یوں ہمارا جینا بھی تو دراصل قسط وار خودکشی کرنا ہی ہے۔
عشق کرنا‘بسوں‘ویگنوں میں سفر کرنا‘سڑک پر چلنا‘سچ بولنا ان سب کاموں میں جان جاتی ہے۔سو یہ کام کرنا بھی خودکشی کرنا ہی ہے۔
خودکشی کرنا کوئی آسان کام نہیں‘پوری دنیا میں ایک شخص بھی ایسا نہ مل سکے گا‘جو یہ کہہ سکے کہ میں نے یہ کام کیا ہے۔جو بھی ملے گا شرمندہ سا ہو کر کہے گا کوشش کی تھی کامیاب نہ ہو سکا۔
ہم جسے بڑا رہنما مانتے ہیں اس کے سارے کام اپنے ہاتھوں سے کرنا سعادت سمجھتے ہیں۔
یہاں تک کہ اسے خود سے مرنے بھی نہیں دیتے۔یہ تو اچھا ہوا ہمارے ہاں بڑے آدمی پیدا ہونے کم اور مرنے تو بالکل کم ہو گئے ہیں۔ورنہ اس کا ہمارے نظام تعلیم پر بہت برا اثر پڑتا۔طلبہ کو ہر روز کسی نہ کسی بڑے آدمی کے یوم پیدائش کی خوشی میں چھٹی ہوتی یا اس کی وفات کی۔
خودکشی دوسروں کی حرکتوں کی وجہ سے ہوتی ہے اور قتل اپنی حرکتوں کے باعث‘مقتول بھی اپنے قتل میں کسی نہ کسی طور شامل ہوتا ہے اور قاتل دوسرے کے ساتھ تھوڑا بہت خود کو بھی قتل کرتا ہے۔
کہتے ہیں خودکشی کرنے والا دراصل خود کو قتل کرتا ہے حالانکہ وہ قاتل نہیں کہ قاتل ظالم ہوتا ہے اور خودکشی کرنے والا مظلوم۔
میرا دوست ”ف“ کہتا ہے ”بندوق چلانا آتی ہو تو گولی سے بہتر خودکشی کے لئے کوئی چیز نہیں کہ عوام سے لے کر حکام تک اس سے مستفید ہو سکتے ہیں کیونکہ گولی انسان اور جانور میں تمیز نہیں کرتی۔“حالانکہ گولی سے ہی تو انسان اور جانور کی تمیز ہوتی ہے۔
اگر گولی کسی انسان کو لگتی ہے تو چلانے والا یقینا جانور ہے۔ویسے پانی میں خودکشی کرنے کا یہ فائدہ ہے کہ آپ کو چوٹ نہیں لگتی اور تیرنا نہ آتا ہو پھر بھی خودکشی کر سکتے ہیں۔
شوپنہار کہتا ہے ”بندے کے لئے سب سے بہتر یہ ہے کہ وہ پیدا ہی نہ ہو اور اگر پیدا ہو جائے تو اس کے لئے سب سے بہتر ہے کہ وہ خودکشی کر لے۔“ اس نے ٹھیک ہی کہا اگر بندہ خودکشی نہیں کرے گا تو پھر ایسی باتیں ہی کرے گا۔
”ف“ کہتا ہے”خودکشی کرنا کوئی بڑا کام نہیں‘آج تک جس نے بھی خودکشی کی کسی چھوٹی سی بات کے لئے کی۔“
حالانکہ اسے یہ پتہ نہیں کہ جس نے بھی کسی بڑی بات کے لئے اپنی جان لی ہم نے اسے خودکشی کہا ہی نہیں۔
جس نے کبھی خودکشی کرنے کا نہیں سوچا دراصل اس نے کبھی تنہائی میں اپنے بارے میں سوچا ہی نہیں۔اسی لئے تو مشہور دانشور والٹیئر کہتا ہے”خودکشی سے بچنا چاہتے ہو تو اپنے آپ کو مصروف رکھو۔“

Browse More Urdu Adab