Patang Bazz Sajna Se! - Article No. 2462

Patang Bazz Sajna Se!

پتنگ باز سجنا سے! - تحریر نمبر 2462

ویسے میرا ذاتی خیال ہے کہ بسنت کی”تاریخ“طے کرنے کا حق بسنت منانے والوں ہی کا ہے۔

عطاالحق قاسمی جمعرات 26 ستمبر 2019

ان دنوں پتنگ بازوں اور پتنگ بنانے والوں کے درمیان معرکے کارن پڑا ہوا ہے،جیسا کہ سب جانتے ہیں،فروری کا مہینہ دواہم واقعات کی وجہ سے مشہور ہے،ایک تو اس لئے کہ اس مہینے میں میری ولادت ہوئی تھی ۔اور اس مہینے کی دوسری چھوٹی موٹی وجہ شہرت بسنت کا تہوار ہے۔بلکہ یہ میرے ایک مداح کا خیال ہے،جو بوجہ شر مندگی اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا کہ بسنت کا تہوار دراصل میرے جشن ولادت ہی کے سلسلے میں ہوتا ہے۔
میں چونکہ خود ستائی کا قائل نہیں ہوں،لہٰذا اس موضوع کو یہیں چھوڑتے ہوئے آپ کو یہ اطلاع دینا چاہوں گا کہ پتنگ بازوں اور پتنگ بنانے والوں نے بسنت الگ الگ تاریخوں میں منانے کا اعلان کیا ہے۔
یوں تو پاکستان میں پتنگ بازوں کی کئی ایسوسی ایشنیں ہیں لیکن آل پاکستان کائٹ فلائنگ ایسوسی ایشن لاہور کو نمائندہ حیثیت حاصل ہے کہ یہ باقاعدہ گورنمنٹ آف پاکستان کی رجسٹر ڈ ایسوسی ایشن ہے۔

(جاری ہے)

اس کے صدر میاں عبدالوحید،سینئر نائب صدر ڈاکٹر نثار احمد کمبوہ اور دونائب صدر حاجی خلیل احمد کمبوہ اور خواجہ منیف شاکر ہیں۔آخر الذکر اردو کے ممتاز شاعر شرقی بن شائق مرحوم کے بھائی ہیں ۔سو اس تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ لاہور میں بسنت 13فروری کو منائی جائے گی۔اور اس تنظیم سے ملحق فیصل آباد کے جو ادکائٹ کلب نے فیصل آباد میں 18فروری کی تاریخ بسنت کے لئے مختص کی ہے۔
اور ان دونوں تنظیموں نے اپنے اس ”مشترکہ اعلامیہ“کی اطلاع ایک قد آدم سائز رنگین پوسٹر کے ذریعے دی ہے۔اس کے علاوہ یہ اعلان بھی کیا ہے کہ احمد بلاک گراؤنڈ گارڈن ٹاؤن لاہور میں 23مارچ کو یوم جمہوریہ کی خوشی میں پتنگ بازی کا ون ڈے ٹورنمنٹ بھی ہو گا۔
دوسری طرف پتنگ بنانے والے اس بات پر مصر ہیں کہ بسنت 20فروری کو منائی جائے گی۔اب اس بات پر دونوں میں”پیچا“پڑ گیا ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ کون اپنی ڈور اورعمارت پر بھروسہ کرتا ہے اور کون”کھچی “مار کریا تار اور تندی استعمال کرکے دوسرے کو ”بو“کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ہمارے ہاں اقتدار کے حصول کے لئے تار اور ”تندی“بھی استعمال کی جاتی ہے۔اور ”کھچی“مارنے کا رواج بھی 58ء سے چلا آرہا ہے ۔مگر جو اسپورٹس مین ہوں،ان سے تو اسپورٹ مین اسپرٹ ہی کی توقع کی جاسکتی ہے ۔کہ دونوں فریق مل کر بیٹھیں گے اور بسنت ایک ہی دن منانے کا فیصلہ کریں گے کیونکہ بسنت کوئی عید تو ہے نہیں کہ ایک شہر میں تین تین عیدیں ہوں۔
ویسے میرا ذاتی خیال ہے کہ بسنت کی”تاریخ“طے کرنے کا حق بسنت منانے والوں ہی کا ہے۔
پتنگیں بنانے والوں کا نہیں کہ دکاندار کو گاہک کی سہولت کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔مگر ان دنوں صورت حال کچھ مختلف ہو گئی ہے۔بل جمع کرانے والے باہر دھوپ میں لگی لمبی قطار میں جھلس رہے ہوتے ہیں ۔اور پیسے سمیٹنے والا اندر ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھا ہوتاہے۔اس حوالے سے ایک حکایت بھی مشہور ہے کہ ایک بادشاہ سلامت نے حکم دیا کہ اس کی سلطنت میں موجود ہر شہری کو روزانہ دس جوتے لگائے جائیں،چنانچہ حکم کی تعمیل شروع ہو گئی،ایک روز بادشاہ سلامت موقع پر معائنہ کے لئے تشریف لے گئے اور جوتے کھانے والوں سے پوچھا”آپ لوگوں کو کوئی شکایت تو نہیں ؟“جوتے کھانے والوں میں سے ایک نے جواب دیا”بادشاہ سلامت!آپ کے دور میں ایسے کس طرح ہو سکتا ہے۔
بس ایک گزارش ہے کہ جوتے مارنے والے عملے میں اضافہ کیا جائے۔کہ اپنی باری کے لئے انتظار بہت کرنا پڑتاہے
!“
میں بچپن میں خود بھی پتنگ باز رہا ہوں ۔اور اب بھی موقع ملے تو پیچالڑانے سے باز نہیں آتا ۔لہٰذا اس سارے معرکے میں ،میں خود بھی ایک فریق ہوں اور یوں میری خواہش ہے کہ فتح پیچا لڑانے والوں کی ہوکہ ان دنوں تندوتیز مخالف ہواؤں میں”پیچاڈالنا“کوئی آسان کام نہیں ،اس میں انگلیاں فگار ہوجاتی ہیں اور وہ بڑے دل گردے والے لوگ ہیں جو اس کام میں پڑتے ہیں۔
چنانچہ ”دکانداروں“کو اور کچھ نہیں تو ان کی قدر کرنا چاہیے۔
اور بالغرض محال اگر فریقین میں بسنت کی تاریخ پر اتفاق رائے نہ ہو سکے تو میرے اسی مداح کی رائے ہے جس کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ وہ بوجہ شرمندگی اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔پھر بسنت نہ 13کو منائی جائے اور نہ 20کو بلکہ اس کے لئے یکم فروری کی تاریخ طے کر دی جائے ۔ایک تو اس لئے کہ اسی دن تازہ تازہ تنخواہ ملی ہو گی اور دوسرے یکم فروری میرا یوم پیدائش ہے ۔
میرے اس بزدل مداح کا خیال ہے کہ اگر ایک عظیم شخصیت کا جشن ولادت منانا ہی ہے تو پھر یوم پیدائش پر اور کھل کر کیوں نہ منایا جائے،میں اپنے اس مداح کی رائے سے متفق نہیں ہوں مگر بزرگوارم ار شاد حقانی کی طرح اپنے قارئین کی اس نوع کی آراء کو نظر انداز کرنا بھی میں مناسب نہیں سمجھتا!

Browse More Urdu Adab