Shala Musafir Koi Na Thevey - Article No. 2543

Shala Musafir Koi Na Thevey

شالا مسافر کوئی نہ تھیوے - تحریر نمبر 2543

یہ عمر بھر کی مسافت ہے دل بڑا رکھنایہ لوگ ملتے بچھڑتے رہیں گے رستے میں

ہفتہ 29 فروری 2020

افسروں کے تقرروتباد لے یعنی پوسٹنگ کے ضمن میں اللہ میاں نے ایم ایس برانچ کو خصوصی اختیارات سے نواز رکھا ہے۔ ہم تو اپنے اور اپنے بے شمار جاننے والوں کے ذاتی تجربوں کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ افسر کی تعیناتی کبھی اس شہر میں نہیں ہوتی جس کے لئے اس نے اہل خانہ کے ہمراہ دل وجان سے دعائیں مانگی ہوتی ہیں۔ افسرکو چارو ناچاراسی پوسٹنگ پر آمنا وصدقنا کہنا ہوتا ہے جو اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتی ۔
بقول غالب :۔
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی ہمارا کوئی دم تحریر بھی تھا؟
تبادلے کے احکامات موصول ہوتے ہی تمام شہرا جنبی سا محسوس ہونے لگتا ہے اور’ چل اڑ جارے پنچھی ‘ کی طرح کے جذبات جاگنے لگتے ہیں۔ دریں اثنا چار کاموں کافی الفورآغاز ہوجاتا ہے یعنی رونادھونا، کلیرنس (1) پیکنگ اور ٹرک کی تلاش۔

(جاری ہے)

نئی پوسٹنگ پر بیگم کا رونا دھونا اپنی جگہ ایک مصمم حقیقت ہے۔

رونے دھونے کی شدت نئے اسٹیشن کے میکے سے فاصلے سے براہ راست اور سسرال سے فاصلے سے معکوس متناسب ہوا کرتی ہے۔ یہ سلسلہ کچھ دیر پر توزور وشور سے جاری رہتا ہے پھر دھیرے دھیرے بیمار کو قرار آہی جاتا ہے۔ یہ قرار بے وجہ نہیں ہوتا بلکہ اس کا باعث نئے شہر سے وابستہ شاپنگ کی معلومات ہوتی ہیں جو لیڈیز کلب کے توسط سے بیگم کے کانوں تک پہنچتی ہیں۔

یہ بات بھی تجربے سے ثابت ہے کہ حکومت سے پیسا وصول کرنا تو ناکوں چنے چبانے کے برابر ہے ہی البتہ سرکاری واجبات کی ادائیگی بھی جان جوکھوں میں ڈالنے سے کم نہیں ہوتی۔ کلیرنس کروانے کے لئے ایسے ایسے محکموں کے چکر لگانے پر پڑتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ جس دفتر کا آپ کو نام پتا تک معلوم نہیں ہوتا، اس کے بھی آپ کی طرف ہزار دو ہزار روپے نکلتے ہیں۔
چلتے چلتے جوتیاں گھس جاتی ہیں لیکن گوہر مقصود ہاتھ نہیں آتا۔ بقول شاعر:۔
ہو گیا مخمور راز زندگی کا انکشاف
موج آتی ہے فنا ہونے کو ساحل کی طرف
جس دفتر میں بھی کلیرنس فارم روانہ کیاجاتا ہے وہاں سے جواب ملتا ہے کہ بھیا ہم تو سب سے آخر میں دستخط کریں گے۔ یہ نکتہ ہماری سمجھ میں آج تک نہیں آیا کہ جب سب لوگ ہی آخر میں دستخط کریں گے۔ تو پھر پہلے کون کرے گا؟ جو افسران اس صحرا میں بذاتِ خود آبلہ پائی کرنے نکل پڑتے ہیں وہ ایک آدھ دن میں ہی گھبرا کر توبہ توبہ پکار اٹھتے ہیں اور یہ کام اپنے کسی سیانے ماتحت کو سونپ دیتے ہیں جو چند آزمودہ نسخے آزمانے کے بعد یہ مرحلہ طے کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
اگرچہ اس دوران افسر کی جیب خاطر خواہ حد تک ہلکی ہوچکی ہوتی ہے۔
سامان کی پیکنگ ایک انتہائی ٹیکنیکل قسم کا کام ہے اور ہم سے قسم لے لیجیے کہ یہ آئی ایس ایس بی پاس کرنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے ۔سو سوطرح کی مشکلات سے گزر کرہی بندہ اس کام میں مہارت حاصل کرپاتا ہے۔ ہر پوسٹنگ پر سامان کے لئے نئی پیکنگ بنوانی پڑتی ہے کیونکہ پرانی پیکنگ یا تو سٹور میں پڑی پڑی گل سڑ جاتی ہے یا ” نادیدہ قوتوں“ کے ہاتھ لگ کر غائب ہوجاتی ہے۔
اس مقصد کے لئے آرڈنینس والوں سے جان پہچان نکال کر پرانے کمبل بھی بہم پہنچائے جاتے ہیں اور بڑہئی سے کریٹ بنوانے کا فریضہ بھی سر انجام دیا جاتا ہے۔
سامان کو لاکھ حفاظتی پردوں میں لپیٹ دیا جائے تب بھی اس کے بحفاظت منزل مقصود تک پہنچنے کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ واقفان حال شاہد ہیں کہ جہیز کے آبگینوں کو معمولی سی ٹھیس بھی لگ جائے تو بیگمات کے لئے یہ صدمہ ابدی حیثیت اختیار کرجاتا ہے۔
ان تمام خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے پیکنگ کے لئے نہایت تجربہ کار ٹیم کا بندوبست کیاجاتا ہے۔ دھیرے دھیرے گھر کی چیزیں کمبلوں میں لپٹنا شروع ہوجاتی ہیں۔ جس گھر کو آپ نے دوتین سال تک بڑے ارمانوں سے سجایاہوتا ہے اسے یوں ویران ہوتا دیکھ کر سینے پر سانپ لوٹتے ہیں لیکن بادل نخواستہ یہ عمل جاری رکھا جاتا ہے۔
ان کی پرانی سے نئی چھاؤنی تک ترسیل کے لئے مناسب سواری کا بندوبست کرنا بھیریا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
یہ عمل لگ بھگ قربانی کا بکرا ڈھونڈنے جیسا ہی ہوتا ہے۔ افسر کی کوشش ہوتی ہے کہ اس مقصد کے لئے کوئی کم خرچ بالانشین قسم کا بکرا یعنی ٹرک میسر ہوجائے چنانچہ تمام دوستوں ، عزیزوں اور واقف کاروں کو ٹرک والوں سے گفت وشنید کرنے کا فریضہ سونپ دیا جاتا ہے۔ مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ نئے شہر کانام سنتے ہی ٹرک والے جو رقم طلب کرتے ہیں اُس سے بہتر تو یہ ہے کہ بندہ تمام سامان فقیروں میں تقسیم کر کے خالی ہاتھ نئی جگہ پہنچ جائے اور وہاں جا کر پورے کا پورا سامان دوبارہ خرید لے۔
لیکن کیا کریں یہ عمل چاہتے ہوئے بھی ممکن نہیں ہوتا کیوں کہ اس سامان میں وافر حصہ بیگم کے جہیز کا ہوتا ہے جس سے جدائی انہیں کسی طور گوارا نہیں ہوتی ۔
کافی ردوکد کے بعد بجٹ سے ڈیڑھ گنارقم میں ایک عدد ٹرک مہیا ہو ہی جاتا ہے۔ خدا خدا کر کے وہ دن آہی جاتا ہے جب ٹرک گھر کے دروازے پر آن موجود ہوتا ہے۔ اب سامان کو ٹرک میں لادنے کا آغاز ہوتا ہے جو کہ اس کاروائی کا مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے۔
سامان کو ایک خاص ترتیب سے مرحلہ وار ٹرک میں سوار کیا جاتا ہے۔ اس دوران صوفے کی جگہ بنانے کی کوشش میں فرج سوار ہونے سے رہ جاتا ہے اور جہیز کی پیٹی کو ترجیح دیں تو ڈائننگ ٹیبل کو نیچے اتارنا پڑتا ہے۔ اس مرحلے پر بیگم ہمارے کتابوں والے ٹرنک کو سوسو صلواتیں سناتی ہیں اور اسے ٹرک بدر کرواکے ہی دم لیتی ہیں۔ تمام تر کوشش کے باوجود آخر میں بہت ساسامان بچ جاتا ہے جسے موقع پر ہی مستحقین میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔
بالآخر ٹرک روانہ کرکے افسر اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پرانے گھر پر الوداعی نظر ڈالتا ہے اور ذاتی گاڑی میں نئے شہر کے لئے عازم سفر ہوجاتا ہے۔ بقول شاعر:۔
تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں
نئی جگہ پہنچ کر سامان کو کسی خالی گودام میں رکھوایاجاتا ہے۔ سرکاری رہائش گاہ میسرہونے تک کا عرصہ میس کے ایک کمرے والے مہمان خانے میں گزارا جاتا ہے۔
ایسا بھی ممکن ہے کہ ایک چھاؤنی میں آپ کو چار بیڈروم کا گھر مل جائے جب کہ دوسری میں آپ دو کمروں کے فلیٹ میں ڈیرہ جمانے پر مجبور ہوں۔ ایسے میں ہر بار پردے اور قالین کمروں کے سائزسے چھوٹے بڑے ہوجاتے ہیں جنہیں کانٹ چھانٹ کر مطلوبہ شکل دی جاتی ہے۔ گھر ملتے ہی اسے نئے سرے سے رنگ روغن کروا کر بڑے چاؤ سے تیار کیاجاتا ہے۔ تمام اشیاء کی پیکنگ کھولی جاتی ہے۔
ٹوٹی ہوئی اشیاء پر آنسو بہائے جاتے ہیں اور بچ جانے والی چیزوں پر شکرانے کے نوافل پڑھے جاتے ہیں۔ گھر کو نئے شہر کی مناسبت سے خوب سجایا سنوارا جاتا ہے ، فون، کیبل، بجلی، گیس کے کنکشن لگوائے جاتے ہیں اور بچوں کو سکولوں میں داخل کروایا جاتا ہے۔ زندگی نئے سرے سے شروع ہوتی ہے، پرانے دوستوں کو بھلاکر نئے دوست بنائے جاتے ہیں اور نت نئی دلچسپیاں اختیار کی جاتی ہیں۔ وقت پر لگاکر اڑتا رہتا ہے، دوسال پلک جھپکتے بیت جاتے ہیں اور پھر اچانک ایک دن بیٹھے بٹھائے ایک انجان جگہ پر تبادلے کے احکامات موصول ہوجاتے ہیں۔
میں وہ مسافر دشت غم محبت ہوں
جو گھر پہنچ کے بھی سوچے کہ گھر نہیں آیا

Browse More Urdu Adab