Sharmindagi - Article No. 2503

Sharmindagi

شرمندگی - تحریر نمبر 2503

وہ چہرے سے پر امید نظر آرہا تھا۔گھر کی بہو بیٹیاں پریشانی کی حالت میں اپنے بزرگ کو الوداع کرنے کے لئے گھر سے باہر آچکی تھیں۔

حافظ مظفر محسن ہفتہ 14 دسمبر 2019

وہ چہرے سے پر امید نظر آرہا تھا۔گھر کی بہو بیٹیاں پریشانی کی حالت میں اپنے بزرگ کو الوداع کرنے کے لئے گھر سے باہر آچکی تھیں۔چھوٹے بچے اپنے دادا کو بڑے غور سے دیکھ رہے تھے اور طرح طرح کے سوالات کا سلسلہ بدستور جاری تھا۔رحمو بابا سوال کا بڑا تسلی بخش جواب دے رہا تھا۔میرے ذہن میں طرح طرح کے سوالات سر اٹھا رہے تھے۔وہ لوگ بارہ بجے سے کھڑے تھے اوررحمو بابا اگر چہ اپنے اہل خانہ کے درمیان کھڑا گفتگو میں مصروف تھا مگر اس کی نظریں بار بار مشرق کی جانب اٹھ رہی تھیں۔
اسے شاید کسی کا انتظار تھا؟شاید وہ اس سفر پر جانے سے پہلے اپنے کسی نہایت قریبی عزیز سے لازمی مل کر جانا چاہتا تھا۔
”حالانکہ میں نے انیس بیٹے کو بتایا بھی تھا․․․․․مگر وہ ابھی تک نہیں آیا․․․․․․نہ جانے کیوں؟“رحمو بابا کی بیوی نے مشرق کی طرف گلی کے موڑ پر نظریں جماتے ہوئے کہا۔

(جاری ہے)


اس دوران رحمو بابا کے ایک پوتے نے آگے بڑھ کر گلاب کے پھولوں کا ایک ہار بابا کے گلے میں ڈالا اور ماحول پر بجائے خوشی کے مزید اداسی چھا گئی۔

ایسے میں رحمو بابا کی بہو بھاگم بھاگ گھر کے اندر گئی۔سب نے اشاروں ہی اشاروں میں کچھ بات کی اور پھر سر گوشیوں میں مشغول ہو گئے۔
شاید رحمو بابا کونسلر کا الیکشن لڑنا چاہتا تھا اور وہ کاغذات نا مزدگی داخل کرانے جا رہا ہو؟میرے ذہن میں خیال آیا مگر پھر میرے سامنے رحمو بابا کی خاندانی حیثیت اور شرافت کی ایک فلم سی گھوم گئی رحمو بابا اور اس کے خاندان میں سے کسی کو بھی”سیاست“کی بیماری نہیں ویسے بھی سیاست کا جراثیم ایڈز کے جراثیم سے کافی مختلف ہے ایڈز کا جراثیم تو دس سال تک چھپا بیٹھا رہتاہے اور جب دل چاہے نمودار ہوتاہے اور مریض کو تہس نہس کر دیتاہے مگر سیاست کے جراثیم تو پیدا ہوتے ہی اثر دکھاتے ہیں اور مسجد میں دکان پر،محلے میں،یہاں تک کہ گھر میں بھی بندہ اپنی حرکات سے ثابت کردیتاہے کہ فلاں شخص”سیاست زدہ“ہے اور لوگ سیاست کے مریض سے جان چھڑانے کی فکر میں رہتے ہیں مگر جس سے دور کا بھی تعلق واسطہ نہ ہو‘سیاسی مریض آگے بڑھ کر بغلگیر بھی ہو جاتاہے اور ماں باپ کی صحت تک دریافت کرنے لگتاہے خواہ ملاقاتی کے ماں باپ سالہا سال پہلے وفات پا چکے ہوں!
پھر ایک دم سے میرے ذہن میں آیا کہ شاید رحمو بابا حج پر جارہا ہو میرے سامنے 1967ء کا زمانہ آگیا کہ جب حج پر جانے کے لئے قرعہ اندازی ہوا کرتی تھی میں اس وقت پرائمری سکول میں پڑھتا تھا میں صبح صبح سکول جارہا تھاکہ مسجدکے مولوی صاحب اور دوسرے لوگ مجھے راستے میں روک کر مبارکباد دینے لگے۔
میں نے اس فوری مبارکباد کا سبب پوچھا تو انہوں نے خوشی سے بتایا کہ تمہارے دادا جان کا نام قرعہ اندازی میں حج کے لئے نکل آیا ہے اور اس پورے علاقے میں تمہارے دادا جان اور دادی اماں واحد(بلکہ جمع)خوش نصیب ہیں کہ جن کا نام حج کے لئے قرعہ اندازی میں نکلا ہے۔
”ہم نے رات مسجد سے اعلان بھی کروایا تھا“․․․․․مولوی صاحب نے مجھے بتایا اور پھر میرے کان کے سامنے منہ جوڑ کر آہستہ سے کہا۔

”’انہیں کہنا آتے وقت مکہ مدینہ شریف سے میرے لئے کھجوریں،آب زم زم اور ”توپ“بھی لیتے آئیں“
”توپ․․․․․․“میری ہنسی نکل گئی۔مولوی صاحب”آپ“اور ․․․․․․”توپ “مولوی صاحب نے میرا کان کھینچا ”ارے الو․․․․․․یہ”توپ“اس لمبی قمیض کو کہتے ہیں جو عرب میں لوگ پہنتے ہیں۔“
اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی کافی شرمندہ ہوا۔
مگر رحمو بابا حج پر کیسے جا سکتاہے؟یہ تو ربیع الاول کا مہینہ ہے!میری پریشانی بڑھتی جارہی تھی شاید رحمو بابا ویسے ہی سعودی عرب جارہا ہو۔
”کمائی“کے لئے․․․․․․مگر ایک ستر سالہ شخص اس عمر میں سعودی عرب یا دبئی جا کر کیا کرے گا؟
میرے ذہن میں بڑی کشمکش تھی اور خواہ مخواہ کی پریشانی بھی مگرمیں ٹھہرا ”مخصوص“قسم کا محلے دار۔یہ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ محلے دار کو اپنے بچے کی خبر ہو نہ ہو وہ اپنے ہمسائے کے بچوں کی پل پل کی خبر رکھتاہے۔محلے دار خواہ کتنا ہی چھپا کر بسنت پر ڈور لگوائیں مگر بسنت سے ایک رات پہلے”ٹوہ“میں رہنے والوں کو پتہ چل جاتاہے کہ فلاں محلے دار نے”5ریچھ “ماڈل کی ڈور لگوائی ہے“”3پانڈے“کی ۔
اپنا بیٹا خواہ”ہیروئن“پی رہا ہو۔خیر ہے مگر محلے دار کے بچے نے سادہ پنسل سگریٹ پینے کے انداز میں منہ سے لگائی ہو ہمسائے میں سو کہانیاں بن جاتی ہیں۔
اچانک ہر طرف خوشی کی لہر دوڑ گئی۔رحمو بابا کے چہرے پر بھی پہلے سے زیادہ سرخی چھا گئی۔ماحول میں خاصی”گرمی“پیدا ہو چکی تھی۔مشرق سے میں نے رحمو بابا کے بیٹے کو آتے دیکھا۔”انیس“تیز تیز موٹر سائیکل چلاتا ہوا آرہا تھا۔

”ابا جی“وہ اپنے باپ سے چمٹ گیا۔
”تو بھول گیا تھا․․․․․میرے بچے․․․․․کہ آج میں نے جانا ہے“رحموبابا نے اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں اباجی․․․․․․اصل میں،میں نے آدھی چھٹی کے لئے اپنے افسر کو صبح ہی درخواست دے دی تھی مگر”داتا دربار“کے پاس ٹریفک روز کی طرح رکی ہوئی تھی۔لوگ تو اب بھی ٹریفک کے ہجوم میں پھنسے ہوں گے مگر مجھے آپ کی تڑپ کھینچ لائی۔

انیس جو ایک سست طبیعت آدمی ہے،آج بھاگم بھاگ کام کررہا تھا جیسے آخری جائزہ لے رہا ہو سارے”انتظامات “کا۔
سب خاموش تھے۔ایسے میں بھاگتی ہوئی رحموبابا کی بہو باہر آئی۔اس کے ساتھ میں ایک خوبصورت تھرماس تھی اس نے ادب سے ”تھرماس“رحمو بابا کے ہاتھ میں تھما دی۔
”ابا جی․․․․․ساڑھے پانچ بجے تھکاوٹ محسوس ہوتو اس میں چائے ہے“ضرور پیجئے گا۔
اب لوگ ہاتھ ہلا ہلا کر رحمو بابا کو خدا حافظ کہہ رہے تھے۔رحموبابا بھی مسکرا مسکرا کر مگر کسی گہری سوچ میں گم اپنے بچوں کو ہاتھ ہلا ہلا کر پیار کا جواب پیار سے دے رہا تھا۔
یا اللہ خیر․․․․․ مجھ سے رہا نہ گیا۔میری طبیعت دیدنی تھی․․․․․میں نے بڑھ کر انیس کو بلایا اور ایک طرف لے جاکر آہستہ سے پوچھا
”انیس بھائی خیر ہے․․․․․باباجی ․․․․․․کہاں جارہے ہیں؟دبئی یا سعودی عرب؟“
”ارے ارے․․․․․․ نہیں ․․․․․․․نہیں محسن بھائی ۔اباجی تو” بجلی کا بل “جمع کرانے جارہے ہیں بینک میں․․․․․“ اور میں” شرمندہ ہو گیا․․․․․․حالانکہ” شرمندہ“ تو واپڈا والوں کو ہونا چاہئے۔مگر انہیں اس کی فرصت کہاں․․․․․“اس لوڈشیڈنگ“ کے زمانے میں؟

Browse More Urdu Adab