Yeh Imtehan Hain Kiya.... - Article No. 2633

Yeh Imtehan Hain Kiya....

یہ امتحان ہیں کیا․․․․ - تحریر نمبر 2633

پاکستان میں امتحانات کے انعقاد اور انتظامات میں اتنے نقائص پائے جاتے ہیں کہ تعلیم کے معیار کا اندازہ امتحانات کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے

پیر 16 نومبر 2020

سید عارف نوناری
امتحانات کی اہمیت و ضرورت سے اس لئے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان کے سبب ہی حصول تعلیم کے مقاصد پورے ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں امتحانات کے انعقاد اور انتظامات میں اتنے نقائص پائے جاتے ہیں کہ تعلیم کے معیار کا اندازہ امتحانات کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے تو پھر کیوں نہ تعلیم ناقص ہو۔ اگر سوچا جائے تو حکومت امتحانات میں پائے جانے والے نقائص و کمزوریوں سے آگاہ ہے اس آگاہی کے باوجود خاموشی سے تماشائی کی طرح تماشا دیکھ رہی ہے۔
ایسا کب تک ہو گا اور کیوں ہوتا ہے اور حل کیوں تلاش نہیں کیا جاتا ہے۔ ان سب چیزوں کا جواب موجود ہے کیونکہ سوال کو سوال تصور کیا نہیں جاتا ہے۔ امتحانات میں ایسی باتیں شروع سے چلی آرہی ہیں وقت کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق ان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

امتحانات میں نقائص سے تعلیمی پستی اور تعلیمی پستی سے سیاسی و سماجی معاشی اور روحانی پستی یقینا ہے پھر ایسی صورت میں ترقی کا تصور کرنا بے وقوفی ہے۔

پاکستان میں جتنے بھی مسائل موجود ہیں ان کی جڑ تعلیم میں نقائص اور پستی ہے اس پستی کی بنیاد امتحانات میں ناجائز ذرائع کے استعمال میں مختلف ہتھکنڈے ہیں۔
امتحانات میں انتظام اور انعقاد کا طریقہ کار یکسر غلط ہے نقل کے ذرائع استعمال میں لائے جاتے ہیں بلکہ نقل کے لئے نگران حضرات خود ایسے مواقع مہیا کرتے ہیں کہ امیدوار آسانی سے نقل سے کام لے سکیں۔
نگران حضرات کے تقرر میں بڑی عجلت سے کام لیا جاتا ہے۔ امتحان ایم اے کا ہوتا ہے نگران پرائمری سکول کے ٹیچرز یا کلرک ہوتے ہیں ان کو ایم اے کے بارے میں یا بی اے کے بارے میں پتہ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ ان امتحانات کی اہمیت سے واقف ہوتے ہیں۔ یہ شعبہ تعلیم پر ایک دھبہ ہے۔ اگر امتحانات کے انتظامات میں اصلاحی پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر نقائص کو رفع کر دیا جائے تو شاید تعلیم کے معیار میں بہتری کے ساتھ ملک کے معیار میں تبدیلی ممکن ہو جائے پاکستان کا تعلیمی نظام جس ڈگر پر چل رہا ہے اس سے اترنا نا صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن بھی ہے۔

ذہنی خیالات میں تبدیلی ہی سے مادی حالات میں تبدیلی ہوتی ہے۔ امتحانات کے بارے میں اگر کچھ نقائص کو زیر بحث میں لایا جائے تو وہ حقائق بڑے تلخ ہیں۔ امتحانات میں نگران افراد سے سودے بازی عام ہوتی ہے۔ سنٹر کے سنٹر بک جاتے ہیں۔ عملہ میں بہت سے لوگ سوالات کے جوابات حاصل کرکے لڑکوں سے منہ مانگے دام لیتے ہیں۔ نگران حضرات دیانت داری سے نہ تو کام لیتے ہیں اور نہ ہی باضمیر ہوتے ہیں۔
خاص کر ایم اے کمپوزٹ میں اتنا ناقص انتظام دیکھنے کو ملتا ہے کہ شاید پہلی جماعت کے بچوں کے امتحانات میں نظم و نسق اس سے بہتر ہو۔ امتحانات میں جو نقائص نظر آتے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں ان کی اصلاح یا درستگی تو محکمہ تعلیم ہی کا کام ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ حکومت ان باتوں کو جانتے ہوئے بھی نظر انداز کر دے اور ملک کے تعلیم کے شعبہ پر اور درستگی پر توجہ دے ورنہ وہ دن دور نہیں جب اکیسویں صدی کے خاتمہ پر ملک ہر لحاظ سے کھوکھلا ہو چکا ہو گا۔

تعلیم میں اضافہ درکار نہیں بلکہ مضبوطی اور حقیقی معیاری تعلیم کی ضرورت ہے معیار تعلیم ہی معیاری و تعمیری افراد کو پیدا کرتا ہے۔ اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کے ہر شعبہ کا تجزیہ کریں تو ہمیں سب سے عیاں بات جو نظر آتی ہے وہ یہ ہی ہے کہ وہاں تعلیم پر اس طرح سے توجہ دی جاتی ہے کہ شاید کسی اور منصوبہ پر توجہ نہ دی جاتی ہو۔ تعلیم میں اصلاحی پہلوؤں کو خاص طور پر توجہ سے حل کیا جاتا ہے۔
بچوں کو عملی طور پر تعلیم دی جاتی ہے۔پاکستان میں اس کے برعکس نظریاتی تعلیم دی جاتی ہے اور وہ بھی نہ ہونے کے برابر۔ کیا اس طرح ملک کو بہتر قیادت نصیب ہو گی‘ہر گز نہیں۔ سب سے اہم مسئلہ جس پر نہ توجہ دی گئی ہے بلکہ کاغذی کارروائیوں تک محکمہ تعلیم کو محدود کیا گیا حکومت اگر پوری دیانت داری سے تعلیم کو تعلیم کا مقام دلائے تو ملک ہر لحاظ سے پستی سے نکل کر بلندیوں کو چھونے لگے۔
پست تعلیم اور معیاری تعلیم میں بہت فرق ہے۔ طلبہ میں جذبہ قومیت ہی ملک کو ایک سچی اور راست راہ پر گامزن کر سکتا ہے تعلیم کے موضوع پر بہت سے کالم لکھے جا چکے ہیں ہر ایک نے اپنے اپنے نقطہ نظر کو محدود نظریات میں پیش کرکے تعلیم کے بعض نقائص پر پردہ پوشی بھی کی ہے۔
اصل مسئلہ جو ہم سب کے سامنے ہے وہ یہ کہ تعلیم پر لوگوں کی توجہ کیوں کم ہے طلبہ بھی اپنی کتابوں سے مخلصی کیوں نہیں برتتے ہیں اس کا اصل سبب غیر یقینی مستقبل ہے کیونکہ بے روزگاری عام ہے۔
توجہ طلب بات ہے کہ یہ مسائل بہت دیر سے چلے آرہے ہیں۔ ہر حکومت نے اس کا خاتمہ یا تناسب میں کمی کے بلند و بانگ دعوے کئے لیکن نتیجہ وہی رہا جو پہلے ہے۔ اصل میں حکومتی اقدامات و اصلاحات اتنی پر اثر نہیں ہوتیں۔ طریقہ امتحانات کی بہتری کے لئے موٴثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ امتحانات میں عملہ کی تعیناتی کرتے وقت سخت شرائط و ضوابط طے کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ جس امتحانات کے صحیح انعقاد کے مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں۔ اور بوٹی مافیہ کا خاتمہ بھی ممکن ہو سکتا ہے ۔ اس سلسلہ میں یورپی ممالک کے طریقہ امتحانات کو اپنانا ضروری ہے۔

Browse More Urdu Adab