موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچائو کے لئے پاکستان کے پہاڑی علاقوں کے لئے خطیر فنڈز مختص کئے جائیں

پہاڑوں کے عالمی دن کے حوالے سے منعقدہ کانفرنس میںمقررین کا اظہارخیال

جمعہ 13 دسمبر 2019 23:40

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 دسمبر2019ء) کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد میں پہاڑوں کے عالمی دن کے حوالے سے کثیر المقاصد ایک روزہ کانفرنس میںمقررین نے حکومتی اور بین الاقوامی شراکت داروں پر زور دیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچائو کے لئے پاکستان کے پہاڑی علاقوں کے لئے خطیر فنڈز مختص کرنے کو یقینی بنایا جائے۔

یہاں جاری پریس ریلیز کے مطابق مقررین نے کہاکہ شہری علاقوں سے دور ہونے کی وجہ سے پہاڑی علاقے نظر انداز شدہ علاقے ہوتے ہیں اور موسمی تبدیلیوں کے اثرات سے یہ علاقے متاثر ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ پسماندگی کا شکار ہوتے ہیں۔ ’’پہاڑی علاقوں کے نوجوانوں کے مسائل‘‘ کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس کے شرکاء نے حکومت اور بین الاقوامی ترقیاتی شراکت داروں سے مطالبہ کیا کہ موسمیاتی تغیرات سے نمٹنے کیلئے پاکستان کے پہاڑی علاقوں کیلئے خاطر خواہ فنڈ مختص کئے جائیں، موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے پہاڑی علاقوں کے رہائشیوں کی مشکلات بھی شہروں اور میدانی علاقوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہیں۔

(جاری ہے)

کانفرنس کا اہتمام ڈیوکام پاکستان نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) واٹر ایڈ، آب و ہوا کی تحقیق و ترقی کے ادارہ (سی سی آر ڈی) اور پاکستان تخفیف غربت فنڈ (پی پی اے ایف) نے باہمی اشتراک سے کیا۔ جس کی صدارت فیڈرل فلڈ کمیشن (ایف ایف سی) کے چیئرمین احمد کمال نے کی۔ کانفرنس کے افتتاحی سیشن میں آب و ہوا میں تبدیلی اور قدرتی آفات کے خطرات کو کم کرنے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔

اجلاس میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم ای) کے ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن کے رکن ادریس محسود، سی سی آر ڈی کے اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر انجم رشید ، بائیو ڈائیورسٹی کے ڈائریکٹر نعیم اشرف راجہ، ایس ڈی پی آئی کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر عمران ثاقب خالد اور دیگر نے سیلاب سے نمٹنے، سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے امکانات کو کم کرنے اور سیلاب کو کم کرنے کیلئے تجاویز پیش کیں۔

ایف ایف سی کے چیئرمین احمد کمال نے شرکاء سے خطاب میں کہا قومی فلڈ پروٹیکشن پلان IV پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کے سیلابوں کے اثرات، ماضی کے سیلاب سے متعلقہ منصوبوں میں رکاوٹوں، تکنیکی خامیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں مومسمیاتی تبدیلیوں کے باعثگلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے اور طوفانی بارشوں کی وجہ سے بہت نقصانات ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پہاڑی علاقوں کے باسیوں کی مشکلات کو کم کرنے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کیلئے مقامی نوجوان اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کانفرنس کے دوسرے سیشن میں واٹر ایڈ پالیسی اینڈ ایڈوکیسی کے سربراہ ندیم احمد، وزارت موسمیاتی تبدیلی کے سابق ڈائریکٹر جنرل محبوب الہی، ہیلتھ سروسز اکیڈمی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر اعجاز اور فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی کی شعبہ ماحولیاتی سائنس کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر صوفیہ خالد نے ’’پینے کے صاف پانی اور نکاسی کے حق‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔

شرکاء سے خطاب میں واٹر ایڈ پالیسی اینڈ ایڈوکیسی کے سربراہ ندیم احمد نے کہا کہ پاکستان میں ہر شہری کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق صاف پانی کی فراہمی کی یقینی بنانے کیلئے خطیر فنڈز کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی تقریباً 42 فیصد آبادی آلودہ پانی کے استعمال پر مجبور ہے۔ شکیل رامے نے کہا کہ پہاڑی علاقوں کے تقریباً 40 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جن کی بہتری کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں