امید ہے حکومت یکساں نصاب تعلیم کے نفاذ کا وعدہ پورا کرے گی‘ڈاکٹر حسین محی الدین

برٹش ایجوکیشن سسٹم کے جبری نفاذ سے برصغیر میں تقسیم،نفرت،عدم مساوات اور متشدد رجحانات نے جنم لیا صدر منہاج القرآن کا الحمرا ہال میں’’ تھنک فیسٹ فورم‘‘ میں انتہا پسندی کے موضوع پر اظہار خیال

ہفتہ 12 جنوری 2019 23:13

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 جنوری2019ء) صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل منہاج یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز کے ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے ’’تھنک فیسٹ فورم‘‘(افکار تازہ) دو روزہ کانفرنس میںسائوتھ ایشیا میں انتہاپسندی کے تناظر میں منعقدہ سوال و جواب کے سیشن میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ1857 کے بعد برٹش ایجوکیشن سسٹم کے جبری نفاذ سے برصغیر میں تقسیم،نفرت،عدم مساوات اور متشدد فرقہ وارانہ رجحانات نے جنم لیا اور مسلمانوں کو دیوار سے لگایا گیا۔

بد قسمتی سے ڈیڑھ سو سال گزر جانے کے بعد بھی ذمہ داروں نے یکساں نصاب تعلیم کی اہمیت کو نہیں سمجھا اور اس خطے سے’’ قابضین‘‘ کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی انکی پالیسیاںبذریعہ نظام تعلیم ہماری معیشت، معاشرت اقدار و روایات کو متاثر کرتی رہیں اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔

(جاری ہے)

ہم ایک قوم کے طور پر اپنا اسلامی ،قومی اور بین الاقوامی کردار ادا نہ کر سکے۔

موجودہ حکومت نے یکساں نصاب کے نفاذ کی بات کی ہے ہم دعا گو ہیں کہ وہ اس وعدے کو بلا تاخیر پورا کریں۔تھنک فیسٹ فورم الحمرا ہال میں منعقد ہوا اور مختلف یونیورسٹیز،کالجز کے طلباء و طالبات اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت اور انتہا پسندی کے حوالے سے سوالات کئے،میزبانی کے فرائض معروف تجزیہ نگار ،کالم نویس،دانشور سلمان عابد نے ادا کئے۔

ڈاکٹر حسین محی الدین نے کہاکہ اس وقت برداشت کی نہیں محبت کے جذبات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے،لفظ برداشت کے اند ربھی ایک تلخی ہے کیونکہ برداشت با امر مجبوری کیا جاتا ہے اور آجکل صرف برداشت ہی کیا جا رہا ہے۔برداشت کے رویے کو پروان چڑھانے سے دہشتگردی ختم نہیں ہو گی۔انہوں نے کہا کہ یہ قانون فطرت ہے کہ قوموں کے رہنما جو سیاسی،سماجی،اخلاقی اصول و اقدار متعین کرتے ہیں ان میں بتدریج کمی واقع ہوتی رہتی ہے اور وہ ضوابط آئندہ نسلوں تک روح کے مطابق منتقل نہیں ہو پاتے،آج اگر مذہبی سیاسی رہنما باہم احترام اور محبت کے رشتے میں بندھیں گے تو آئندہ نسلوں میںاختلاف رائے کے باوجود احترام اور رواداری ہو گی اور اگر آج رہنما ایک دوسرے سے نفرت کرینگے توہین و تضحیک سے کام لیں گے تو آئندہ نسلیں ایک دوسرے کی عزت اور جان کے درپے ہونگی۔

ڈاکٹر حسین محی الدین نے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ تمام تر عالمی،علاقائی آپریشنل اقدامات کے باوجود دہشتگردی ختم نہیں ہوئی،قومی جسم میں اسکا وائرس موجود ہے اس وائرس کو جب ساز گار ماحول میسر نہیں آتا تو یہ’’سائیلنٹ ‘‘ ہوجاتا ہے اور جیسے ہی موقع ملتا ہے متحرک ہو جاتا ہے۔آج کے دن تک قومی جسم کو لاحق دہشتگردی کے وائرس کا علاج نہیں کیا گیا،صرف علامات کو دبانے کی کوشش کی گئی،دہشتگردی کا وائرس فرقہ واریت، نفرت پر مبنی نظام تعلیم،نا انصافی اور عدم مساوات کے ماحول میں پرورش پاتا ہے جب تک ان بنیادی مسائل کو حل نہیں کیا جاتا اس وقت تک انتہا پسندی کا مکمل خاتمہ نا ممکن ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اسلام کا انتہا پسندی سے کوئی واسطہ نہیں تا ہم بد قسمتی سے مسلمانوں کے ایک حصے کے ا ندر انتہا پسندی جگہ بنا چکی ہے۔انہوںنے کہا کہ کوئی ڈاکٹر،وکیل،فارماسسٹ یہاں تک کے کوئی ایک ڈسپنسر بھی ڈگری اور حکومتی اجازت کے بغیر کام نہیں کرسکتا مگر اخلاق اور عقیدے کی اصلاح کا کام بغیر کسی ڈگری اور اجازت کے ہو رہاہے۔یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ طب کے ساتھ ساتھ مذہب کے اندر سے بھی عطائیت کو ختم کرے تاکہ ملک سے فرقہ واریت اور آگ اور خون کا کھیل ختم ہو سکے۔

ڈاکٹر حسین محی الدین نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ 3دہائی قبل مذہبی اختلاف علم کی بنیاد پر تھا جب سے مدارس کی سیاسی اور معاشی وابستگیاں قائم ہوئی ہیں تب سے مذہبی اختلاف نے جنگ و جدل کی شکل اختیار کر لی ہے۔اسکا تدارک کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کروانا عوام اور سول سوسائٹی کی ذمہ داری ہے ۔انہوںنے کہاکہ یہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے کہ 80فی صد مدارس کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے جڑے ہوئے ہیں اور بڑھتے ہوئے تشدد اور انتہا پسندی کی یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے۔

انہوں نے اہم ایشو پرنوجوانوں کے ساتھ علمی مباحثہ رکھنے پر ’’تھنک فیسٹ فورم‘‘ کو مبارکباد دی اور کہا کہ نوجوانوں کی فکری اصلاح کیلئے اس نوع کا مکالمہ وقت کی ناگزیر ضرورت ہے ہمیں اپنے نوجوانوں کی سمت کو درست کرنا ہے قطع نظرا س کے کہ ہم دوسروں کے معاملات میں خود کو الجھائے رکھیں۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں