Naheed Niazi Aakhri Qist

Naheed Niazi Aakhri Qist

ناہید نیازی آخری قسط

سُر اور سُندرتاکا حسین امتزاج اُن کی آواز المیہ اور طربیہ گانوں کیلئے یکساں موزوں تھی

پیر 29 اپریل 2019

 ڈاکٹر امجد پرویز
سوال:آپ میرا سوال سمجھ نہیں پائیں،جس گانے”ایک بات سناتی ہوں“کا تذکرہ کیا جارہا ہے وہ گیتادت کی ہی آواز میں ہے جس کا لنک میں نے آپ کو بھیجا ہے بلکہ تین یا چار اور گانے بھی ان کی آواز میں اس فلم میں شامل ہیں جو کہ 78رفتار کے ریکارڈ میں موجود ہوا کرتے تھے۔چونکہ اس فلم کا پرنٹ موجود نہیں ہے تو افواہ یہ تھی کہ یہ گانے فلم کے لیے آپ نے گائے تھے(جس کی آپ نے تردید کردی ہے )۔
ہو سکتا ہے منور سلطانہ یازبیدہ خانم نے گائے ہوں؟
جواب:جب میں نے فلمی دُنیا میں قدم رکھا تھا تو شاید”مس 56“ریلیزہوگئی ہو۔لیکن فلمی حلقوں میں اس فلم کا کہیں ذکر نہیں ہوتا تھا اور گیتادت کے گانوں کی شمولیت ایک بڑی خبر تھی جس کا بھی کہیں تذکرہ نہ کیا جاتا تھا۔نہ ہی اس بات کا ذکر کیا جاتا تھا کہ باباچشتی ان گانوں کی ریکارڈنگ کے لیے بھارت گئے تھے ۔

(جاری ہے)

چونکہ مجھے اس معاملے کا قطعی کوئی علم نہیں اور نہ ہی مجھے فلم ”مس 56“کا علم ہے اس لیے میں مزید کچھ کہنے سے قاصر ہوں ۔ہو سکتا ہے یہ گانے ان بھارتی فلموں کے ہوں جن میں یہ استعمال نہ کیے گئے ہوں۔ ان موسیقاروں کو بھی بعد میں خبر ملتی تھی کہ ایسے گانوں کو ان سے منسوب کیاجاتا رہاہے۔
(نوٹ!ڈاکٹر بخاری جو کہ پاکستانی میوز یکالو جسٹ ہیں ،وہ فرماتے ہیں کہ متذکرہ گانا اور دوسراگانا”ایرے غیرے نتھو خیرے“گیتادت نے ہی گائے ہیں۔
دوعددگانے پاکستانی گلوکار مہدی حسن کے ساتھ نذیر بیگم نے گائے ہیں ۔ان کے مطابق سولوگانے پاکستان میں فلم کی ریلیز کے لیے منور سلطانہ اور ناہید نیازی (جوکہ انہوں نے تردید کی اور ویسے بھی ناہید کے فلمی کیرےئر کی شروعات 1957ء میں ہوئی تھی)۔چونکہ اس فلم کی ہدایتکاری بھارتی ہدایتکارروپ کے شوری نے پاکستان آکر دینی تھی جو کہ اداکارہ مینا شوری کے شوہر تھے اور وہ فلمساز جے سی آنند کی دعوت پر پاکستان آئے تھے ۔
اس لیے ہو سکتا ہے وہ بھارت میں ہی یہ گانے ریکارڈ کرکے آئے تھے۔مزید یہ کہ یوٹیوب پر جب میں نے گانا”اِک بات سناتی ہوں“سنا تو وہ لازماً گیتادت کی آواز میں ہی ہے اور دُھن کا انداز بھی بابا چشتی کا نہیں لگتا)
سوال:کیا فلم”ایاز“(1960ء)کا گانا”مل گیا دل کا قرار “پہلا ریکارڈ کیا گیا گاناہے؟
جواب:اس سوال کا جواب دینا ایک لمبی کہانی سنانے کے مترادف ہے ۔
اس وقت یہ کہنا کافی ہو گا کہ میں لاہور 7جنوری1957 ء کو پہنچی تھی اور یہ گانا 11جنوری 1957ء کو ریکارڈ ہو گیا تھا۔10جنوری 1957ء کو میرا بیاہ بھی ہونا تھا۔خورشید انور صاحب کے ساتھ میری پہلی ملاقات ان کے دفتر میں ہوئی۔روایت سے ہٹ کر ایک سارنگی نواز (وہ ہارمونیم نہیں بجاتے تھے)کے ہمراہ انہوں نے مجھے گیت کی ریہرسل کروائی ،پھر انہوں نے میرے انکل سے کہا کہ ریکارڈنگ اگلے روز ہو گی اور انہیں سازندوں کو بلا کر انہیں ریہرسل کروانا تھی۔

ان دنوںHMVاسٹوڈیوز ،جو بعد میں EMI کہلایا جانے لگا،میں ریکارڈنگ کے دن گلوکار کو سازندوں کے ساتھ بیک وقت LIVEگانا ہوتا تھا لیکن یہ سب کچھ شاہ نور اسٹوڈیوز میں ہوا۔(مصنف کا نوٹ:مجھے یہ معلوم نہیں کہ یہ گانا”میں دل ہی دل میں گاؤں “تھا لیکن اس گانے کو نیلو نے عمدہ اداکاری کرکے باغ جناح میں ریکارڈ کروایا۔نیلو کی کردار نگاری اور چہرے کے تاثرات بہت اعلیٰ معیار کے تھے)۔

اس وقت مجھے اس امر کا قطعی احساس نہیں تھا کہ مجھے موسیقار رشید عطرے اور ہدایت کارانور کمال پاشا کی ریکارڈنگ سے پہلے خواجہ خورشیدانور کاگانا ریکارڈکرنا پڑے گا۔اس حساب سے میرا پہلا گانافلم”ایاز“سے ہی گردانا جائے گا۔میرا فلمی نام ناہید انور کمال پاشا نے ہی تجویز کیا تھا۔فلمی دُنیا میں میراداخل ہونا خواجہ خورشید انور کی وجہ سے ہوا۔
انور کمال پاشا صاحب کی فلم ”باپ کا گناہ“میں منیر حسین کے ساتھ میرا دو گانا میرا دوسرا گانا بن گیا۔منیر حسین نے بھی اس گانے کی بدولت پہلی مرتبہ فلمی دُنیا میں قدم رکھا تھا۔
چند دلچسپ قصّے
بھارتی گلوکارمکیش نے اپنی وفات سے پہلے لندن آنا تھا جہاں پر انہوں نے بی بی سی کے موسیقی سے متعلقہ بھارت اور پاکستانی ستاروں کے انٹرویوز پر مبنی پر و گرام میں اپنے تاثرات ریکارڈ کرانا تھے۔

بھارتی اداکارہ جیا بہادری کے ایک انکل اس پروگرام کو ریکارڈ کیا کرتے تھے ۔میرے شوہر میرے لیے مکیش کا یہ پیغام لائے کہ وہ لندن ذرادیر سے آئیں گے کیونکہ وہ امریکہ میں اپنے شوز میں مصروف تھے ۔میں ان کے آنے کی وجہ سے بہت بے تاب تھی لیکن اگلے روز ہی ان کے انتقال کی خبر مجھ پر بجلی کی طرح گری اور میں کئی دن روتی رہی۔ایسے لوگ واپس نہیں آتے!
ایرانی اداکارہ شاہ پر
فلم”جان پہچان“کے لیے ،جوکہ پاکستان اور ایران کی مشترکہ کاوش تھی،کے لیے اداکارہ شاہ پر خود اپنا نغمہ گانا چاہتے تھیں لیکن ان کی گائیکی کی قابلیت محدود ہونے کے باعث وہ نغمہ مجھے گانا پڑا۔
میں نے ان سے وہ گانا پہلے گواکرپھران کے تلفظ اور لہجے کو کاپی کیا۔
نجمہ نیازی کی پس پردہ گائیکی
اپنی بہن نجمہ نیازی کے متعلق ناہید نیازی کہتی ہیں کہ ان دونوں نے فلم ”کوئل “کے لیے گانا”رم جھم رم جھم پڑے پھوہار“گایا تھا لیکن جب انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کار پوریشن میں بحیثیت پروڈیوسر ملازمت کرلی تو پس پردہ گائیکی کو خیر باد کرنا پڑا۔
اب ہم کبھی کبھی اپنے گائے ہوئے گانے ایک دوسرے کا سمجھ کر ایک دوسرے کو مسنون کرتے تھے ۔پھر کچھ عرصے بعد ہم نے یہ طے کر لیا کہ آئندہ ہم اپنے ان گانوں کو یاد نہیں کیا کریں گے۔
ناہید نیازی اور مصلح الدین نے 1964ء سے پی ٹی وی پر کام کرنا شروع کیا تھا۔مجھے یاد ہے کہ میرے پروگرام آئیڈیا ”سنگت“میں ایک قسط میں انہوں نے موسیقار خلیل احمد کی موسیقی میں ایک خوب صورت نغمہ گایا تھا۔
سیٹ ڈایزئنر احسن عابد کے سیٹ جو کہ ایک بڑے ملکہ کے تاش کے پتے پر مشتمل تھا میں ناہید نیازی ملکہ بن کے کھڑی ہوتی ہے اور گانا گاتے گاتے تاش کے پتے سے باہر نکل آتی ہے ۔یہ کام اس دور میں جدت پسندی پر مبنی تھا اور اسے بہت زیادہ پسند کیا گیا ،اس کے پروڈیوسر رفیق احمد وڑائچ تھے،پھر سانحہ مشرقی پاکستان ہو گیا۔
دونوں(ناہید نیازی اور مصلح الدین)کے لیے یہ ایک وقت امتحان تھا کہ پاکستان ٹھہریں یا بنگلہ دیش منتقل ہوں جس کے بعد دونوں میاں بیوی نے ایک تیسرے ملک یو کے کا انتخاب کیا اور وہاں منتقل ہو گئے ۔
اپنے خاوند کے انتقال کے بعد ناہید نیازی مقابلتاً پبلک میں کم نظر آنا شروع ہو گئیں ۔انہوں نے بنگالی زبان بھی سیکھنا شروع کی تھی کیونکہ وہ چاہتی تھیں کہ اس قوم کو اپنے خاوند کا اثاثہ منتقل کر سکیں۔
ناہیدنیازی ایک خوب صورت شخصیت کی مالک تھیں ’نہ صرف دیکھنے میں بلکہ اپنے اخلاق کی بدولت بھی۔
مندرجہ بالا انٹرویو سے آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ آزاد انہ اپنی رائے کا اظہار کرتی تھیں۔
انہوں نے بیرونی ممالک کے طور طریقوں سے سمجھوتہ کر لیا تھا کیونکہ ان کے بچے وہاں رہائش پذیر تھے ’اگر چہ انہیں پاکستان کی یاد ستاتی تھی لیکن انہوں نے اپنے بچوں اور ان کی اولاد سے دل لگایا ہوا تھا۔وہ کیلی فورنیا میں اپنے بیٹے کے پاس چلی جاتیں۔ اس طرح وہ اپنے بچوں کے پاس انگلستان اور امریکہ میں وقت گزارتیں ۔ان کی بیٹی نرمین انگلستان میں رہتی ہیں ،اس مقالہ کے لکھنے کے وقت وہ اپنے پوتے کو امریکہ سے انگلستان میں رہنے کے لیے کوشش کررہی تھیں اور دسمبر 2014ء کے بعد کچھ عرصہ کے لیے امریکہ غائب ہوجانے کا ارادہ رکھتی تھیں ۔

راس حافظ صدیقی نے امریکہ سے اپنے مراسلے میں لکھا تھا:”ناہید نیازی جنہوں نے اپنے شوہر موسیقار مصلح الدین کے انتقال کے بعد مقابلتاً محدود زندگی اختیار کی ہوئی ہے ،جب اپنے بیٹے فیصل جو سان فرانسسکو بے ایریا میں رہائش پذیر ہیں کے پاس آئیں تو سلیکون ویلی (Silicon Valley)کے پاکستانی نژاد امریکیوں نے کسی نیک مقصد کے لیے پیسے اکٹھا کرنے (Fund raising)کی مہم چلائی تھی ۔
انہوں نے یہ قبول کیا کہ ان کے خاوند کا انتقال ایک بہت بڑا سانحہ تھا ۔
لیکن اب وہ اپنے آپ کو سمیٹنے کی کوشش کررہی ہیں اور پاکستان واپسی کا ارادہ رکھتی ہیں اس طرح ہم مستقبل قریب میں ناہید نیازی کو پاکستان واپسی پر خوش آمدیدے کہہ سکیں گے!
ناہید نیازی نے پاکستان فلمی موسیقی کے سنہری دور میں اپنا مثبت کر دار ادا کیا۔ان کی گائیکی کے اثاثے کو محفوظ کرنا ہمارا اولین فرض ہے ۔
اگر چہ کوششیں اکادُ کا طریقے سے سر انجام دی جاتی رہی ہیں ۔لیکن پاکستانی سینما اور اس کی موسیقی کو محفوظ کرنے کے لیے ناہید نیازی کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔امید ہے یہ میری یہ کاوش بھی اس نیک مقصد کے حصول میں ایک مثبت اقدام ہے ۔
میوزیکالو جسٹ انیس شکور کے الفاظ میں ”یہ امر واضح کرنا ضروری ہے کہ 1960ء کی دہائی کی موسیقی میں ناہیدنیازی ایک شاندار شخصیت تھیں۔
وہ سفید رنگت ،بہت دلکش شخصیت ،بہت ذہین اور پاکستانی موسیقی کے سنہرے دور میں اعلیٰ کردار ادا کرنے کی مالک تھیں۔اپنی تعلیم پراثر اور جاذب شخصیت کے علاوہ وہ خوب صورت آواز کی بھی مالک تھیں ۔وہ ہمیشہ مستقبل کی بہتری کی طرف گامزن رہیں ۔انہوں نے اپنے شوہر مصلح الدین کی موسیقی میں 1958ء میں فلم ”آدمی“کے لیے ایک مقبول نغمہ”جاگ تقدیر کو جگالوں گی “پیش کیا۔
اس گانے کی وجہ سے وہ خواتین گلوکاروں کی صف اول کی آوازوں میں بہت جلد شامل ہو گئیں اور پہلے درجہ کی گلوکارہ مانی جانے لگیں ۔
لیکن جن گانے نے ان کو امر کردیا وہ مصلح الدین کی موسیقی ہی میں فلم ”زمانہ کیا کہے گا“میں احمد رشدی کے ہمراہ”رات سلونی آئی“تھا۔ پاکستانی سینما ایسی کئی کہانیوں پر مشتمل ہے جس میں بہت سے فن کار اپنے خوابوں کو حقیقت بنانے کے لئے کوشاں رہے ۔
ناہید نیازی ان ناموں میں ایک نام ہے جس نے اپنے خواب کو حقیقت دینے کی خاطر بہت جدوجہد کی ۔پہلے دن سے ہی انہوں نے بہت محنت کی ،انہیں معلوم تھا کہ ان کا یہ سفر آسان نہ تھا۔جب ان کی فلم ”دال میں کالا“کی نمائش کی گئی تو سینما بین صرف ان کا گانا”سمجھ نہ آئے دل کو کہاں لے جاؤں صنم “دیکھنے کے لئے یہ فلم دیکھنے گئے۔اس فلم کی موسیقی بھی مصلح الدین نے دی تھی ۔
ناہید نیازی کی آواز المیہ گیتوں جیسا کہ ”دل کو کہاں “کے لئے بھی موزوں ثابت ہوئی۔
دکھ درد محبت اور اذیت کی غمازی ناہید نیازی کی آواز ذریعہ سفر ثابت ہوئی جیساکہ فلم ”دال میں کالا“کے گانوں سے ظاہر ہوا۔ناہید نیازی کی توجہ کے باعث انہوں نے نہایت قلیل مدت میں کامیابیوں کی سیڑھیاں طے کرلی تھیں ۔بہت ہی معتبرناموں کے حامل موسیقار ان کی آواز کو اپنی موسیقی کی کامیابی کا ضامن سمجھنے لگے تھے اور نا ہید نیازی نے اپنی سُریلی اور جذبات سے بھر پور آواز سے لاکھوں شائقین کے دلوں میں گھر کر لیا تھا۔

اسی ضمن میں ناہید نیازی جنہوں نے ایک پر افسانہ گائیکہ کا درجہ حاصل کر لیا تھا،کا احمد رشدی کا دو گانہ”رات ہو گئی جواں“کا حوالہ دیا جاسکتا ہے ۔یہ گانا فلم ”دل نے تجھے مان لیا“سے تھا۔اس کے علاوہ ایک خوب صورت دھن ”حُسن بھی موج میں ہے “فلم ”مجھے جینے دو“کا بھی حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ نا ہید
 نیازی نے بہت ہی قلیل فلمی طرز زندگی میں بہت خوب صورت گانے شائقین موسیقی کے دلوں کو گرمانے کے لئے چھوڑے ہیں۔

Browse More Articles of Music