Pak Iran Mushtarka Film Sazi

Pak Iran Mushtarka Film Sazi

پاک ایران مشترکہ فلم سازی

سیدنورکوپروڈکشن کے تحت پہلی فلم بنائیں گے

پیر 20 مئی 2019

 وقاراشرف
ایران کی فلم انڈسٹری نے انقلاب ایران کے بعد بہت زیادہ ترقی کی ہے اور ہر سال ایرانی سینما سینکڑوں فلمیں پروڈیوس کررہا ہے جنہیں بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا جارہا ہے ۔یہ ایرانی فلمیں باکس آفس پر بھی بہت اچھا بزنس کررہی ہیں ۔آسکر بھی دو ایرانی فلمیں اپنے نام کرچکی ہیں ۔پاکستان اور ایران کے درمیان مشترکہ فلم سازی کے حوالے سے کوششیں تو ماضی میں ہوتی آئی ہیں لیکن وہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی ۔

اب یہ اعزاز سید نور کو حاصل ہونے جارہا ہے کہ وہ پاکستان اور ایران کے درمیان پہلی کو پروڈکشن فلم بنانے جارہے ہیں ۔سید نور ایک کھرے پاکستانی ہیں جو پاکستان کی سوچتے اور پاکستان کی بات کرتے ہیں ۔بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کے خلاف سب سے توانا آواز ان کی ہی رہی ہے اور اب بھی وہ پاکستان کی فلمی صنعت کی بقاکی جنگ لڑرہے ہیں ۔

(جاری ہے)

اس حوالے سے سید نور نے لاہور کے ایک مقامی کلب میں افطار ڈنر کا اہتمام کیا۔


اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سید نور نے کہا کہ ایران میں ایک بین الاقوامی فلم فیسٹیول فجر کے نام سے ہوتاہے جہاں دنیا بھر سے فلمیں اور فلم میکزر آتے ہیں اس طرح وہاں فلموں کی ایک بڑی مارکیٹ لگتی ہے۔میں دوبارپہلے بھی اس فلم فیسٹیول میں جا چکا تھا اس بار پھر مجھے دعوت نامہ ملا تو پھر گیا اور صائمہ نور بھی اس بار میرے ساتھ تھیں اور ان کا کسی بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں شرکت کا یہ پہلا موقع تھا۔
اس بار میں تہران کو دیکھ کر بہت خوش ہوا جو بہت بدلا ہوا لگا ،ایرانی بہت پیار کرنے والے لوگ ہیں ،وہ پاکستان سے بہت پیار کرتے ہیں جس کا مظاہرہ بھی ہم نے دیکھاکہ ہم جس دُکان پر بھی گئے تو انہوں نے پاکستانی ہونے کے ناطے نہ صرف ہمیں بہت عزت دی بلکہ قیمتیں بھی کم کردیں۔
فلم فیسٹیول میں دُنیا جہاں کی فلم انڈسٹریز نے اپنے اپنے سٹالز لگائے بد قسمتی سے وہاں پاکستانی فلموں کا کوئی سٹال نہیں تھا انشاء اللہ اگلے سال ہم بھی وہاں پاکستان کا سٹال لگائیں گے۔
فل فیسٹیول بہت بڑے شاپنگ مال میں ہورہا تھا،وہاں دوسرے فلور پرڈسکشنز ہورہی تھیں،سیمینارز میں لوگ اپنے اپنے تجربات شےئر کررہے تھے،ہم نے اس میں شرکت کرکے بہت کچھ سیکھا۔تیسرے فلور پر سکرینز تھیں جہاں مسلسل مختلف فلمیں چل رہی تھیں ،جیوری بھی وہاں بیٹھی تھی اور اپنا کام کررہی تھی۔وہاں لوگ اپنی اپنی پسند کی فلمیں دیکھ رہے تھے ۔
چوتھے فلور پرفوڈکورٹ تھا جہاں دنیا جہاں کے کھانے موجود تھے۔
وہاں میں نے جو فلمیں دیکھیں ان سے بہت کچھ سیکھا۔صائمہ نے مجھ سے بھی زیادہ انجوائے کیا۔میں فلمیں دیکھ دیکھ کر تھک جاتا تھا مگر وہ نہیں اور انہوں نے وہاں ہر قسم کی فلم دیکھی۔وہاں میری بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں جن میں ایران میں پاکستانی ایمبیسی کے شاہ پسند بھی شامل تھے۔پاکستانی ایمبیسڈر نے بھی وہاں ہمیں اپنے گھر کھانے پر بلایا۔

شاہ پسند نے ہی میری فاروق مغل سے ملاقات کروائی جوعرصے سے فلم بنانا چاہ رہے تھے لیکن انہیں صحیح ڈائریکٹر نہیں مل رہا تھا۔فاروق مغل نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو ہم نے ایک طویل ڈسکشن کے بعد فلم بنانے پر اتفاق کر لیا جو پاک ایران پہلی پروڈکشن ہوگی۔میں سمجھتا ہوں کہ ایرانی سینما دُنیا میں راج کررہا ہے اور اس کے ساتھ مل کر کام کرنے سے ہماری فلم انڈسٹری کو ضرور سہارا ملے گا ۔
ہم ایران کے ذریعے انٹرنیشنل مارکیٹ تک جائیں گے۔
فاروق مغل نے ہی میری ملاقات آغا مہدی ناد علی سے کروائی جو نہ صرف ایک اچھے ایکٹرہیں بلکہ وہاں ایکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر بھی ہیں ۔وہاں کاسٹنگ کا ایک طریقہ کار ہے کہ جس کسی کو بھی اپنی فلم کے لئے ایکٹر درکار ہو وہ ان کے ادارے میں جاتا ہے اور اپنے کردار کی ضرورت کے مطابق ایکٹرکا انتخاب کرتا ہے ۔
آغامہدی پھر مجھے ایک ایسے ادارے میں لے کر گئے جو تھری ڈی اور اپنی میشن کا بین الاقوامی معیار کاکام کرتا ہے ،ہم مستقبل میں اس ادارے کے ساتھ بھی مل کر کام کریں گے۔
سید نور نے کہا کہ پاکستان اور ایران دونوں ملکوں کی ایمبیسی نے بھی ہمیں بھر پور تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے اس لئے ہم پاک ایران کو پروڈکشن میں ایک نئے دور کا آغاز کرنے جارہے ہیں۔
ہماری فلموں میں کسی حد تک انڈین جھلک نظر آتی ہے جبکہ میری خواہش ہے کہ ہماری فلموں میں برادر اسلامی ملک کی فلموں کی جھلک نظر آئے۔فلم کی کہانی میں خود ہی لکھ رہا ہوں ،ڈائریکٹ بھی کروں گا ۔کہانی آدھی ایران اور آدھی پاکستان میں شوٹ ہو گی ،کچھ عرصہ ترکی میں بھی عکس بند کیا جائے گا۔
فلم کا نام ابھی فائنل نہیں کیا ،جہاں تک فلم کے موضوع کا تعلق تو یہ فیملی ڈرامہ ہو گی جس میں ریلیشن شپ کو موضوع بنایا جائے گا۔
ایران میں عکس بندی کے دوران ایرانی ہنر مندہوں گے جبکہ پاکستان میں پاکستانی ہنرمندوں سے استفادہ کیا جائے گا۔دونوں جگہ ڈائریکٹ میں ہی کروں گا ۔فلم کاہیروایران سے ہو گا۔ہیروئنز میں دو ہیروئنز پاکستان سے اور ایک ایران سے ہوگی۔
سپورٹنگ ایکٹرز پاکستان سے ہی ہوں گے۔مثلاً ندیم صاحب وغیرہ ،صائمہ اس فلم میں ضرور ہوں گی۔ہم اس فلم کے میوزک پر بہت زیادہ دھیان دے رہے ہیں فلم میں ایرانی میوزک بھی ہو گا تبھی تو فلم میں پاکستان اور ایران کی جھلک نظر آئے گی۔
میں بارش کا پہلا قطر ہ بنا ہوں،میرے بعد دوسرے لوگ بھی آگے آئیں اور پاک ایران مشترکہ فلم سازی کے عمل کو آگے بڑھائیں۔
سیدنور نے بتایا کہ انقلاب ایران سے قبل وہاں بھی بے ہو دہ فلمیں بنتی تھیں۔انقلاب کے بعد اکثر فلم میکرز بھاگ گئے جوبچ گئے انہیں امام خمینی نے بلا کرکہا کہ آپ لوگ فلمیں بنائیں میں نے ایک ادارہ
 ”فارانی“کے نام سے بنایا ہے جو آپ کو فلم کے لئے پیسے دے گا ،آپ لوگ اس بات سے قطع نظر کہ وہ فلم کامیاب ہوتی ہے یا ناکام آپ اچھی فلم بنائیں جس کے ذریعے اپنی قوم کی تعمیر نو کریں ۔
اس کے بعد ایران میں فلمیں بننا شروع ہو گئیں اورایرانی سینما نے کامیابی کی طرف سفر طے کیا۔وہاں اگر سینما اتنا آگے گیا ہے تو اس کے پیچھے وہاں کے ادارے فارابی کی بہت زیادہ سپورٹ تھی جبکہ پاکستان میں اکیلا سید نور کیا کر سکتا ہے،میں تو اپنی ہمت کے مطابق کام کررہا ہوں اور انشاء اللہ کرتا رہوں گا لیکن بڑا کام کرنے کے لئے بڑی سپورٹ کی ضرورت ہے۔

سید نور نے بتایا کہ ایران اب پہلے والا ایران نہیں ہے،وہ الٹرماڈرن لوگ ہیں لیکن کسی خاتون یا لڑکی کا سر ننگا نہیں دکھائی دے گا ۔6سال کی بچی سے لے کر 90سال کی بڑھیا تک گھر کے اندر بھی سکارف پہنتی ہیں ۔وہ کپڑے اچھے پہنتے ہیں لیکن سر ہمیشہ ڈھانپا ہوتا ہے ۔ان لوگوں نے سکارف کے ساتھ خود کو دنیا میں منوایا ہے اور 2آسکر بھی جیتے ہیں ۔فلم کی کامیابی کے لئے فحاشی ضرور ی نہیں ہوتی۔
میں بھی اب جو فلم بناؤں گا اس میں بے ہودگی نہیں ہوگی کیونکہ میں نے ہمیشہ صاف ستھری فلم بنائی ہے ۔اس فلم میں اپنے ملک کی دعوت دکھاؤں گا وہ ایک تہذیب یافتہ کردار ہو گا۔
فلم میں دو بچیاں دکھاؤں گا جن میں ایک ایران میں پلی بڑھی ہوتی ہے اور دوسری پاکستان میں ،دونوں کے ماں باپ ایک ہیں ۔اس طرح فلم میں دو الگ الگ کلچر ڈویلپ ہوں گے ۔ہمارے ہاں ایک دور تھا جب پنجابی فلموں میں بے ہودگی تھی اور انہیں دیکھنے والے کچھ لوگ بھی تھے۔
اگر چہ میں نے پنجابی فلموں کو ہمیشہ سپورٹ کیا ہے لیکن اب ہماری نئی نسل ہے جو ملٹی پلیکسز جاتی ہے اور پوپ کارن کھاتی ہے ،میں نے ان لوگوں کے لئے فلمیں بنانی ہیں ۔
فی الحال تو میں یہ فلم سینما کے لئے بنا رہاہوں ہاں اگر وہ واقعی شاہکار بن جاتا ہے اور بین الاقوامی فلم فیسٹیول والے اسے بلاتے ہیں تو ضرور وہاں لے کر جاؤں گا۔یہ فلم پاکستان اور ایران کے علاوہ انٹر نیشنل مارکیٹ میں بھی چلے گی۔
ہر جگہ بیک وقت چلے گی اور یہ ایک بڑے بجٹ کی فلم ہو گی۔اگر چہ ماضی میں بھی اس طرح کو ششیں ہوئی ہیں لیکن وہ لوگ سنجیدہ نہیں تھے جبکہ میں سنجیدگی کے ساتھ یہ پراجیکٹ کررہاہوں ۔حکومتی سطح پر فلم انڈسٹری کے لئے کچھ نہیں ہو گا کیونکہ حکومتوں کی ترجیحات اور ہیں ،ہمیں خود مل کر سنجیدہ کوشش کرنا ہو گی۔
اس موقع پر فلم کے پروڈیوسر فاروق مغل اور ایرانی اداکار آغا مہدی ناد علی بھی موجود تھے ۔فاروق مغل نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ میرا پہلا پراجیکٹ ہے۔میرا فلم بنانے کا مقصد پاکستان اور ایران کے لوگوں کو ایک دوسرے کے کلچر سے روشناس کروانا ہے جس کے لئے یہ فلم بہت مفید ثابت ہوگی۔

Browse More Articles of Other