Chamakti Jagmagati Purkashish Filmi Dunya Ka Tareek Pehlu

Chamakti Jagmagati Purkashish Filmi Dunya Ka Tareek Pehlu

چمکتی ،جگمگاتی ،پر کشش فلمی دنیا کا تاریک ودردناک پہلو!

اس عیش و ّآرام،اور دولت و ثروت کے پیچھے کیا کچھ چھپا ہوا ہے؟،کتنے دکھ ہیں جو اپنے ہنستے ہوئے چہروں کے ساتھ وہ لئے لئے پھرا کرتے ہیں؟،کس کو اس کی کچھ خبر ہے؟۔

بدھ 13 نومبر 2019

رضی الدین سید
پاکستان ہو یا بھارت،انگلستا ن ہو یا امریکہ،فلمی دنیا نے دنیا بھر کے انسانوں کے کردار پر ہمیشہ ایک گہرا اثر ڈالا ہے۔ یہ ایک چمکتی ،جگمگاتی اور جادوئی دنیا ہے جس کے سحر میں مبتلا ہوکر مرد و عورت دونوں کے دونوں بے ہودگی اور بدکاری کی طرف بگٹٹ بھاگتے ہیں۔فلموں میں کام کرنے والے اداکار اور اداکارائیں، اپنے عشوہ و ناز، مختصر لباس،رومانی مکالموں، اور عیش و عشرت کے سامان کے باعث تمام انسانوں کے لئے عموماََ ایک آدرش کا درجہ رکھتے ہیں۔
جو عروج و شہرت،اور جودولت ومقام انہیں حاصل ہوتے ہیں،عا م لوگوں کی تمنا ہوتی ہے کہ اس دنیا میں داخل ہوکر کا ش وہ بھی اسی عزت و مقام کو حاصل کرسکیں!۔ اداکاری کرنے والے لوگوں کو دنیا ”فنکار “ نہیں ”ستارے“ جیسے خوبصورت نام سے یاد کرتی ہے۔

(جاری ہے)

چنانچہ اسی بے پناہ کشش کے باعث ہندو پاک میں کئی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر ،اور بہت بھاری قیمت اداکرنے کے بعد ،فلمی دنیا میں داخل ہوتے ہیں جن میں سے کچھ ہی کامیاب رہتے ،اور بقیہ بے شمار ناکام ونامراد واپس لوٹ کر اپنی وخاندان کی عزت و آبرو سب سے محرو م ہوجاتے ،ہوجاتی ہیں۔


فلمی دنیا کے وہ بڑے نام جن کا سکہ ایک بڑی مدت تک جہاں بھر میں رائج رہتا ہے،او رجن کی تصویریں اور گانے لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کے دلوں کی دھڑکنیں بنے رہتے ہیں،لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ دنیا کے خوش قسمت ترین افراد ہیں۔کیاکچھ ہے جو ا نہیں حاصل نہیں ہے؟۔دولت ، شہرت ، عزت ، وقار ،اور آوارگی ، سب کے سب ان کے پیچھے گویا بھاگ سے رہے ہوتے ہیں۔
جہاں جہاں سے یہ صاحبان گزراکرتے ہیں، دنیا کی دنیا ان کی ایک جھلک دیکھنے ہی کو ہجوم در ہجوم امڈا ٓتی ہے۔
لیکن اس عیش و ّآرام،اور دولت و ثروت کے پیچھے کیا کچھ چھپا ہوا ہے؟،کتنے دکھ ہیں جو اپنے ہنستے ہوئے چہروں کے ساتھ وہ لئے لئے پھرا کرتے ہیں؟،کس کو اس کی کچھ خبر ہے؟۔ دنیا بھر کی آزادانہ سیر و سیاحت ،امارت ، ٹھاٹ ،تحسین، تمغوں، اور ناقابلِ یقین بھاری بھرکم معاوضوں کے پیچھے کون جانتا ہے کہ کتنی داستانیں چھپی ہوئی ہیں؟۔
کتنے ناسور ہیں جو ان شخصیات کو،اداکار و اداکاراؤں کو، اندر ہی اندر گھن کی طرح کھائے چلے جارہے ہیں؟۔ ہر وقت کی مے نوشی،جوئے،اور بدکاریوں نے ان کی خدمت میں ناقابلِ علاج بیماریاں تحفے میں پیش کی ہیں۔ خواتین ”ستاروں“ کا تو اس ضمن میں سب سے زیادہ ہی برا حال ہے!۔ خوبصورت جلدوں والی ان اداکاراؤں پر ویسے تو فلمی دنیا کے سب کے سب ہیروز جان دیتے ہیں، لیکن فی الاصل یہ سب کچھ محض مصنوعی ہوتاہے ۔
افسوس ناک طور پر یہ ہیروئنیں زندگی بھر بھی کسی کی نہیں ہوپاتیں۔ پردہ ء سیمیں پرچمک دکھانے والی خوبصورت جسم و جان کی مالک یہ ہیروئینیں اکثر اوقات انتہا سے زیادہ بدقسمت ثابت ہوتی ہیں کیونکہ ان کے مقدر میں عموماََ قتل ،خودکشی، یا چہر ہ جھلسایا جانا ہی لکھا ہوتا ہے۔ یہ حسین و جمیل ہیروئنیں عموماََ ا پنی م عمری ہی میں قبروں تک پہنچادی جاتی ہیں جبکہ انہوں نے زندگی کی محض ۲۵ یا ۳۰ بہاریں ہی دیکھی ہوتی ہیں۔
افسوس ناک طور پر کئی اداکارائیں بِن کھلے ہی مرجھا دی جاتی ہیں۔ ”باوقار “اور اعلیٰ ہیروئنیں بن کر بھی وہ بس مرد فنکاروں ،ہدایت کاروں، گلو کاروں، اور سرمایہ کاروں کی داشتہ بنی رہتی ہیں جن کے کوئی حقوق نہیں ہوتے۔ آگے سے آگے بڑھتے رہنے کی خاطر یہ لڑکیاں خو دکو مکمل طور پران کے حوالے کردیتی ہیں۔ان کے ساتھ گھومتی پھرتی،اور جائز و ناجائز تمام راستے اختیار کرتی ہیں۔
ہر ایک کے ساتھ گہرائی کی حد تک دوستی اپنا تی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ ان حربوں سے ان کا محبوب ہیرو آخرکا ر کامل طور پر ساری زندگی کے لئے انہیں اپنا بنا ہی لے گا۔
”میں کسی ایک کے ساتھ ٹک جاؤں گی،قرار پاجاؤں گی،اور اپنی بے چین روح کو تسکین دے لوں گی “، وہ سوچتی ہیں!۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ساری زندگی سب کی ہوکر رہنے کے باوجود وہ کبھی کسی ایک کی بھی نہیں ہوپاتیں۔
تب دردو غم سے وہ تڑپ تڑپ کر کراہ اٹھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ
مجھے اپنا بنا کر چھوڑ گیا
کیا اسیری ہے ،کیا رہائی ہے؟
اندر ہی اندر ایک کرب،ایک غم، ایک صدمہ،اور ایک ماتم انہیں کھوکھلا کرتا رہتاہے۔ چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی وہ پھر ُمنشیات اور شراب کے ساغر میں ڈوبنے لگتی ہیں، کہ یہی ا ن کے غموں اور صدموں کے تقاضے ٹھہرتے ہیں!۔
حتیٰ کہ آخر کار اندر ہی اندر سے ان کا جسم گلنے سڑنے لگتا ہے،وہ جان لیوا بیماریوں میں گھر جاتی ہیں،کینسر ہوجاتاہے، ایڈز ہوجاتی ہے، گردے جواب دے جاتے ہیں، پاگل پن کے دورے پڑنے لگتے ہیں، اور پھر یکایک خبر آتی ہے کہ ماضی کی یہ خوبرو ہیروئن ،کروڑوں دلوں کی دھڑکن ،اورفلم سازوں کی مطلوبہ،بسترِمرگ پر ہسپتال میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر بے کسی میں مر گئی جبکہ امداد و تشفی کے لئے کوئی ایک بھی فرد وہاں نہیں آیا۔
وہ بھی نہیں جنہوں نے اسے کھلونا بننے پر مجبور کیا تھا!۔ دوسری خبر آتی ہے کہ ہیروئن نے کمرے میں بند ہوکر اپنے ہی ریوالور سے خود کو گولی مار کر ہمیشہ کے لئے ٹھنڈا کرلیا۔ خوشگوار آغاز اور عروج و دولت کے عین وسط میں پہنچ کر انہیں اچانک کسی بھیانک انجام کا سامنا کرنا پڑجا تا ہے۔ کبھی کبھی تو بلکہ ان کی درد انگیز داستان پڑ ھ کر ہم جیسے سنجیدہ ترین افراد کی بھی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔

ذیل کے قصے ،ماضی کی ایسی ہی چند ہیروئنوں سے وابستہ ہیں ۔کاش کہ انہیں پڑھ کر کوئی عبرت حاصل کرسکے!ْ۔ کاش کہ کوئی سوچ سکے کہ کہ وہ سرمایہ جسے دل کا سکون کہتے ہیں، کسی بھی حال میں مول نہیں خریدا جاسکتاکیونکہ ”علاجِ دردِدل“ سوائے اخلاقی اقدار کی پاسداری ،خاندان کی گہری وابستگی،اور دین ِ اسلام کے ساتھ پیہم تعلق کے “اور کہیں نہیں پایا جاتا۔

1۔رقاصہ نگّو
اپنے وقت کی یہ خوبرو رقاصہ کام کرتے کرتے اپنے پروڈیوسر خواجہ مظہر کو دل دے بیٹھی تھی اور آخر کارخود کو اس کے ساتھ شادی کے بندھن میں باندھ لیا تھا۔ مطمئن تھی کہ اسے ایک اچھا جیون ساتھی اور ایک اچھی منزل مل گئی ہے!۔ مگر دھیرے دھیرے دونوں خاندانوں میں چپقلش پیدا ہونے لگی اور بڑھتے بڑھتے اتنی زیادہ ہو گئی کہ نگو کو ماں باپ کے گھرآکربیٹھ جا نا پڑا ۔
بندھن کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا مگر نگو کا دل اپنے شوہر کی طرف سے بیزار رہنے لگا تھا۔پروڈیوسر نے بہت ضد کی ،منت سماجت کی ،ہاتھ جوڑے، مگر نگو نے پھر اس کے گھر لوٹ جانا قطعی پسند نہیں کیا۔ انہونی آخرکا رہوکر ہی رہی۔ خواجہ مظہر کو جلال آگیا۔اسٹین گن ہاتھ میں لے وہ اس کے گھر گھسا اور اچانک فائر کرکے اپنی بیوی کو ہمیشہ کے لئے ٹھنڈا کردیا۔
ایک خوبرو اور مہنگی رقاصہ کو اس نے دنیا سے پاک کردیا تھا !
2۔ نادرہ
 اپنی بے مثل خوبصورتی اورعمدہ فنکاری کے باعث یہ اداکارہ کبھی پاکستانی ”لالی وُوڈ“ پر راج کیا کرتی تھی۔کہا جاتا ہے کہ کبھی کبھی اس کا معاوضہ محض ایک رات کے ”مجرے “ کا کئی لاکھ روپے تک پہنچ جاتا تھا۔ بے شمار بااثر کروڑ پتی افراد اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے بے تاب رہا کرتے تھے۔
اور جب وہ اسٹوڈیو آیا کرتی تھی تو اکثر اپنے کسی دوست کی مہنگی ترین گاڑی ہی میں آیا کرتی تھی۔
لیکن ایک دن اچانک ایک دردناک واقعہ اس کے ساتھ پیش آگیا۔کسی ریسٹورینٹ سے باہر آتے ہوئے کسی رقیب نے دروازے ہی پر اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی جس سے وہ فوری طور پر جاں بحق ہوگئی۔ابھی دنیا کی بہت زیادہ رونقیں بھی وہ نہیں دیکھ سکی تھی کہ گناہوں سے بھر ا ہوا جسم لے کر قبر کی گہری کوٹھری میں جالیٹ گئی ۔

3 ۔یاسمین خان(شمشاد)
پشتو اداکارہ جس نے ۱۹۷۵ء میں”دلہن ایک رات کی“ سے عروج حاصل کیاتھا،اور فلم” ہتھکڑی “میں جس پر ”جوانی میری بجلی، طوفان میرا نخرہ“ والا گانا فلمایا گیا تھا ،محبت کی اسیر ہوکر پہلے اس نے اسٹوڈیو کے مالک عبدالباری سے شادی کی،لیکن ذہنی مطابقت نہ ہونے کے باعث جلد ہی اس سے جان چھڑالی۔ اور پھر ایک امیر کبیر شخص عارف اللہ سے شادی رچالی۔
بد قسمتی سے عارف اللہ کی ایک بیوی پہلے سے بھی موجود تھی جسے یاسمین خان سے اس نے چھپایا تھا۔ ویسے بھی یہ شخص بر ی لتوں میں مبتلا تھاجس سے جان چھڑا نے کے لیے یاسمین نے اس پر بہت دباؤ ڈالاتھا۔دوسری طرف عارف اللہ کے گھر والے یاسمین سے نفرت کرتے تھے۔یاسمین کے ناصحانہ اور بار بار کے اصلاحی دباؤ تنگ آکر عارف اللہ نے غصے میںآ کر اپریل ۱۹۹۵ میں اسے اپنے کمرے میں قتل کردیا اور پھر کمرے کو باہر سے تالالگا دیا۔

افسوس ناک اور عبرت انگیز بات اس قصے میں یہ ہے کہ یاسمین خان کی لاش وصول کرنے سے اس کے والدین او ر سسرال دونوں ہی نے انکار کردیا تھا۔ چنانچہ اس کی تجہیز و تکفین محلے والوں او رفلمی دنیا کے لوگوں نے اپنے طور پر انجام دی ۔
4۔ماروی
یہ سندھی اداکارہ کبھی لالی ووڈ کی جان ہوا کرتی تھی۔پاکستانی فلمی دنیا میں اس نے اپنا مقام بہت جلدبنا لیا تھا۔
اس نے ابھی محض تین چار فلموں ہی میں اداکاری کے جوہر دکھائے تھے کہ فلمی بڑوں نے اس کے اندر ایک ”بڑی ہیروئن“ کا مستقبل ڈھونڈ لیا تھا۔خود اس کے نام پر بھی ایک فلم”ماروی “ بنی تھی جس میں اس کے مدمقابل ہیرو ،فیصل قریشی تھا ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ عروج کے ساتھ بدقسمتی بھی اس کا مسلسل پیچھا کررہی تھی۔ایک ناکام عاشق اسے خاک و خون میں نہلانے کے منصوبے پر کام کررہا تھا۔

یہ ۲۵اگست۱۹۹۸ کی بات ہے۔طارق روڈ پر (جو کراچی کی ایک مصروف اور مہنگی مارکیٹ ہے) ،ما روی اپنی کارخود ہی ڈرائیو کرتی ہوئی جارہی تھی کہ ایک سگنل پر مذکورہ منتقم مزاج عاشق نے قریب آکر اچانک اس پر کئی گولیاں لگا تار فائر کیں اور دن دہاڑے فرار ہوگیا۔ کم ا ز کم آدھے گھنٹے تک ماروی اپنی گاڑی میں لاوارث حالت میں پڑی رہی۔خوف کے باعث کسی کو بھی اس کی مدد کے لئے آگے آنے کی ہمت نہ ہوسکی۔
تاآنکہ پولیس وہاں پہنچی۔ معروف اداکارہ بیچ بازار میں پہلے توزخمی حالت میں تڑپتی رہی اور بعدازاں مردہ حالت میں پڑی رہی۔ فلمی دنیا میں عروج کی انتہا پانے کے چکر میں اس خوبرو اداکارہ کا بھی آخر کاروہی حشر ہوا جو اس سے پہلے گذری ہوئی نامور اداکاراؤں کا ہوا یعنی ہ ہ مو ت کی آغوش میں پہنچادی گئی!
5۔عندلیب
” پاکستانی فلم’گھونگھٹ‘ سے اپنی اداکاری کا آغاز کرنے والی یہ نوجوان لڑکی اپنے اندر فلمی فنکاری کے بے پناہ جوہر رکھتی تھی“۔
یہ الفا ظ معروف ہدایت کار سید نور کے ہیں۔اس کا کہنا ہے کہ دیگر فنکاروں کی مانند اس کے بھی چند بوائے فرینڈز تھے جن میں سے ایک نمایاں نام سیالکوٹ کے صنعتکار حنیف گھمن کا تھا۔ دونوں ایک دوسرے پر از حد فریفتہ تھے اور اکثر مقاقامات پر یکجا ہی دیکھے جاتے تھے۔
مگر جیسا کہ فلمی دنیا میں ہوتاہے ،عندلیب نے بھی کچھ عرصے کے بعد گھمن کو نظر انداز کرنا شروع کردیا اور کسی اورکے ساتھ نظر آنے لگی۔
گھمن کے ساتھ یہ ایک صریح بے وفائی تھی۔ اس نے اسے نہ صرف یہ کہ دل دیا تھا بلکہ اس پر اپنا سرمایہ بھی لگایا تھا۔وہ بھلا یہ بے وفائی کیسے برداشت کرسکتا تھا؟۔چنانچہ بے رحمانہ انتقامی کاروائی کرتے ہوئے اس نے ایک دن عندلیب کے چہرے پر تیزاب کی بوتل پھینک دی جس سے اس کا چہرہ بر ی طرح جھلس گیا او روہ بے شکل ہوگئی ۔ خوبصورت چہرہ آناََفاَناڈراؤنا سا ہوگیا۔
بہرحال اداکارہ نے ایک بڑی پلاسٹک سرجری کروائی اور حسن دوبارہ حاصل کرلیا ۔تاہم اس کے لئے یہ صدمہ اس قدر حوصلہ شکن تھا کہ بعد ازاں فلمی دنیا کواس نے از خود ہی طلاق دے دی اور کسی اور کے ساتھ شادی کرکے گوشہء گمنامی میں جا بیٹھی۔ کل کی چنچل اداکارہ عندلیب کا آج کوئی نام تک نہیں جانتا۔
6۔انجیلا جولی
ہالی ووڈ کی یہ ایک معروف وحسین عالمی اداکارہ ہے ۔
کبھی اس نے اپنے ساتھی اداکار بریڈ پیٹ کے ساتھ ٹوٹ کر محبت کی تھی ۔ دس سالوں تک بغیر شادی کے زندگی گزارنے کے بعد انجیلا نے اس کے ساتھ باہمی شادی رچالی تھی۔اب ا ن کے ہاں تین” ذاتی “بچے جنم لے چکے تھے ۔بریڈ پِٹ اور انجیلا جولی کے عشق و رومان کی داستانیں عالمی افسانوی شہرت اختیار کرچکی تھیں اور شو بز کے جرائد ان کی تصویریں شائع کرکے اپنی دولت بناتے تھے جبکہ پاپارازی فوٹو گرافرس ان کے پیچھے دن رات بھاگے بھاگے پھر اکرتے تھے۔
اقوام ِ متحدہ نے بھی جولی کو بین الاقوامی پنا ہ گزینوں کا سرکاری سفیر مقرر کیا تھا جس حیثئیت سے ان دونوں نے کئی ممالک کے دورے کئے تھے ۔وہاں انہیں سرخ قالینی استقبالئے پیش کئے جاتے تھے۔اسی باعث انہوں نے تین دیگر پناہ گزین بچوں کو بھی گود لیاتھا۔ اب ان کے ہاں چھ بچے ہوگئے تھے۔
تاہم یہ سب کچھ اب قصہء ماضی ہے۔ انجیلا نے ناراضگی کے باعث اپنے سابق بوائے فرینڈاور شوہر” پیٹ “ سے طلاق لے لی اور گھر چھوڑدیا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ وہ بریڈ پٹ کے روئیے سے حد درجہ دلبرداشتہ تھی اور محسوس کرتی تھی کہ وہ اسے اب اپنی محبوب بیوی کے طور پر نہیں لے رہا ہے ۔انجیلا اپنے سابقہ شوہر سے اس قدر بیزار ہوئی کہ اس نے پنے جسم پر” بریڈ پیٹ “کے جو ٹیٹوز کھدوائے تھے ،انہیں بھی اس نے انتقام کے جوش میں ختم کروادیا ہے ۔تاہم جولی کے اس فیصلے سے بریڈ پیٹ کو سخت دھچکہ پہنچا۔
اس کا کہناتھا کہ اس کی ترجیح اب اپنے بچوں پرمکمل توجہ دینا ہے جو اطلاعات کے مطابق نفسیاتی علاج کروارہے ہیں۔عالمی جوڑے کی اس علیحدگی کی خبر سے دنیا بھر کے فلمی شائقین انتہائی صدمے میں # رہے کیونکہ ان دونوں کے بارے میں وہ کبھی ایسا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔
تاہم ان تمام سانحات میں ان لوگوں کے لئے عبرت کا بہت کچھ سامان ہے جو مغرب کے اس نقطہء نظر کے قائل ہیں کہ مردو خاتون اگر شادی سے قبل کچھ عرصہ ایک ساتھ زندگی گزار لیں اور باہمی طور پر ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھ پرکھ لیں ۔
اور پھر خود کو شادی کے بندھن میں باندھیں تو وہ شادی زیادہ پائیدار ثابت ہوگی ۔”انجیلا جولی اور بریڈ پیٹ جوڑے “کی افسانوی شادی کا ٹوٹ جانا مذکورہ نظرئیے کے واہیات ہونے کی ایک واضح و زندہ مثال ہے ۔
 مندرجہ بالا واقعات فلمی دنیا کی ہولناک تاریخ میں سے محض چند ہی نمونے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ قتل و خون ، شکل بگاڑے جانے ،خود کشی کر لینے ،اور کچھ عرصے بعد لاوارث چھوڑدئے جانے کی یہ حکایتیں طویل تر ہیں۔
یہ تمام واقعا ت قومی روزناموں روزنامہ ڈان و جنگ کراچی کی حالیہ و سابقہ اشاعتوں،اور گوگل سرچ سے اخذ کئے گئے ہیں ، مقصد جن کا شو بز کی جانب جان فریفتہ کرنے والی نوجوان و پاک دامن لڑکیوں کو متنبہ کرنا ہے۔” خبردار ہوشیار۔آگے خطرہ ہے!“ ۔یاد دلانا ہے کہ شہرت و دولت کا یہ راستہ گہری کھائیوں سے گزر کر جاتا ہے جہاں سانپ ہیں بچھو ہیں،اورآگ کے الاؤ ہیں۔
گھاگ مردوں کے ہاتھوں بے شمار” امتحانات“سے گزرنے کے بعد ہی کسی لڑکی کو کوئی کامیابی نصیب ہوتی ہے۔مگر کیسی کامیابی ؟۔یہاں ہر ہر موڑ پر ایک جسمانی ”اذیت “ ان کے لئے لکھی ہوئی ہے۔ بدنامی، کالک، رسوائی اور پاکیزگی کی تاتاری، سمیت قتل ، چہرہ جھلسا ئی، خود کشی ،اور نفسیاتی امراض،سب کچھ طے شدہ سانحے ہیں۔ پھر نہ والدین کام آتے ہیں اورنہ بھائی بہن!۔ قوم کی معصوم بیٹیو: دیکھو اور سمجھو۔ ”خبردار آگے گہری خندق ہے! “

Browse More Articles of Lollywood