Syed Ishrat Abbas Se Darpan Tak

Syed Ishrat Abbas Se Darpan Tak

سید عشرت عباس سے درپن تک

وہ عام زندگی میں بھی ہیرو نظر آتے تھے

منگل 8 نومبر 2022

وقار اشرف
پاکستان فلم انڈسٹری کے خوبرو اداکار درپن کو مداحوں سے بچھڑے 42 برس بیت گئے،وہ 8 نومبر 1980ء کو لاہور میں راہی ملک عدم ہو گئے تھے،اس وقت ان کی عمر 52 سال تھی اور مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔درپن عام زندگی میں بھی ہیرو سے کم نظر نہیں آتے تھے۔1929ء کو اُتر پردیش میں پیدا ہونے والے درپن کا حقیقی نام سید عشرت عباس تھا لیکن فلموں میں درپن کے نام سے شہرت حاصل کی۔
وہ نامور اداکار سنتوش کمار،ہدایت کار ایس سلیمان اور اداکار منصور کے بھائی تھے۔
درپن نے فلمی سفر کا آغاز ہدایت کار حیدر شاہ کی فلم ”امانت“ سے کیا جو 21 دسمبر 1950ء میں سینماؤں کی زینت بنی اس میں وہ اپنے اصل نام عشرت عباس کے ساتھ جلوہ گر ہوئے تھے۔

(جاری ہے)

ان کی دوسری پنجابی فلم ”بلو“ تھی جس کا نام پہلے ”میراثی“ رکھا گیا تھا لیکن احتجاج کے بعد نام بدل کر ”بلو“ رکھ دیا گیا۔

پاکستان میں چند فلموں میں کام کرنے کے بعد وہ ممبئی چلے گئے جہاں انہوں نے ”عدل جہانگیری“ اور ”باراتی“ میں کام کیا۔”عدل جہانگیری“ میں محمد رفیع کا گایا ہوا گانا ”اپنا ہی گھر لُٹانے میں دیوانہ جا رہا ہے“ بڑا مشہور ہوا تھا۔
لاہور میں انہوں نے درپن کے فلمی نام سے فلم ”باپ کا گناہ“ سے فلمی کیریئر کا دوبارہ آغاز کیا اس کے بعد انہیں بہت سی فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا جن میں پاکستان کی پہلی رنگین فلم ”نائلہ“ سرفہرست ہے۔
انہیں لگاتار دو فلموں میں بہترین اداکار کا نگار ایوارڈ بھی ملا تھا۔
پہلا ایوارڈ 1959ء میں بننے والی فلم ”ساتھی“ اور دوسرا 1960ء میں آنے والی فلم ”سہیلی“ پر ملا تھا۔1959ء میں انہوں نے ایک فلم ”ساتھی“ بنائی جس میں ان کے ساتھ نیلو،طالش،حُسنہ اور نذیر نے کام کیا تھا،یہ فلم بہت مقبول ہوئی اور اسی سے درپن کی کامیابیوں کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
اس کے بعد انہوں نے کئی کامیاب فلموں میں کام کیا جن میں ساتھی،رات کے راہی،سہیلی،گلفام،قیدی،آنچل،باجی، شکوہ،اِک تیرا سہارا،نائلہ،انسان بدلتا ہے، دلہن،شکوہ،آنچل اور پائل کی جھنکار نمایاں ہیں۔بطور ہیرو درپن کی آخری کامیاب فلم ”پائل کی جھنکار“ 1966ء میں ریلیز ہوئی اور اس کے بعد انہوں نے کریکٹر اور سپورٹنگ رول ادا کرنا شروع کر دیئے تھے۔

درپن نے اگرچہ کم لیکن معیاری فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے،انہوں نے مجموعی طور پر 67 فلموں میں کام کیا جن میں 57 اردو،8 پنجابی اور دو پشتو فلمیں شامل تھیں۔بطور فلمساز بھی چند فلمیں بنائیں جن میں بالم،گلفام،تانگے والا،انسپکٹر اور ایک مسافر ایک حسینہ شامل ہیں۔درپن نے نیئر سلطانہ کے علاوہ نیلو،مسرت نذیر،رانی،شمیم آراء،زیبا کے ساتھ بھی بطور ہیرو کام کیا تھا۔
بطور ہیرو 15 فلمیں شمیم آراء کے ساتھ اور 16 فلمیں اپنی بیوی نیئر سلطانہ کے ساتھ تھیں۔درپن اور شمیم آراء کے افیئر کی خبریں بھی اخبارات کی زینت بنی تھیں مگر انہوں نے اداکارہ نیئر سلطانہ کو جیون ساتھی بنا لیا۔درپن اور نیئر سلطانہ کو سلور سکرین کی حسین ترین جوڑی ہونے کا اعزاز حاصل رہا اور یہ شادی فلمی صنعت کی کامیاب ترین شادیوں میں شمار ہوتی ہے یہ بندھن مرتے دم تک قائم رہا۔

بھارت میں قیام کے دوران ان کے اس وقت کی حسین اداکارہ نگار سلطانہ کے ساتھ تعلقات بن گئے جو بڑھتے بڑھتے محبت میں تبدیل ہو گئے،نگار سلطانہ نے بھارتی فلم ”مغل اعظم“ میں دل آرام کا کردار بھی کیا تھا،درپن دوبارہ پاکستان آگئے اور یہاں قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہو گئی اور انہیں فلمیں ملنا شروع ہو گئیں۔نگار سلطانہ بھی ان کے پیچھے پیچھے پاکستان چلی آئیں لیکن کچھ عرصے بعد ناکام واپس لوٹ گئیں۔

1960ء کی دہائی میں ریلیز ہونے والی فلم ”سہیلی“ نے ان کے فلمی کیریئر کو نیا موڑ دیا جس میں بہترین اداکاری پر صدارتی ایوارڈ بھی ملا، اس فلم میں ان کے ساتھ شمیم آراء اور نیئر سلطانہ نے اداکاری کے جوہر دکھائے تھے درپن کا اس میں ڈبل رول تھا۔کہا جاتا ہے کہ وحید مراد کے فلم انڈسٹری میں آنے کے بعد ان کی مقبولیت کا سورج گہنا گیا تھا،انہوں نے فلموں کے بعد اپنی ریکروٹنگ ایجنسی بنا لی تھی۔ان کی وفات کے بعد نیئر سلطانہ ان کا کاروبار چلاتی رہیں اور 12 سال بعد اکتوبر 1992ء میں وہ بھی انتقال کر گئیں تو انہیں خاوند کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

Browse More Articles of Lollywood